اُنیسواں مبارک یومِ تکبیر

تنویر قیصر شاہد  جمعـء 26 مئ 2017
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

اِس سے پہلے کہ ہم 28مئی کے حوالے سے 19ویں یومِ تکبیر کی خوشیوں اور کامیابیوں کا ذکر کریں، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں ایک چھوٹی سی کہانی بیان کی جائے۔فیصل آباد کے ایک میرے دوست نے مجھے یہ کہانی سنائی: ہمارے دیہاتوں میں زمین اور پانی کی تقسیم کے چھوٹے چھوٹے جھگڑے اکثر ہوتے رہتے ہیں۔ بدقسمتی سے بعض اوقات یہ چھوٹے چھوٹے تنازعے بڑھ کر قتل و غارتگری تک پہنچ جاتے ہیں ۔

پھر کئی نسلیں بھی تباہ ہو جاتی ہیں اور زمینیں جائیدادیں بھی رفتہ رفتہ مقدمات کی نذر ہو کر برباد ہو جاتی ہیں۔ ضِد نبھانے اور برادری میں ناک اونچی رکھنے کی خاطر بڑی بڑی قربانیاں دینے سے گریز نہیں کیا جاتا۔یہ دراصل انسانی جبلّت کی داستان ہے۔ ہمارے گاؤں کے سامنے  والے گاؤں میں بھی ایسی ہی ایک المناک کہانی برسہا برس تک جاری رہی۔ جھگڑے کے ایک کمزور فریق کا سربراہ بابا فتّا (فتح دین) تھا۔ ایک روز بابا فتّا قرض لینے کے لیے ہمارے گھر آیا۔ ابا جی بیٹھک میں بیٹھے کوئی کام نمٹا رہے تھے۔

بابا فتّا دوبار پہلے بھی ابا جی سے قرض لے کر قتل کے مقدمات نمٹانے کے لیے کچہریوں اور وکیلوں پر خرچ کر چکا تھا۔مَیں نے جرأت کر کے بابا فتح دین سے پوچھا: آپ لوگوں کو جب معلوم ہے کہ دوسرا فریق آپ سے عددی اعتبار سے بھی تگڑا ہے، زمین بھی اُس کی زیادہ ہے، پیسے دھیلے بھی اُس کے پاس زیادہ ہیں، اُس کے پاس برادری اور بندوقیں بھی زیادہ ہیں تو آپ کیوں اپنے بندے بھی مروا رہے ہیں اور مقدمات لڑنے پر قرضوں تلے بھی دبتے چلے جا رہے ہیں؟ آگے بڑھ کر صلح کیوں نہیں کر لیتے؟ بابا فتّا زہر خند ہُوا۔ پھر کہنے لگا:’’ صلح کی کوشش کر کے ہم نے دیکھ لی تھی۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پھر اُنہوں نے ہمیں کمزور سمجھ کر ایک روز ہماری پکی گندم کی فصل پر قبضہ کر لیا۔

پھر چند ہفتے بعد ہماری ایک بہو کی دن دیہاڑے بے عزتی کر دی۔ اُس روز میرے پوتے نے کہیں سے پستول حاصل کیا اور شام سے پہلے بے عزتی کا بدلہ لے لیا۔ دوسرے روز دوسرے فریق نے میرے پوتے کو چارہ کاٹتے جاتے فائر مار کر قتل کر دیا۔ ‘‘ بابا فتا رُکا اور بولا:’’ مَیں نے تین ہفتے بعد گاؤں کے قریب والی زمین بیچی اور دو رائفلیں خریدیں ۔ شام ہونے سے پہلے پہلے ہم نے اپنے پوتے کے قاتل کو وہیں مارا جہاں اُس کا خون کیا گیا تھا۔ پھر چل سو چل۔اب تک وہ ہمارے تین مار چکے ہیںاور ہم اُن کے دو۔وہ بھی جیل میں ہیں اور ہم بھی۔ ‘‘ بابا فتّا بولا:’’ ہمیں معلوم ہے کہ وہ ہم سے بھاری ہیں لیکن اپنی آن، عزت اور خاندان کی حُرمت کی خاطر سب کچھ جھیلنا پڑتا ہے۔ اگر عزت ہی نہ رہی، دشمن ہماری بہو بیٹیوں کو سرِ عام بے عزت کرتا رہے ،ہماری فصلیں اجاڑتا رہے تو پھر پتر یہ زمینیں ہمارے کس کام کی؟‘‘ برسوں بعد دونوں فریق تھک گئے۔ پھر ایک روز کسی بھی وچولے اور درمیان دار کے بغیر وہ دونوں یکجا بیٹھے، طویل گلے شکوے کیے اور ایک دوسرے کے گلے لگ کر ہمیشہ کے لیے باہمی غارتگری سے توبہ کر لی۔

