چوروں، ڈاکوؤں کو تاج ملتے ہیں اور انسانیت کی خدمت کرنے والوں کو دھمکیاں

سید بابر علی / اشرف میمن  اتوار 28 مئ 2017
معروف سماجی کارکن اور ایدھی فاؤنڈیشن کے سربراہ فیصل ایدھی سے مکالمہ۔  فوٹو : فائل

معروف سماجی کارکن اور ایدھی فاؤنڈیشن کے سربراہ فیصل ایدھی سے مکالمہ۔ فوٹو : فائل

فیصل ایدھی کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ عبدالستار ایدھی کے نقش قدم پر چلنے والے فیصل ایدھی اپنے والد کی طرح بلا امتیاز انسانیت کی خدمت کے جذبے سے سرشار ہیں۔ عبدالستار ایدھی کے انتقال کے بعد ایدھی فاؤنڈیشن کی ذمے داریاں اب انہی کے کاندھوں پر ہیں۔ اس حوالے سے ان سے ایک گفت گو کا اہتمام کیا گیا جو کہ نذر قارئین ہے۔

ایکسپریس: والد یا والدہ دونوں میں کس سے زیادہ قربت رہی؟ والد کے انتقال کے بعد اتنی اہم ذمے داری کو نبھانے میں کیا کیا مشکلات پیش آرہی ہیں؟

فیصل ایدھی: بچپن ہی سے والد کے ساتھ زیادہ رہا، والدہ کو ہمیشہ ستایا کبھی ان کی خواہش پوری نہیں کی، اور والد کی تمام خواہشات پوری کیں۔ والدہ کی خواہش تھی کہ پڑھ لکھ کر کسی بینک میں نوکری کروں ، وہ نہیں چاہتی تھیں کہ میں باپا (ایدھی صاحب) کے ساتھ ایدھی فاؤنڈیشن کا مستقل حصہ بنوں۔ وہ مجھے کسی بڑے بینک یا کسی کارپوریٹ سیکٹر میں اہم عہدے پر فائز کرانے کی خواہش مند تھیں۔ میں نے اعلٰی تعلیم تو حاصل کی لیکن کسی بینک یا ملٹی نیشنل کمپنی میں ملازمت نہیں کی۔ ایدھی صاحب ایک باپ سے زیادہ اچھے دوست تھے۔

ایکسپریس: ایدھی صاحب کی زندگی سے جُڑا ایسا کوئی یادگار واقعہ جس نے آپ کو اُن کے نقش قدم پر چلنے کی جستجو کو مہمیز کیا ہو؟

فیصل ایدھی: میرے اپنی ممی سے کافی جھگڑے ہوتے رہتے تھے۔ ممی چاہتی تھیں کہ میں کہیں نوکری حاصل کرکے شادی کرلوں، میں پڑھنا چاہتا تھا اور ممی شادی کرنے کے لیے دباؤ ڈالتی رہتی تھیں۔ اسی بات پر ان سے جھگڑے ہوتے تھے۔ ایک دن ایسے ہی ایک جھگڑے کے بعد میں رات کو نیند کی گولیاں کھا کر سوگیا۔ اگلی صبح جب باپا مجھے جگانے آئے تو میں نیم بے ہوش تھا وہ مجھے فوراً اسپتال لے گئے۔ اس سے پہلے میں نے کبھی کبھی ایدھی صاحب کی آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھے تھے، لیکن اس دن میں نے انہیں روتے دیکھا۔ انہوں نے ممی پر بہت غصہ کیا اور انہیں سختی سے منع کردیا کہ آج کے بعد تم اس کے (فیصل) کے معاملے میں نہیں بولو گی، والد کے ساتھ ساتھ تو میں شروع سے رہتا تھا لیکن اس دن کے بعد سے میں نے ہر حال میں باپا کے مشن کو آگے بڑھانے کا ارادہ کرلیا۔ لیکن میری ممی بھی ضدی ہیں انہوں نے میری شادی کروا کر ہی دم لیا۔

ایکسپریس: آپ عطیات میں کمی کا شکوہ کرتے ہیں۔ آپ کے خیال میں ایدھی فاؤنڈیشن کو ملنے والے عطیات میں کمی کی کیا وجوہات ہیں؟ آپ کو زیادہ عطیات کہاں سے ملتے ہیں۔ پاکستان سے یا بیرون پاکستان سے؟

