رمضان کیسے گزاریں؟

مولانا محمد الیاس گھمن  جمعـء 26 مئ 2017
رمضان میں صدقہ خیرات دل کھول کر کریں، زکوٰۃ ادا کریں آخری عشرے میں اعتکاف کریں۔ فوٹو : فائل

رمضان میں صدقہ خیرات دل کھول کر کریں، زکوٰۃ ادا کریں آخری عشرے میں اعتکاف کریں۔ فوٹو : فائل

اﷲ تعالیٰ کے فضل و عنایات اور رحم و کرم کا موسم بہار شروع ہونے والا ہے۔ رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ آپہنچا ہے۔

حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ اﷲ کے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم سے نقل فرماتے ہیں : ’’ اس ماہ میں جنت کے سب دروازے کھول دیے جاتے ہیں پورا مہینہ ایک دروازہ بھی بند نہیں کیا جاتا اور دوزخ کے سب دروازے پورے مہینے کے لیے بند کر دیے جاتے ہیں۔

ایک دروازہ بھی نہیں کھولا جاتا، سرکش شیاطین و جن سب کو زنجیروں سے قید کردیا جاتا ہے، ایک آواز دینے والا آسمان سے ہر رات طلوعِ فجر تک آواز لگاتا رہتا ہے : خیر اور بھلائی کے طلب گارو! اﷲ کی طرف سے خیر کو قبول کرو اور خوش ہوجاؤ، برائی اور شر کے طلب گارو! رک جاؤ اور ہوش سے کام لو۔ پھر اﷲ کی صدائے بازگشت سماعتوں میں رس گھولنے لگتی ہے، کوئی ہے جو مغفرت طلب کرے ؟ ہم اس کو بخش دیں۔ کوئی ہے جو توبہ کرے ؟ ہم اس کی توبہ قبول کریں، کوئی ہے دعا مانگنے والا ؟ ہم پوری کرتے ہیں۔ کوئی ہے سوال کرنے والا ؟ ہم عطا کرتے ہیں۔ ہر رات ساٹھ ہزار لوگوں کو جہنم سے آزاد کردیا جاتا ہے اور عیدالفطر کے دن پورے مہینے میں روزانہ ساٹھ ہزار کے بہ قدر جتنے لوگ بنتے ہیں ان سب کو ایک ہی دن جہنم سے چھٹکارا نصیب ہوجاتا ہے۔‘‘

باعثِ تخلیقِ کائنات حضرت محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم رجب کے مہینے سے ماہ رمضان کی دعا یوں شروع فرماتے : ہمارے لیے رجب اور شعبان میں برکت عطا فرما اور ہمیں رمضان نصیب فرما۔ بل کہ جب شعبان کا مہینہ آتا تو لسانِ نبوتؐ سے یوں موتی بکھرتے: اے اﷲ جیسے آپ نے ہم پر فضل و احسان کیا کہ ہمیں شعبان عطا فرمایا، اے اﷲ! ہمیں رمضان کی مبارک ساعتیں بھی نصیب فرما۔

نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم دو ماہ پہلے اپنے اس مبارک مہمان (رمضان) کا استقبال فرماتے اور جوں ہی شعبان کی آخری رات آتی آپؐ اپنے جاںنثار صحابہؓ کو جمع فرماتے ان کے سامنے رمضان المبارک کی اہمیت، افادیت، خصوصیت، امتیازی حیثیت کا دلآویز تزکرہ فرماتے۔ حضرت سلمان فارسی رضی اﷲ عنہ نے آپؐ کے ان فرامین کو نقل فرمایا ہے : ’’ تم پر ایک مہینہ آ رہا ہے جو بہت بڑا اور بہت مبارک مہینہ ہے۔ اس میں ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینوں سے بڑھ کر ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے اس کے روزے کو فرض فرمایا اور اس کی رات کے قیام کو ثواب کی چیز بنایا ہے۔

جو شخص اس مہینے میں کوئی نیکی کرکے اﷲ کا قرب حاصل کرے گا، ایسا ہے جیسا کہ غیر رمضان میں فرض کو ادا کیا اور جو شخص اس مہینے میں کسی فرض کو ادا کرے گا وہ ایسا ہے جیسے غیر رمضان میں ستر فرائض ادا کرے۔ یہ مہینہ صبر کا ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے، یہ مہینہ لوگوں کے ساتھ غم خواری کرنے کا ہے۔ اس مہینہ میں مومن کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے۔ جو شخص کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرائے اس کے لیے گناہوں کے معاف ہو نے اور آگ سے خلاصی کا سبب ہوگا اور اسے روزہ دار کے ثواب کے برابر ثواب ملے گا مگر ا س روزہ دار کے ثواب سے کچھ کم نہیں کیا جائے گا۔

صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم نے عرض کیا : یارسول اﷲ ﷺ! ہم میں سے ہر شخص تو اتنی طاقت نہیں رکھتا کہ روزہ دار کو افطار کرائے۔ تو آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ ( یہ ثواب پیٹ بھر کر کھلانے پر موقوف نہیں) بل کہ اگر کوئی بندہ ایک کھجور سے روزہ افطار کرا دے یا ایک گھونٹ پانی یا ایک گھونٹ لسّی کا پلا دے تو اﷲ تعالیٰ اس پر بھی یہ ثواب مرحمت فرما دیتے ہیں۔‘‘

یہ ایسا مہینہ ہے کہ اس کا پہلا عشرہ اﷲ کی رحمت، درمیانی عشرہ مغفرت اور آخری عشرہ جہنم کی آگ سے آزادی کا ہے۔ جو شخص اس مہینے میں اپنے غلام اور نوکر کے بوجھ کو ہلکا کر دے تو اﷲ تعالیٰ اس کی مغفرت فرما دیتے ہیں اور آگ سے آزادی عطا فرماتے ہیں۔ اس مہینے میں چار چیزوں کی کثرت کیا کرو، جن میں سے دو چیزیں اﷲ کی رضا کے لیے ہیں اور دو چیزیں ایسی ہیں جن سے تمہیں چارہ کار نہیں۔ پہلی دو چیزیں جن سے تم اپنے رب کو راضی کرو وہ کلمہ طیّبہ اور استغفار کی کثرت ہے اور دوسری دو چیزیں یہ ہیں کہ جنت کی طلب کرو اور جہنم کی آگ سے پناہ مانگو۔ جو شخص کسی روزے دار کو پانی پلائے رب تعالیٰ شانہ ( روزِ قیامت) میرے حوض سے اس کو ایسا پانی پلائیں گے جس کے بعد جنت میں داخل ہو نے تک اسے پیاس نہیں لگے گی۔‘‘ (صحیح ابن خزیمہ)

آئیے ہم بھی اپنے اس مہمان مہینے کے استقبال کی تیاریاں شروع کردیں، محض جلسے جلوسوں سے نہیں بل کہ اپنے دلوں میں عبادات کا شوق پیدا کریں اور ہادی برحق حضرت محمد مصطفیٰ صلی اﷲ علیہ وسلم کی ہدایات اذہان و قلوب میں بسا کر پرعزم ہوجائیں کہ ہم سب نے اس رمضان میں اپنی مغفرت کے تمام اسباب خلوصِ دل اور نیت سے اختیار کرنے ہیں۔ چناں چہ جوں ہی ہم ماہ رمضان کے چاند کو دیکھیں تو چاند دیکھنے کی دعا پڑھیں۔ جس کا ترجمہ یہ ہے: ’’ اے اﷲ! اس چاند کو ہم پر برکتِ ایمان، خیریت اور سلامتی والا کردے اور (ہمیں) توفیق دے اس (عمل) کی جو تجھے پسند اور مرغوب ہو (اے چاند!) میرا اور تیرا رب اﷲ ہے۔‘‘

اب ہمیں احساس ہونا چاہیے کہ ہم پورا مہینہ اس ماہ مبارک کی دل و جان سے قدر کریں اور اس کے تقاضوں کو شرائط و آداب کے ساتھ پورا کریں۔ یاد رکھیں توبہ و استغفار کی کثرت کریں، ذوق شوق سے تراویح اد ا کریں، وتر ادا کریں اور خوب دعائیں مانگ کر جلد سو جائیں تاکہ صبح سحری کے وقت اٹھنے میں دِقَّت اور پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ سوتے وقت کی دعا پڑھیں، سورۃ ملک پڑھیں اور آیۃ الکرسی بھی پڑھ لیں اور سنت کے مطابق دائیں پہلو پر سو جائیں۔ جب سحری کا وقت ہوجائے تو ہشاش بشاش اٹھ جائیں، گھر والوں کے ساتھ کام کاج میں ہاتھ بٹائیں، وضو کریں، تہجد ادا کریں، بل کہ کوشش کریں کہ تہجد ہماری زندگی بھر کا معمول بن جائے۔ حدیث پاک میں ہے : فرض نمازوں کے بعد سب سے افضل نماز تہجد ہے۔

