ڈام، سمندری کٹاؤ اور ماہی گیر

شبیر رخشانی  اتوار 28 مئ 2017
ڈام کی سرزمین صدیوں سے ماہی گیروں کی معاشی تحفظ کی ضامن رہی ہے۔ سمندری کٹاؤ اور دیگر مسائل اب اِس تحفظ سے آہستہ آہستہ دامن چھڑاتی جا رہے ہیں۔

ڈام کی سرزمین صدیوں سے ماہی گیروں کی معاشی تحفظ کی ضامن رہی ہے۔ سمندری کٹاؤ اور دیگر مسائل اب اِس تحفظ سے آہستہ آہستہ دامن چھڑاتی جا رہے ہیں۔

علی شیر اور اُس کے دوست 16 اپریل 2017ء کو ڈام میں آنے والے اُس سمندری کٹاؤ کو نہیں بھولے جو علی شیر کا برسوں کا خواب بھی اپنے ساتھ لے کر چلا گیا۔ علی شیر اور اُس کے دوست ڈام ساحل کے کنارے بیٹھے ایک کشتی کو اپنی طرف آتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔ جہاں صبح 9 بجے آنے والا طوفان شام 5 بجے تک اپنے ساتھ بہت کچھ بہا کر لے جاچکا تھا۔ علی شیر کہتے ہیں کہ وہ اپنی چھوٹی کمپنی (کاروبار) کو سمندر بُرد ہوتا ہوا دیکھ رہے تھے لیکن کچھ نہیں کر پائے۔ جہاں علی شیر اور اُس کے دوست بیٹھے ہوئے تھے اُس سے چند فٹ کے فاصلے پر گابا کمپنی کی بلڈنگ واقع ہے۔
گابا کمپنی کو بچانے کے لیے مالک کی جانب سے بندھ باندھنے کا سلسلہ جاری ہے۔ تاہم ایک ماہ کا عرصہ گزر جانے کے باوجود وہ بند تعمیر نہیں کیا جاسکا۔ سمندری کٹاؤ اِس کمپنی پر حملہ آور ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ یہ وہ کمپنی ہے جس میں اِس وقت 200 سے زائد ورکرز کام کر رہے ہیں۔ جن سے اُن کے گھر کا ذریعہ معاش چل رہا ہے۔ علی شیر کو قدرتی آفت چار مرتبہ اِس کے کاروبار سے محروم کرچکی ہے۔ جس کاروبار کو وہ چھوٹی کمپنی کا نام دیتے ہیں۔
حالیہ آفت سے اُن کو 2 لاکھ سے زیادہ کا نقصان برداشت کرنا پڑا ہے۔ ماہی گیروں پر مشتمل ڈام اور اُس کا ملحقہ علاقہ حب شہر سے 50 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ ذریعہ معاش اور سمندر سے محبت نے یہاں کے ماہی گیروں کو ڈام کے ساحل سے دامن گیر کیا ہوا ہے، وہ کسی بھی قیمت پر اِس ساحل کو چھوڑنے کو تیار نہیں۔
سمندری کٹاؤ سے خشکی سمندر میں تبدیل ہورہی ہے۔ یہ شہر آہستہ آہستہ اپنے قدم پیچھے کی جانب کھسکا رہا ہے۔ صدیوں سے آباد ڈام کے باشندے سمندری کٹاؤ، بڑے ٹرالرز اور سرمایہ داروں کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ سے فکرمند دکھائی دیتے ہیں۔ ڈام کا ہر گھرانہ، گھرانے کا ہر فرد کا ذریعہ معاش ماہی گیری سے وابستہ ہے۔ یہاں کا ماہی گیر صبح صادق ہوتے ہی سمندر کا رخ کرتا ہے اور شام کو واپسی کی راہ لیتے ہیں۔
محمد ایاز کی کشتی آٹھ گھرانوں کی کفالت کا ذریعہ ہے۔ دن کے 12 بج چکے ہیں۔ وہ اپنی ٹیم کے ہمراہ شکار کے بعد ساحل کے کنارے کھڑی کشتی سے مچھلیاں اتار کر بیوپاری کے حوالے کرنے میں مصروف ہے۔ 6 گھنٹے کی محنت کے بعد اِس کی کمائی تین ہزار ہے، جبکہ منافع کا بڑا حصہ سرمایہ دار لے جاتا ہے۔
حالیہ آفت کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات کو مقامی لوگ کئی گنا بتاتے ہیں۔ مقامی افراد حالیہ قدرتی آفات کی زد میں آنے والے مکانات کی تعداد 200 سے زائد بتاتے ہیں۔ سمندر برد ہونی والی زمین اِس کے علاوہ ہے مگر تاحال حکومتی سطح پر نہ ہی علاقے کا سروے کیا گیا اور نہ ہی علاقہ مکینوں کی داد رسی کی گئی۔ ڈام کے سماجی کارکن قادر بخش کا اِس حوالے سے کہنا ہے
’’ہم نے حکومتِ وقت کو ڈام کی موجودہ صورتحال سے آگاہ کیا تھا۔‘‘