فیصل ایدھی : جی بالکل ایسا ہے کہ ہمیں ملنے والے عطیات میں مجموعی طور پر کافی کمی ہوگئی ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ اگر ہم بات کرتے ہیں باہر ممالک سے ملنے والے چندے کی تو اس میں کمی کے بہت سے اسباب ہیں۔ مشرق وسطی میں ہونے والی خانہ جنگی، اور معاشی بحران کی وجہ سے وہاں سے ملنے والے چندے میں خاطر خواہ کمی ہوئی ہے، امریکا اور یورپ سے ملنے والے چندے میں کمی کا اہم سبب وہاں مسلمانوں سے تعصب کا بڑھتا ہوا رجحان ہے۔ وہاں کی پاکستانی کمیونٹی غیرمحفوظ ہوگئی اور معاشی طور پر بھی اب پہلے کی طرح مستحکم نہیں ہے۔ باہر سے ملنے والے چندے میں کمی کا سب سے بڑا سبب یہ ہے۔ پاکستان سے ملنے والے عطیات میں کم کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اب دوسرے فلاحی ادارے بھی سرگرم عمل ہیں۔ چندے کی رقم تو محدود ہے لیکن اب وہ ایک کے بجائے تین چار اداروں میں تقسیم ہورہی ہے۔ یہاں میں آپ کو یہ بات بھی بتادوں کہ پاکستان خصوصاً کراچی میں کام کرنے والے دوسرے فلاحی اداروں کی نسبت ہمارے کام کی وسعت ان سے زیادہ اور چندے کی رقم ان سے تین گنا کم ہے۔ کراچی میں کام کرنے والے ایک ادارے کو سالانہ ساڑھے پانچ سو کروڑ چندہ ملتا ہے اور ہمیں صرف ڈیڑھ سو کروڑ، اگر ہمیں اتنا چندہ ملے تو ہم پاکستان کی قسمت بدل دیں۔ اصل میں ہمارے یہاں لوگ مذہب کی بنیاد پر زیادہ عطیات دیتے ہیں۔ ہماری اپنی کمیونٹی کے ہی متعصب لوگ ابھی تک ہمیں چندہ نہیں دیتے۔ ہماری جماعت ہے بانٹوا جماعت، جو ایدھی صاحب کی یاد میں تقریب منعقد کرنا چاہتی تھی لیکن میں نہیں گیا، کیوں کہ ایدھی صاحب کے بہت سارے پرانے ساتھیوں نے منع کیا کہ بانٹوا جماعت نے ساری زندگی ایدھی صاحب کو نہیں سراہا، وہ نسل پرستی پر کام کرتے رہے۔ ان کے عہدے داروں میں اتنا غرور اور اتنا تکبر ہے کہ وہ ایدھی صاحب کے سلام کا جواب تک دینا گوارا نہیں کرتے تھے اور ان کے انتقال کے بعد تقریب منعقد کررہے تھے۔ ہمارا ان سے نظریاتی اختلاف ہے وہ سرمایہ دارانہ نظام اور نسل پرستی کے حامی ہیں اور ہم سرمایہ داری نظام کے مخالف اور بلاتعصب لوگوں کی خدمت کرتے ہیں۔ وہ سرمایہ داروں کے مفادات کے لیے کام کرتے ہیں۔ ہمیں بھی سرمایہ دار استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ہم ان کے جھانسے میں نہیں آتے ۔ لیکن میں ابھی بھی پُرامید ہوں کہ اس رمضان میں ہم پچھلے رمضان کے مقابلے میں آجائیں گے۔

ایکسپریس: ایدھی صاحب کے انتقال کے بعد سوشل میڈیا پر ان کے مذہبی رجحانات اور عقائد سے متعلق منفی باتیں پھیلائی گئیں۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ عطیات میں کمی کا اہم سبب یہ منفی خبریں بھی ہیں؟ ان افواہوں کو پھیلانے میں کون لوگ شامل تھے؟