سحری ضرور کھائیں کیوں کہ اﷲ کے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس کا تاکید کے ساتھ ہمیں حکم دیا ہے اور اس کو برکت والا کھانا قرار دیا ہے، بچوں کو بھی سحری کی عادت ڈالیں۔

صحابہ کرامؓ کی زندگی میں اس کی بے شمار مثالیں ملتی ہیں۔ کھانا کھا لینے کے بعد اگر وقت باقی ہے تو تلاوتِ قران کریں، ذکر اذکار کریں، توبہ استغفار کریں، دعاؤں کا اہتمام کریں، مرد حضرات مساجد میں آکر تکبیر اولیٰ کے ساتھ نماز ادا کریں، اگر مسجد میں درس قرآن یا خلاصہ القرآن کا اہتمام ہو تو اس میں ضرور شرکت کریں ورنہ باہمی مشاورت سے کسی مستند عالم سے درخواست کریں کہ وہ آپ کو روزانہ درس قرآن دے۔ نمازِ فجر کے بعد اشراق تک ذکر اذکار میں مصروف رہیں اور نماز اشراق پڑھیں، حدیث میں ہے: آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کا اجر ایک مکمل حج یا عمرے کے برابر ہے۔ مساجد میں شور و غل سے پرہیز کریں کیوں کہ یہ عمل نیکیوں کو ایسے ختم کردیتا ہے جیسے آگ لکڑی کو۔ مسجد سے واپس آکر اپنے کام کاج میں مصروف ہوجائیں، کوشش کریں آپ کی زبان سے کوئی غلط بات نہ نکلے، بل کہ حدیث میں تو یہاں تک آیا ہے کہ اگر کوئی آپ کو غلط بات کہہ بھی دے، لڑائی جھگڑا کرنے کی کوشش کرے تو آپ کہہ دیں میں روزے سے ہوں۔ پورا دن اپنی زبان، آنکھ، کان اور تمام اعضاء کی حفاظت کریں۔

زبان کو جھوٹ، غیبت، بہتان، چغلی، الزام تراشی، گالی گلوچ، گانے اور فضول گوئی سے پاک رکھیں اور نہ ہی زبان کے نشتر سے کسی کا دل دکھائیں، کسی کی ہتک، بے عزتی او ر رسوائی نہ کریں۔ آنکھ کو حرام امور بچائیں۔ کان کو خلاف شرع امور سے بچائیں یعنی غیبت سننے، فضول گوئی اور نامحرم کی باتیں بلاوجہ سننے سے پاک رکھیں۔ دل کو حسد، بغض، کینہ، عداوت، نفرت، تکبّر، غرور اور بڑائی سے صاف رکھیں، باہمی رنجشیں دور کریں، کسی سے بول چال ختم تھی تو اس سے شروع کریں، قطع رحمی سے باز آئیں، صلہ رحمی کو عام کریں۔ حدیث مبارک میں آتا ہے بہت سارے لوگوں کو سوائے بھوکا پیاسا رہنے کے اور کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ ( صحیح بخاری)

قرآن کریم کے ہم پر درج ذیل پانچ بنیادی حقوق ہیں۔
1: ایمان: اس بات پر کہ واقعی یہ اﷲ کی طرف سے بہ واسطہ جبرئیلؑ حضرت نبی پاک صلی اﷲ علیہ وسلم پر نازل ہوا اور تحریف و تبدیل سے پاک ہے، اس کی حفاظت کا ذمہ اﷲ نے خود لیا ہے، اس میں جو کچھ ہے وہ سب کا سب سچ اور حق ہے۔
2: تلاوت : اس کو پڑھنا باعث ثواب ہے اور قرآن کا ہم پر حق بھی ہے۔
3: غور و خوض: اس کے اوامر اور نواہی کو سمجھنا کہ قرآن ہمیں فلاں موقع پر کیا حکم دیتا ہے، اس میں موجود فلاح پانے والی اقوام کے واقعات سے سبق حاصل کرنا اور تباہ شدہ اقوام کے واقعات سے درس عبرت حاصل کرنا۔
4: عمل : قرآن کریم میں جو کچھ ہے اس پر عمل کرنا۔ بس اتنی بات ہمیشہ ذہن میں رہے کہ جہاں منسوخ آیات ہیں ان کی محض تلاوت کی جا سکتی ہے ان پر عمل کرنے سے شریعت نے خود روک دیا ہے۔
5: تبلیغ، تحفیظ اور تنفیذ: یعنی اس کی اشاعت و تحفظ اور نفاذ کی ہر ممکن کوشش کرنا۔

