رمضان، قرآن اور ہم

محمد عمر قاسمی  جمعـء 26 مئ 2017
آیات کو سمجھ کر اﷲ رب العزت کے دیے گئے احکامات پر عمل کرنے کی کوشش کریں گے۔  فوٹو: فائل

آیات کو سمجھ کر اﷲ رب العزت کے دیے گئے احکامات پر عمل کرنے کی کوشش کریں گے۔ فوٹو: فائل

چند ہی ساعتوں کے بعد انوار و برکات کی برسات لے کر ماہ رمضان آنے کو ہے۔ یقینا اہل ایمان کے لیے یہ خوشی و مسرت کا پیغام ہے۔ کیوں کہ التجائیں کرنے، آسانیاں طلب کرنے، اپنے اعمال پر غور و فکر کرنے، اپنے نفس کو قابو کر کے دین پر عمل کرنے کی گھڑی آن پہنچی ہے۔

ارشاد باری تعالی ہے: ’’ اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے، جس طرح تم سے پہلی امتوں پر فرض کیے گئے تھے، تاکہ تمہارے اندر تقویٰ اور پرہیز گاری پیدا ہو۔‘‘

چوں کہ روزہ ایک ایسی ریاضت کا نام ہے جو انسان کی نفسانی خواہشات و دیگر تقاضوں کو دبانے کی عادت ڈالتا ہے۔ پہلی امتوں کو بھی روزے کا حکم دیا گیا تھا۔ جب کہ ان کے روزوں کے احکامات اور مدت میں خاص حالات و ضروریات کے لحاظ سے کچھ فرق بھی تھا۔ مگر امت محمدی ﷺ کے لیے ایک سال میں صرف تیس دن کے روزے فرض کیے گئے اور روزے کا وقت طلوع سحر سے لے کر غروب آفتاب تک رکھا گیا، جو مزاج انسانی کے لیے انتہائی معتدل اور مناسب وقت ہے۔ اگر اس وقت میں کمی یا زیادتی کر کے دیکھا جائے تو بھی انسان وہ مقاصد حاصل نہیں کر سکتا جو طلوع سحر سے غروب آفتاب کے درمیان اپنے نفس کی تربیت اور ریاضت سے حاصل کر لیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اہل ایمان اس مبارک ماہ میں اپنے رب کی خوش نودی حاصل کرنے کے لیے نبی اکرم ﷺ کے بتائے ہوئے طریقے پر چل کر سحر و افطار اور عبادت و ریاضت کا خصوصی اہتمام کرتے ہوئے سعادت و نیک بختی کے راستے پر گام زن ہیں۔

رسالت مآب ﷺ کا فرمان ہے : ’’ جب رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے تو شیاطین اور سرکش جنّات جکڑ دیے جاتے ہیں اور دوزخ کے سارے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں۔ ان میں سے کوئی دروازہ بھی کھلا نہیں رہتا۔ اور جنت کے تمام دروازے کھول دیے جاتے ہیں، اس کا کوئی بھی دروازہ بند نہیں کیا جاتا، اور اﷲ کا منادی پکارتا ہے کہ اے خیر اور نیکی کے طالب قدم بڑھا کے آگے آ، اور اے بدی اور بدکاری کے شائق رک، آگے نہ آ، اور اﷲ کی طرف سے بہت سے گناہ گار بندوں کو دوزخ سے رہائی دی جاتی ہے۔ اور یہ سب رمضان کی ہر رات میں ہوتا ہے۔‘‘ (سنن ابن ماجہ)

حضرت سلمان فارسی ؓ فرماتے ہیں کہ ماہ شعبان کی آخری تاریخ کو رسول اﷲ ﷺ نے ایک خطبے میں فرمایا : ’’ اے لوگو! تم پر عظمت اور برکت والا مہینہ سایہ فگن ہو رہا ہے۔ اس مبارک مہینے کی ایک رات (شب قدر ) ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اس مہینے کے روزے اﷲ تعالی نے فرض کیے ہیں اور اس کی راتوں میں بارگاہ خداوندی میں ( نماز تراویح پڑھنے ) کو نفل عبادت مقرر کیا ہے۔