فیصل ایدھی: ایدھی صاحب کے انتقال کے بعد ان کی کردارکشی کرنے کے لیے مختلف ذرایع ابلاغ خصوصاً سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر بھرپور انداز میں پروپیگنڈا مہم چلائی گئی۔ کبھی انہیں لادین کہا گیا تو کبھی ان پر قادیانی ہونے کا الزام لگایا گیا۔ ان افواہوں اور گمراہ کن باتوں کو پھیلانے میں کچھ مذہبی گروپس شامل تھے، جنہوں نے بہت منظم انداز میں ایدھی صاحب کی کردار کشی کی کوشش کی تھی۔ عطیات میں کمی کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے، لیکن اس کے علاوہ دیگر عوامل بھی فاؤنڈیشن کو ملنے والے عطیات میں کمی کا سبب ہیں۔

ایکسپریس: فلاحی کاموں میں آپ کو حکومتی سرپرستی کس حد تک حاصل ہے؟

فیصل ایدھی: دنیا بھر میں حکومت کی جانب سے فلاحی اداروں کے کام کو سراہا جاتا ہے انہیں بہت سے معاملات میں رعایت دی جاتی ہے ، لیکن پاکستان میں ہمارے لیے حکومتی سرپرستی بس اس حد تک ہے کہ وہ ہمیں کام کرنے دیتی ہے۔ اور یہ بھی ان کا ہم پر ایک احسان ہے، ہم اس سے زیادہ سرپرستی چاہتے بھی نہیں ہیں۔

ایکسپریس: گذشتہ سال آپ نے ایدھی فاؤنڈیشن کی پرانی اور ناکارہ گاڑیوں کو فروخت کرنے کا اعلان کیا، لیکن حکومت نے آپ کو ایسا کرنے سے روک دیا؟ کیا یہ گاڑیاں ایدھی فاؤنڈیشن کی ملکیت ہیں یا حکومت کی؟

فیصل ایدھی: یہ معاملہ گذشتہ تین چار سالوں سے چل رہا ہے لیکن ابھی تک اس کا کوئی حل نہیں نکالا جاسکا ہے۔ ایدھی فاؤنڈیشن کی زیرملکیت تقریباً دو سو گاڑیوں کی فروخت پر حکومت کی جانب سے پابندی عائد ہے۔ اس سارے معاملے کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ جب ہم نے یہ گاڑیاں درآمد کی تھیں تو ہمیں کسٹم ڈیوٹی پر چھوٹ دی گئی تھی، ایک طرح سے یہ حکومت کی جانب سے ریلکسیشن ہوتی ہے۔ اصولی طور پر ایمرجینسی سروس میں استعمال ہونے والی گاڑیوں کو تین یا چار سال بعد ڈسپوز ہوجانا چاہیے، لیکن ہم ان گاڑیوں کو اٹھارہ انیس سال سے استعمال کر رہے ہیں۔ اب حکومت ہمیں انہیں ڈسپوز کرنے کی اجازت نہیں دے رہی۔ وہ ہمیں کہتے ہیں کہ آپ انہیں کچرا کردیں، لیکن فروخت نہیں کرسکتے۔ ہم ان دو سو گاڑیوں کر فروخت کر کے تیس چالیس نئی گاڑیاں خرید سکتے ہیں، لیکن ہمیں ایسا نہیں کرنے دیا جارہا۔ ایف بی آر نے پہلے ہمیں بیس گاڑیاں بیچنے کی اجازت دی تھی لیکن اب وہ ہم سے سارے کاغذات منگوا رہے ہیں، اب ہم اٹھارہ بیس سال پرانی دستاویزات کہاں سے لائیں؟ ہم نے ایف بی آر حکام سے درخواست کی کہ جناب! آپ کی منظوری ہی سے یہ گاڑیاں درآمد کی گئی تھیں۔ آپ اپنا ریکارڈ چیک کرلیں، لیکن ایف بی آر کا کہنا ہے کہ ہم پانچ سال بعد پرانا ریکارڈ تلف کردیتے ہیں۔ دو سال قبل جب نوازشریف کراچی آئے تھے تو میں نے انہیں اس مسئلے سے آگا ہ کیا تھا اور انہوں نے اُسی وقت اپنے سیکریٹری کو ہدایات بھی جاری کی تھیں، لیکن اب تک ان کے سیکریٹری نے ہم سے کوئی رابطہ نہیں کیا۔ میں نے چند روز قبل ہی ایف بی آر حکام کو کہا ہے کہ اگر آپ نے ہمارا یہ مسئلہ حل نہیں کیا تو میں ساری گاڑیاں لے کر احتجاجاً قائد اعظم کے مزار پر کھڑا ہوجاؤں گا۔ یورپ، امریکا اور دیگر بہت سے ممالک میں فلاحی کاموں میں استعمال ہونے والی گاڑی کو تیس یا چالیس ہزار کلومیٹر سے زیادہ استعمال نہیں کیا جاتا، لیکن پاکستان میں ہم ایک گاڑی کو تین لاکھ سے پانچ لاکھ کلومیٹر تک رگڑتے ہیں جو مریضوں کے ساتھ سراسر زیادتی ہے۔