اُنیسویں یومِ تکبیر کے نزدیک آتے ہی مجھے بابا فتّا کی یہ بات بہت یاد آ رہی ہے۔اس میں قبائلیت کی خشونت اور وحشت تو یقینا ہے، ہٹ دھرمی بھی ہے، اپنا جانی مالی نقصان بھی ہے لیکن بابا ٹھیک کہتا تھا کہ پُتر اگر دشمن دن دیہاڑے ہماری عزتیں پامال کرتا رہے تو ہم نے اپنی زمینوں کو پھاہے دینا ہے؟ دشمن کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمیں بھی بندوقیں خریدنی ہیں ،اگرچہ ہم نے صلح کرکے بھی دیکھ لی تھی لیکن صلح کو ہمارے دشمنوں نے ہماری کمزوری اور بزدلی سمجھا۔ پاکستان نے بھی اپنے ازلی دشمن ہمسائے سے صلح اور آشتی کی ہر کوشش کر کے دیکھ لی لیکن وہ ہماری جڑیں کاٹنے اور ہمارے وجود کے خاتمے کی ہر ممکنہ کوشش سے باز نہ آیا۔

اُس نے اپنے خبثِ باطن کا اظہار کرتے ہوئے ہمارا ایک بازو بھی کاٹ پھینکا ۔ اور اب وہ ہمارے بقیہ وجود کے بھی درپے تھا۔ بیالیس سال پہلے بھی اُس نے ایٹم بم بنا کر ہمیں دھمکی دی تھی۔ اس کا درست جواب دیتے ہوئے ہمارے ایک منتخب وزیر اعظم نے بجا کہا : ہم گھاس کھا لیں گے لیکن تمہارے مقابلے میں ایٹم بم بنا کر رہیں گے۔ سات سمندر پار سفید گھر میں رہنے والے سفید ہاتھی نے ہمارے لیڈر کو دھمکایا تھا کہ ایٹم بم بناؤ گے تو جان سے جاؤ گے ۔ اُس نے مگر کہا،پروا نہیں۔ قوم اور ملک کے تحفظ کی خاطر جان حاضر ہے لیکن اب جوہری طاقت کے حصول کی طرف اُٹھے قدم واپس نہیں ہوں گے۔ طنازوں اور تبرا کرنے والوں نے ہمیں کہا کہ تم لوگوں کی روٹی پوری ہوتی ہے نہ تمہیں پینے کو صاف پانی میسر ہے۔ تمہارے پاس تعلیم ہے نہ صحت۔ قرض کی مَے پیتے ہو اور ڈکارتے بھی ہو۔ ہمارے بڑوں نے مگر یہ سب طنز و تعریض برداشت کیا۔