ان حقوق کی مکمل رعایت رکھ کر تلاوت کریں۔ مستحب یہ ہے باوضو ہوکر، خوش بُو لگا کر قبلہ رو ہوکر، باادب اور سوچ سمجھ کر تلاوت کریں، سجدۂ تلاوت وغیرہ امور کو بالکل نظر انداز نہ کریں اگر آپ ترجمہ اور تفسیر کے ساتھ پڑھنا چاہتے ہوں تو علمائے حق کی تفاسیر سے استفادہ کریں۔

آپ کے گھر، دفتر اور زمینوں پر جو ملازمین ہیں ان کے کام میں تخفیف کریں، تمام نمازیں وقت پر ادا کریں، افطاری تیار کرنے میں گھر والوں کے ساتھ مل کر کام کریں، ان کو بالکل نہ ڈانٹیں، بل کہ اگر کبھی خلاف مزاج کوئی معاملہ سامنے آئے تو عفو و درگزر سے کام لیں۔ افطار کرانے کا معمول بنائیں۔ کیوں کہ حدیث میں اس کی بہت فضیلت آئی ہے۔

افطار کے وقت شور و غل اور بچگانہ حرکتیں مساجد کے تقدس کو پامال کرتی ہیں اس سے سختی سے پرہیز کریں۔ نماز مغرب کے بعد چھے رکعت اوابین معمول بنائیں۔ حدیث مبارک میں ہے جس نے مغرب کے بعد چھے رکعتیں پڑھیں اور ان کے درمیان کوئی بُری بات نہیں کی تو اسے بارہ سال کی عبادت کا ثواب ملے گا۔ بل کہ حفاظ صاحبان کے لیے اوابین میں اپنی منزل پڑھ لینا زیادہ بہتر ہے۔ نماز عشاء کی مکمل تیاری کریں، اذان ہوتے ہی مسجد میں پہنچ جائیں، خشوع خضوع سے نماز ادا کریں، نماز تراویح کے لیے تیز رفتار حفاظ کے بہ جائے خوش الحان ٹھہر ٹھہر کر پڑھنے سے والے قاری صاحبان کو منتخب کریں۔ کیوں کہ تراویح رمضان المبارک کی بہت اہم عبادت ہے، اس سے جی نہ چرائیں۔

بے شعور لوگوں کی عادات سے خود کو بچائیں، جو مساجد میں خصوصاً تراویح کے وقت بیٹھے رہتے ہیں، فون کالز اور میسجز کرتے رہتے ہیں، پانی پینے کا بہانہ بنا کر اپنا وقت اور ثواب و اجر ضایع کرتے رہتے ہیں اور جب امام رکوع میں جاتا ہے تو بھاگ کے رکوع میں شامل ہوجاتے ہیں۔ خوب گڑگڑا کر دعائیں مانگیں، اپنے لیے، گھر والوں کے لیے، اپنے ملک کے لیے، پوری قوم بل کہ پورے عالم اسلام کے لیے۔ اس کے بعد جلد گھر واپس آئیں، اپنی حاجات سے فارغ ہوکر سونے سے قبل تھوڑی دیر کے لیے اپنا محاسبہ کریں، پورے دن میں جتنے اچھے کام کیے ہیں اس پر اﷲ کا شکر ادا کریں اور جو خلاف شرع کام سرزد ہوئے ان سے توبہ کریں۔ یعنی ندامت کے احساس کے ساتھ وہ کام فی الفور چھوڑ دیں آئندہ نہ کرنے کا پکا عزم کریں۔

جلد سو جائیں تاکہ صبح جلد اٹھیں اور اپنے معمولات صحیح طور پر ادا کرسکیں۔ رمضان میں صدقہ خیرات دل کھول کر کریں، زکوٰۃ ادا کریں آخری عشرے میں اعتکاف کریں۔ لیلۃ القدر کی تلاش میں بہتر عمل اعتکاف ہے اور اسے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کریں۔ صدقۂ فطر اور زکوٰۃ کے حوالے سے مستحقین کو ضرور یاد رکھیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