ایکسپریس: فٹ پاتھ اور سڑکوں پر فنڈز جمع کرنا ایدھی فاؤنڈیشن کا خاصہ ہے، کچھ عرصے قبل آپ نے عطیات جمع کرنے کے لیے اپنے والد کی طرح بھیک مشن کو معطل کرنے کا کہا تھا، لیکن چند دن پہلے آپ نے مزار قائد سے بھیک مشن کے آغاز کا اعلان کیا، اس کے اسباب؟

فیصل ایدھی: دیکھیں میں کبھی بھی یہ نہیں کہا کہ میں ایدھی صاحب کی طرح بھیک مشن کو جاری نہیں رکھوں گا۔ میں نے بھیک مشن کا منع نہیں کیا تھا لیکن ہمارے میڈیا کے کچھ دوستوں نے خبر کو تبدیل کرکے رکھ دی۔ درحقیقت میں نے یہ کہا تھا کہ میں اس وقت تک بھیک مشن نہیں کروں گا جب تک میں اپنے کچھ پراجیکٹ کو کام یابی سے مکمل نہ کرلوں ۔ یہ میں نے ایک مشروط بات کی تھی۔ میڈیا نے سرخیاں ایسی لگائیں جن سے یہ تاثر گیا کہ میں نے بھیک مشن جاری رکھنے سے منع کردیا ہے۔ میں نے گذشتہ ہفتے ہی مزار قائد پر ایدھی صاحب کی طرح چندہ جمع کیا ہے۔

ایکسپریس: حال ہی میں آپ نے ماہِ رمضان میں عطیات جمع کرنے کے لیے مشروبات بنانے والی ایک ملٹی نیشنل کمپنی کے ساتھ معاہدہ کیا ہے؟ کیا آپ ایدھی فاؤنڈیشن میں فنڈز جمع کرنے کے لیے روایات کے برعکس نئے رجحانات کو فروغ دینے کے خواہش مند ہیں؟

فیصل ایدھی: عطیات جمع کرنے کے لیے کسی ادارے کے ساتھ اشتراک کا فیصلہ کچھ نیا نہیں ہے، ماضی میں ایدھی صاحب بھی کچھ کثیرالقومی کمپنیوں کے ساتھ مل کر فنڈز جمع کرنے کی مہم چلا چکے ہیں۔ ہم نے جس کمپنی سے معاہدہ کیا ہے وہ چھے ماہ تک میرے پیچھے پڑی رہی اور میں اسے منع کرتا رہا ۔ تاہم اس کے ازحد اصرار پر میں نے کچھ پرانے ساتھیوں سے مشورہ کیا، جسے مدنظر رکھتے ہوئے اپنی شرائط پر ان کی پیش کش قبول کی۔ معاہدے کے تحت یہ کمپنی صرف رمضان میں اپنی اشتہاری مہم میں لوگوں کو ایدھی فاؤنڈیشن کو چندہ دینے کی ترغیب دے گی، اس کے عوض وہ ہمیں ڈھائی کروڑ روپے چندہ دیں گے۔ اس کمپنی سے معاہدے کے بعد دیگر اداروں نے بھی ہم سے رابطہ کیا لیکن ہم نے اخلاقی طور پر اس بات کو مناسب نہیں سمجھا۔ میں یہاں یہ بات بتانا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ یہ اشتراک ہم نے مجبوراً کیا ہے اور ہم اس رجحان کو جاری رکھنے کے خواہش مند نہیں ہیں۔

ایکسپریس: کیا اس نوعیت کے معاہدے آپ کے مشن کو کمرشلائز کرنے کا باعث نہیں بن جائیں گے؟