جو شخص اس مہینے میں اﷲ کی رضا اور اس کا قرب حاصل کرنے کے لیے کوئی غیر فرض عبادت (یعنی سنت یا نفل ) ادا کرے گا تو اس کو دوسرے زمانے کے فرضوں کے برابر اس کا ثواب ملے گا۔ اور اس مہینے میں فرض ادا کرنے کا ثواب دوسرے زمانے کے ستر فرضوں کے برابر ملے گا۔ یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے۔ یہ ہم دردی اور غم خواری کا مہینہ ہے، اور یہی وہ مہینہ ہے جس میں مومن بندوں کے رزق میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ جس نے اس مہینے میں کسی روزہ دار کو (اﷲ کی رضا اور ثواب کے لیے ) افطار کرایا تو اس کے لیے گناہوں کی مغفرت اور آتش دوزخ سے آزادی کا ذریعہ ہوگا، اور اس کو روزہ دار کے برابر ثواب دیا جائے گا۔ بغیر اس کے کہ روزہ دار کے ثواب میں کوئی کمی کی جائے۔‘‘

صحابہ کرام رضوان اﷲ تعالی علیھم اجمعین نے عرض کیا : اے اﷲ کے رسول ﷺ! ہم میں سے ہر ایک کو تو افطار کرانے کا سامان میسر نہیں ہوتا (تو کیا غرباء اس ثواب سے محروم رہیں گے؟ ) آپ ﷺ نے فرمایا : ’’ اﷲ تعالی یہ ثواب اس شخص کو بھی دے گا جو دودھ کی تھوڑی سی لسی پر یا صرف پانی کے ایک گھونٹ پر کسی روزہ دار کا روزہ افطار کروا دے۔

پھر فرمایا کہ جو کوئی کسی روزہ دار کو پورا کھانا کھلا دے اس کو اﷲ تعالی میرے حوض یعنی (حوض کوثر) سے ایسا سیراب کرے گا جس کے بعد اس کو کبھی پیاس ہی نہیں لگے گی۔ یہاں تک کہ وہ جنت میں پہنچ جائے گا۔ اس کے بعد فرمایا : اس ماہ مبارک کا ابتدائی حصہ رحمت ہے اور درمیانی حصہ مغفرت ہے اور آخری حصہ آتش جہنم سے آزادی ہے۔ جو آدمی اس مہینے میں اپنے غلام و خادم کے کام میں تخفیف اور کمی کر دے گا اﷲ تعالی اس کی مغفرت فرما دے گا اور اس کو دوزخ سے رہائی اور آزادی دے گا۔‘‘ (شعب الایمان )

حضرت ابوہریرہ ؓروایت فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا : ’’جو شخص ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھے اور شب قدر میں ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے عبادت کرے، تو اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔‘‘ (ابن ماجہ)

رمضان کریم کو جہاں اور بہت سی خصوصیات نمایاں کر دیتی ہیں ان میں سے ایک قران کریم کا اس ماہ مبارک میں نازل ہونا بھی ہے۔ یہی وجہ تھی کہ رسالت مآب ﷺ اور ان کے صحابہ کرام رضوان اﷲ تعالی علیھم اجمعین عام ایام کی نسبت رمضان المبارک میں قرآن پاک کی خصوصی تلاوت کا اہتمام کیا کرتے تھے۔

حضرت عبداﷲ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: ’’ روزہ اور قرآن دونوں بندے کی سفارش کریں گے۔ (یعنی اس بندے کی جو دن میں روزہ رکھے گا اور رات میں اپنے رب کے حضور کھڑا ہو کر قرآن کریم کی تلاوت کرے گا یا سنے گا) روزہ عرض کرے گا: اے میرے پروردگار! میں نے اس بندے کو کھانے پینے اور نفس کی خواہش پورا کرنے سے روکے رکھا تھا، آج اس کے حق میں میری سفارش قبول فرمائیے۔ اور قرآن کہے گا: میں نے اس کو رات کو سونے اور آرام کرنے سے روکے رکھا تھا۔ پروردگار! آج اس کے حق میں میری سفارش قبول فرمائیے۔ چناں چہ روزہ اور قرآن دونوں کی سفارش اس کے حق میں قبول فرمائی جائے گی۔‘‘ ( اور اس کے لیے جنت اور مغفرت کا فیصلہ فرما دیا جائے گا) (شعب الایمان)