سب سہا۔ قدم مگر واپس نہ ہوئے۔ خاموشی،رازداری،کمٹمنٹ، لگن، صبر کے ہتھیاروں سے لَیس ہو کر ایک قافلہ سخت جاں مسلسل آگے ہی آگے بڑھتا رہا۔ دشمن جاسوسوں نے سُن گن لینے کی بے حد کوششیں تو کیں لیکن ناکام رہے۔ کسی روز کوئی انصاف پسند لکھاری اُٹھے گا اور ان اولوالعزم انسانوں کی جب داستانِ بے پناہ لکھے گا تو مارے جذبات کے خود بھی رو پڑے گا۔ یہ ایک حیرت کدہ ہے۔ ایک اُجڑی پُجڑی قوم ، غربت اور دست نگری کی ماری قوم ، قرضوں کے بوجھ تلے دبے ملک کے چند دیوانوں نے کسی بھی صلے اور انعام کی پروا کیے بغیر پاکستان ، اس کے عوام ،اس کے سیاستدانوں اور اس کے عسکری جوانوں کو سرفراز کر دیا۔ ایٹمی طاقت سے مالا مال کر کے۔ دنیا کی پہلی اور واحد اسلامی مملکت نے ایٹم بم کی بے پناہ طاقت کا زیور پہنا تو دنیا دیکھتی کی دیکھتی رہ گئی۔ ہمارے ازلی دشمن کی تو سٹّی گم ہو کر رہ گئی۔ کانٹے سے کہوٹے تک کا یہ جانگسل سفر ایسا سفر ہے جس پر ہماری ساری قوم فخر کر سکتی ہے اور فخر کر رہی ہے۔ بجا کہ ہم میں ابھی بہت سی کمزوریاں،خامیاں اور کجیاں ہیں لیکن اس کے باوصف کوئی ہم سے یہ فخر چھین نہیں سکتا۔ یہ تکبّر کی نہیں، شکر اور شکرانے کی گھڑیاں ہیں کہ یہ اللہ ہی ہے جس نے ہمیں اس طاقت سے مالا مال کیا۔

اٹھارہ سال قبل اٹھائیس مئی کو اللہ نے ہمیں سرخرو کیا۔یہ وزیر اعظم بھٹو، جنرل ضیاء، صدر اسحق،ڈاکٹر قدیر خان، ڈاکٹر ثمر مند مبارک اور وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی اجتماعی کوششوں، مساعی جمیلہ،انتھک محنت، بے پناہ ریاضت اور بے مثل جرأتوں کا ثمر ہے۔ جناب نواز شریف کی ہمت کو سیلوٹ اور سلام جنہوں نے کوئی لالچ قبول کیا نہ کسی کی دھمکی میں آئے۔اور قلندرانہ شان سے تاریخ رقم کر گئے۔ خدانخواستہ اگر 28مئی 1998ء کو میاں صاحب کے قدم ڈگمگا جاتے تو خدا کی قسم آج ہندو بنیا ہمیں خس وخاشاک کی طرح بہا کر لے جا چکا ہوتا ہے۔

یہ ہماری جوہری طاقت ہے ، یہ پرمانو ہے ، یہ ایٹم بم کا خوف ہے جس نے دشمن کے ممکنہ جارح پاؤں میں زنجیریں ڈال رکھی ہیں۔ ہماری ایٹمی استعداد اور اہلیت پر کسی کو شک ہے نہ کوئی شبہ؛چنانچہ پاکستان کے بیس کروڑ سے زائد عوام بجا طور پر اپنے جوہری ملک ہونے پر چھاتی بجا سکتے ہیں۔ ہم یومِ تکبیر کی اُنیسویں سالگرہ پر مسرت کے گیت گا رہے ہیں تو یہ ہمارا حق ہے۔ یہ شادیانے دراصل اللہ کے حضور شکرانے کے سجدے ہیںکہ ہماری ہر کامیابی اور نصرت ہمارے خالق و مالک ہی کی عطا کردہ نعمت ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اُنیس سال قبل جناب نواز شریف نے جرأت سے ایٹمی دھماکے کرکے پاکستان کو ناقابلِ تسخیر بنایا اور اب وہ پاکستانی معیشت کو مضبوط بنیادوں پر کھڑا کر رہے ہیں۔ عالمی اقتصادی اشارئیے اِس کی گواہی دے رہے ہیں۔مخالفین اور موافقین بھی اِس کی تصدیق کر رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