فیصل ایدھی: نہیں ایسا نہیں ہوسکتا، کم از کم جب تک میں زندہ ہوں اس وقت تک یہ ممکن نہیں ہے کیوں کہ ہمارے اور کمرشل ازم کے نظریات یکسر مختلف ہیں۔ سرمایہ دار کا بنیادی مقصد منافع کمانا ہوتا ہے اور ایدھی فاؤنڈیشن کا بنیادی مقصد پیسے کمانا نہیں بلکہ لوگوں کی خدمت کرنا ہے۔ ایدھی فاؤنڈیشن سرمایہ دارانہ نظام کے خلا ف کام کرنے والا ایک عوامی ادارہ ہے، اسے کوئی بھی سرمایہ دار کمر شیل ازم یا کسی اور طریقے سے ہائی جیک نہیں کرسکتا۔

ایکسپریس: ایدھی صاحب کی زندگی یا اُن کے انتقال کے بعد کسی بین الاقوامی ادارے یا این جی اوز نے آپ کو اشتراک کی دعوت دی؟ اگر ہاں اس کی تفصیل۔

فیصل ایدھی: ابھی بھی یو ایس ایڈ، یو کے انٹرنیشنل ڈیولپمنٹ جیسے ادارے ہم سے اشتراک کے خواہش مند ہیں۔ لیکن ہم نے شکریے کے ساتھ سب سے معذرت کرلی۔ ہم اپنے وسائل پر انحصار کرتے ہوئے ہی عوامی خدمت کرنا چاہتا ہے۔

ایکسپریس: آپ ایدھی فاؤنڈیشن کا مستقبل کیا دیکھ رہے ہیں؟ فاؤنڈیشن کی ترقی کے لیے آپ کے پاس کیا منصوبے ہیں؟

فیصل ایدھی: ایدھی فاؤنڈیشن بلارنگ و نسل، قومیت، زبان بلاامتیاز ہر کسی کی خدمت کا جذبہ رکھتی ہے۔ اسے ہر قومیت، رنگ و نسل کا بندہ اون کرتا ہے۔ میں ایدھی فاؤنڈیشن کا مستقبل بہت روشن دیکھتا ہوں، ہم اس ادارے کو جدید ٹیکنالوجی اور سہولیات سے آراستہ کرنا چاہتے ہیں۔ ہم ایک آرگنائزڈ افرادی قوت ہیں، ہم اس آرگنائزڈ لیبر فورس کو آرگنائزڈ اسکلڈ فورس میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں، دنیا آگے کی طرف بڑ ھ رہی ہے، اگر ہم نے خود کو ترقی سے ہم آہنگ نہیں کیا، جدید دنیا کے تقاضوں کو نظرانداز کیا تو ہم بہت پیچھے رہ جائیں گے۔ ہم ایمرجینسی خدمات میں مہارت حاصل کرنا چاہتے ہیں، کیوں کہ ابھی ہم سو لوگوں کی زندگی بچا رہے ہیں تو ٹیکنالوجی اور مہارت کے ساتھ دو سو لوگوں کی زندگی بچا سکیں گے۔ ایدھی فاؤنڈیشن کی ترقی کے لیے ہمارے پا س بہت سے منصوبے ہیں جو وقت کے ساتھ ساتھ عوام کے سامنے آتے رہیں گے۔

ایکسپریس: کیا دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی چیریٹی اور دیگر فلاحی کاموں کی مد میں ملنے والی رقوم کو ٹیکس سے استثناء حاصل ہے؟

فیصل ایدھی: پاکستان میں فلاحی اداروں کو بینکوں اور دیگر جگہوں پر ٹیکس سے استثناء حاصل ہے لیکن کچھ کام ایسے ہیں جہاں پر حکومت کو ہمیں ٹیکس سے استثناء دینا چاہیے۔ مثال کے طور پر ہم ایک نئی ایمبولینس خریدتے ہیں تو اس پر ہمیں تقریباً سوا لاکھ روپے ٹیکس کی مد میں دینے پڑتے ہیں۔ آپ انڈیا اور دیگر ممالک کا موازنہ کریں تو وہاں نہ صرف ایمبولینسز بلکہ رکشا اور ٹیکسی پر بھی ٹیکس لاگو نہیں ہوتا۔ ہم نے متعلقہ حکام سے اس مسئلے پر بات کی جس پر ان کا کہنا ہے کہ آپ ہر بار ہمیں خط لکھیں، لیکن ان خطوط کا جواب دو، دو ماہ تک نہیں آتا اب ہم اتنا طویل انتظار نہیں کرسکتے۔ ہم سالانہ دو سو گاڑیاں خریدتے ہیں، اگر ہمیں ٹیکس میں چھوٹ دی جائے تو اس حساب سے ہم سالانہ ڈھائی کروڑ روپے کی بچت کرسکتے ہیں۔ ہم سو کی جگہ ایک سو بیس گاڑیاں خرید سکیں گے، لیکن یہاں بہت سے معاملات بیوروکریسی کی نظر ہوجاتے ہیں، اب دیکھیں یہ مسئلہ مزید کتنے سال میں حل ہوتا ہے۔