اﷲ تعالی نے قرآن کریم میں ایک خاص قسم کی تاثیر رکھی ہے جو دنیا کی اور کسی کتا ب میں نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم کو پڑھنے ہی نہیں بل کہ سننے والے کی طبعیت پر بھی ایک خاص اثر پڑتا ہے۔

حضرت عبداﷲ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ نبی مکرم ﷺ نے مجھ سے فرمایا : ’’ مجھے قرآن سناؤ، میں نے عرض کیا کہ آپ مجھ سے سننا چاہتے ہیں جب کہ قرآن پاک آپ ؐپر نازل ہوا ہے۔ آپ ؐنے فرمایا: ہاں! دل یہی چاہتا ہے کہ قرآن کسی اور سے سنوں۔ حضرت عبداﷲ بن مسعود ؓ   فرماتے ہیں، میں نے سورہ نساء کی تلاوت شروع کردی، جب اس آیت کریمہ پر پہنچا، ترجمہ: ’’ اس وقت کیا حال ہوگا جب ہم ہر ہر امت میں سے ایک ایک گواہ کو حاضر کریں گے۔‘‘ تو آپؐ  نے فرمایا: اب بس کردو! میں نے آپؐ کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا تو آپؐ کی مبارک آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔‘‘ (بخاری)

یہی حال رسول اکرم ﷺ کے اصحابؓ کا بھی تھا۔ ایک رات حضرت عمر ؓ شہر کی دیکھ بھال کے لیے نکلے تو ایک مکان سے کسی مسلمان کے قرآن پڑھنے کی آواز سنائی دی، آپؓ نے سواری روکی اور کھڑے ہو کر سننے لگے۔ جب وہ اس آیت پر پہنچے: ’’ بے شک آپ کے رب کا عذاب واقع ہو کر ہی رہے گا، اس کو کوئی دفع کرنے والا نہیں‘‘ تو حضرت عمرؓ کی زبان بے ساختہ یہ الفاظ نکلے: ’’رب کعبہ کی قسم سچ ہے۔‘‘ پھر آپ ؓ سواری سے اتر ے اور دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئے، یہاں تک کے چلنے پھرنے کی طاقت بھی نہ رہی۔ حضرت حسن بصری ؒ فرماتے ہیں کہ امیر المومنین حضرت عمر ؓاس آیت کو سننے کے بعد ایسے بیمار ہوئے کہ کم و بیش ایک ماہ تک بستر علالت پر پڑے رہے۔

یہ تو وہ بزرگ، مقدس و مطہر شخصیات تھیں جن سے اﷲ رب العزت راضی ہو نے کا اعلان خود قرآن میں کرچکے تھے، مگر اس کے باوجود بھی ان کا یہ حال تھا۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آج ہم مسلمانی کا دعوی کرنے کے بعد کس موڑ پر کھڑے ہیں؟ کیا ہم نے اس طرح قرآن کریم میں غوطہ زن ہوکر اس کے رموز و اسرار کو پانے کی کوشش کی؟ کیا ہماری نوجوان نسل شعور قرآنی کو حاصل کرنے کی خواہاں ہے ؟ کیا ہماری خواتین مسائل قرآنی کو سمجھنے کی سکت رکھتی بھی ہیں یا نہیں؟ کیا ہم میں قرآن کو سمجھنے کی تڑپ ہے۔۔۔۔ ؟

آئیے، آج سچی تڑپ کے ساتھ ا پنے قلوب کو بیدار کیجیے، اور اس ماہ رمضان کی آمد پر عہد کیجیے کہ نبی آخرالزماں ﷺ کے بتائے ہوئے طریقے پر چل کر، ان کے صحابہؓ کی سی تڑپ کو اپنے دلوں میں سلگا کر، قرآن کریم کو صرف پڑھنے ہی نہیں بل کہ حرف حرف میں ڈوب کر، آیات کو سمجھ کر اﷲ رب العزت کے دیے گئے احکامات پر عمل کرنے کی کوشش کریں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