ضلعی انتظامیہ اور صوبائی ڈیزاسٹر منیجمنٹ کو تحریری اور زبانی طور پر شکایت ارسال کی ہے لیکن تاحال اِس کا ازالہ نہیں کیا گیا اور نہ ہی حکومتی سطح پر علاقے کا دورہ کیا گیا۔ اُن کا کہنا ہے کہ مستقبل میں سمندری کٹاؤ سے بچنے کے لیے ہم نے حکومت کو تجاویز بھی پیش کی ہیں، اگر اُن پر عمل درآمد کیا جائے تو یقیناً اِس غیر یقینی صورتحال سے نجات مل سکتی ہے۔ ڈام کا پورا علاقہ اِس وقت سمندری کٹاؤ کی زد میں ہے جبکہ یہاں کے ماہی گیر موجودہ صورت حال سے بے بس دکھائی دیتے ہیں۔ سمندری کٹاؤ سے سب سے زیادہ متاثرہ علاقہ ’’بھڑہ‘‘ ہے۔ 700 نفوس پر مشتمل یہ علاقہ حالیہ سمندری کٹاؤ سے جزیرے میں تبدیل ہوگیا ہے۔ علاقے کے مکین اشیاء خورد و نوش اور دیگر ضرورت کا سامان لانے، لے جانے کے لیے موٹر سائیکل اور گاڑیوں کا استعمال کرتے تھے۔ روڈ بہہ جانے سے اب یہ فاصلہ کشتی کے ذریعے طے کیا جاتا ہے۔ اِس علاقے کی حقیقی صورتحال مشاہدہ کرنے سے ہم قاصر رہے۔
علاقہ سمندری کٹاؤ سے متاثر اور اِس کٹاؤ کے متاثرین ماہی گیر ہیں، جنہیں آنے والے وقتوں میں معاشی بحران کا سامنا ہے۔ قدرتی آفات پر ہونے والے نقصانات کا ازالہ کرنے کے لیے ماہی گیروں کی جانب سے تاحال کوئی آواز نہیں اٹھائی گئی۔ وہ بھی خاموشی سے اِسی منظر کو دیکھ رہے ہیں، جس کی بنیادی وجہ ماہی گیروں کی تنظیم سازی کا نہ ہونا ہے۔ ارشد جو کہ ہمیں اِس پوری صورتحال میں رہنمائی فراہم کر رہے تھے اُن کا کہنا ہے کہ ماہی گیروں کی داد رسی کے لیے حکومتی سطح پر جیٹی کا ایک منصوبہ 2006ء کو ڈیزائن کیا گیا تھا۔ مقامی لوگوں کے بقول اِس منصوبے کے لیے 52 کروڑ مختص کیے گئے۔ BCDA کی زیرِ نگرانی یہ منصوبہ گیارہ سال گزر جانے کے باوجود تاحال نہیں بن سکا۔ صرف حسرتیں زندہ ہیں۔ ماہی گیروں کے مطابق اگر جیٹی کا کام مکمل کیا جاتا تو یقیناً ماہی گیر ہی اِس سے استفادہ حاصل کرلیتے۔ مگر یہ منصوبہ نیب کی فائلوں میں بند حکومتی اعلیٰ عہدیداروں اور ٹھیکیدار کی خوش حالی کا ضامن بن چکا ہے۔ لیکن ہمیں اب محکمہ فشریز کا کوئی عملہ نظر آیا جو کہ ماہی گیری کی صنعت کو وسعت دینے اور ماہی گیروں کو تحفظ فراہم کرنے کا ذمہ دار ہے اور رہی سہی کسر یہاں کے بے بس مچھیروں کی مفلوک الحال زندگی اس ادارے کی غیر موجودگی کی داستان سنانے کے لیے کافی ہے۔
ڈام کی سرزمین صدیوں سے ماہی گیروں کی معاشی تحفظ کی ضامن رہی ہے۔ سمندری کٹاؤ اور دیگر مسائل اب اِس تحفظ سے آہستہ آہستہ دامن چھڑاتی جا رہے ہیں۔ ماہی گیری کے ساتھ ساتھ یہیں ڈام میں لاڑکانہ کا رب نواز اپنے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ کشتی بانی کا کام کرتا ہے جو کہ ڈام کو اپنے لیے محفوظ ترین علاقہ تصور کرتا ہے۔ کشتی بانی کے کاروبار سے 15 سے 20 پارٹیاں جڑی ہوئی ہیں۔ جن میں سینکڑوں ورکرز کا ذریعہ معاش ڈام سے جڑا ہوا ہے۔
وندر کے الطاف بلوچ اپنی ایک ورکشاپ چلا رہے ہیں، منان بنگالی اور اُس کے دیگر سینکڑوں ساتھی گزشتہ 25 سالوں سے ماہی گیری کے کاروبار سے وابستہ ہیں اور یہیں کے ہو کر رہ گئے ہیں۔ ڈام کی مارکیٹ، ہوٹلوں میں چہل پہل، گاڑیوں کی آمدورفت اور دیگر چھوٹے موٹے کاموں میں جڑے لوگ، سب کی یہاں موجودگی اور وابستگی ماہی گیری کی زندہ صنعت سے جڑی ہوئی ہے۔ اگر کسی طور پر ماہی گیری کی یہ صنعت زوال پذیر ہوجائے تو نہ یہ ساحل آباد ہوگا، نہ یہاں لوگوں کی چہل پہل ہوگی، نہ دوکانیں ہوں گی اور نہ ہی دیگر روزگار کے ذرائع۔
حکومت اگر سمندری کٹاؤ روک نہیں سکتی تو وہ متبادل ذرائع ضرور پیدا کرسکتی ہے۔ ماہی گیری کی اِس صنعت کو اپنی سنجیدہ کوششوں سے ضرور بچا سکتی ہے کیونکہ اِس صنعت سے تو علی شیر، ایاز، منان بنگالی اور دیگر ہزاروں افراد کی اُمیدیں وابستہ ہیں۔ اِس سہارے کو بچایا جاسکتا ہے جس کا گلا گھونٹنے کے لیے سمندری کٹاؤ اپنی طاقت کا بھرپور استعمال کر رہی ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ   [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