ایکسپریس: دو ماہ قبل آپ کو اور آپ کے بیٹے کو سٹی کورٹ کے احاطے میں جان سے مارنے کی دھمکیاں دی گئیں، اس واقعے کے بعد ڈی جی رینجرز نے آپ کے دفتر کا دورہ کیا اور مکمل تحفظ فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی، آپ کو کس حد تک سیکیوریٹی فراہم کی گئی ہے؟

فیصل ایدھی: ایدھی سینٹر پر ڈکیتی کی واردات تو سب کو ہی یاد ہوگی ، جس نے ایدھی صاحب کو صدمے سے دوچار کردیا تھا، اس ڈکیتی میں ملوث ملزمان سے گرفتاری کے بعد مسروقہ سونا اور رقم برآمد ہوئی، لیکن ان تمام تر شواہد کے باوجود عدالت نے انہیں ضمانت پر رہا کردیا۔ یہی ملزمان مجھے اس سے پہلے بھی عدالت کے احاطے میں دھمکیاں دی چکے تھے لیکن اس بار میرا بڑا بیٹا سعد ساتھ تھا جو ان سے الجھ گیا۔ میں نے اس کو ڈانٹا، رش اور میڈیا نمائندوں کی موجودگی کی وجہ سے یہ بات خبروں کا حصہ بھی بن گئی۔ جس کے بعد ہم نے حکام سے عدالت کی حد تک تحفظ فراہم کرنے کی درخواست کی تھی۔ اس کے علاوہ ہمیں کوئی سیکیوریٹی نہیں چاہیے، اب بھی اکثر پیشی پر ڈی جی رینجرز میرے ساتھ عدالت جاتے ہیں۔

ایکسپریس: ایدھی فاؤنڈیشن میں ہونے والی ڈکیتی کے تمام ملزمان کو کچھ عرصے بعد ہی ضمانت پر رہا کردیا گیا، آپ اس بارے میں کیا کہیں گے؟

فیصل ایدھی: ایدھی سینٹر ہیڈ آفس میں ہونے والی ڈکیتی کی واردات میں ملوث ملزمان کو جب گرفتار کیا گیا تو لوٹے گئے پیسے، سامان اور سونا برآمد ہوا، اس کے باوجود عدالت نے انہیں ضمانت پر رہا کردیا، وہ ہمیں کمرۂ عدالت کے باہر کُھلے عام دھمکیاں دیتے ہیں۔ اب آپ کیا کرسکتے ہیں۔ میں یہ بات بھی سو فی صد وثوق کے ساتھ کہتا ہوں کہ یہی ملزمان اگلے انتخابات میں کسی ایم پی اے ، ایم این اے کے ساتھ اس کی انتخابی مہم چلا رہے ہوں گے۔

ایکسپریس: کیا ان ملزمان سے لوٹی گئی تمام رقم اور قیمتی سامان برآمد کرلیا گیا تھا ، اگر نہیں تو پھر اس نقصان کو کیسے پورا کیا؟

فیصل ایدھی: لوٹے گئے مال کی صرف  25فی صد ریکوری ہوئی باقی پیسے اور سونا کہاں گیا کچھ نہیں پتا۔ اب یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ کتنا برآمد ہوا اور کتنا درمیان میں غائب ہوا۔ اس واردات کی وجہ سے ہمارا مجموعی طور پر بارہ تیرہ کروڑ روپے کا نقصان ہوا۔ اب پاکستان میں چوری ڈکیتی ایک کاروبار بن چکا ہے، اب لوگ غریبوں کا، صدقہ خیرات کا مال لوٹنے میں بھی شرمندہ نہیں ہوتے۔ ملزمان کا سہولت کار ملزم جام اختر جو کہ ملیر میں ایک سیاسی جماعت کے اہم عہدے دار کا قریبی رشتے دار ہے اس نے اپنے بیان میں کہا کہ سارا سونا جو تقریباً سات آٹھ کلو تھا اپنے گھر کے صحن میں گڑھا کھود کر دبا دیا تھا کہ معاملہ ٹھنڈا ہونے کے بعد اس کو بیچ کر رقم آپس میں بانٹ لیں گے، لیکن جب اس جگہ کی کھدائی کی تو صرف سوا کلو سونا نکلا باقی کہاں گیا کچھ پتا نہیں چلا۔ یہاں تو یہ حال ہے کہ جب دو سال قبل گرمی کی لہر سے کراچی میں سیکڑوں لوگ لقمۂ اجل بنے تو اسی جماعت کے ایک اہم راہ نما نے ہم پر الزام عائد کیا کہ تھوڑی گرمی تیز ہونے سے چند درجن ہیروئنچی مرگئے تھے تم نے اسے ہیٹ ویو بنادیا، جب کہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ان پانچ دنوں میں مرنے والوں کی تعداد بارہ سو تھی۔ اگر ہم آج بھی ان پانچ دنوں میں کراچی کے نجی اور سرکاری اسپتالوں سے جاری ہونے والے ڈیتھ سرٹیفیکٹ دیکھیں تو یہ تعداد 5 چھے ہزار سے زائد ہوگی۔ اس ملک میں تو چوروں ڈاکوؤں کو تاج ملتے ہیں اور انسانیت کی خدمت کرنے والوں کو دھمکیاں دی جاتی ہیں۔

ایکسپریس: آپ ایدھی کی ایئرایمبولینس سروس دوبارہ شروع کرنے کے لیے پُرعزم ہیں، اس سروس کو کن وجوہات کی بنا پر معطل کیا گیا تھا؟

فیصل ایدھی: یہ سروس بند کرنے کی دو اہم وجوہات تھیں، اول تو یہ کہ ہمارے چیف پائلٹ کیپٹن امتیاز کا انتقال ہوگیا تھا، وہ ہمارے ساتھ چار سال رہے اور بہت اچھی طرح ایدھی کی فضائی سروس چلائی، لیکن اس کے بعد ہمیں کوئی ایسا پائلٹ نہیں مل سکا جو مادیت پرستی کے بجائے انسانی ہمدردی کے جذبے کے تحت ہمارے ساتھ کام کر سکے، جب کہ ہم مارکیٹ کے مطابق تنخواہیں بھی دینے کو تیار تھے۔ اب ہمیں ایک بہت اچھا پائلٹ ملا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اخلاقی طور پر ہم بہت گر چکے ہیں۔ اچھے لوگوں کا ملنا بہت مشکل کام ہے۔ دوسری سب سے اہم وجہ وسائل کی کمی بھی تھی۔ جہاز کے دو انجن ختم ہوگئے تھے جنہیں تبدیل کرنے پر تقریباً دو کروڑ روپے کا خرچہ تھا۔ ہم نے وہ بھی کروا لیا ہے اور امید ہے اگلے ماہ کے وسط تک یہ سروس دوبارہ شروع ہوجائے گی۔

ایکسپریس: آپ نے 2001میں لندن کے ایک فلائنگ اسکول سے جہاز اڑانے کی تربیت لی، دوران تربیت ٹرینر کے ساتھ چالیس گھنٹے اور دو گھنٹے تنہا جہاز اڑا چکے ہیں۔ یہ تربیتی کورس مکمل نہ کرنے کی وجوہات؟

فیصل ایدھی: پائلٹ بننا میرا خواب تھا، اسی لیے میں نے لندن کے ایک فلائنگ اسکول میں داخلہ لیا لیکن کورس کے آخری ہفتے میں ایدھی صاحب نے مجھے وطن واپس بلا لیا تھا، کیوں کہ پرویز مشرف نے انہیں اقوام متحدہ میں امن کے موضوع پر ہونے والی ایک کانفرنس میں پاکستان کی نمائندگی کرنے کا کہا تھا۔ ایدھی صاحب نے مجھے بلالیا کہ تم میرے ساتھ بیٹھنا لیکن نائن الیون کی وجہ سے وہ کانفرنس ملتوی ہوگئی تھی۔ تاہم 2002 میں ایدھی صاحب اور میں نے پاکستان کی نمائندگی کی۔ اس کے بعد دوسری مصروفیات شروع ہوگئیں اور اس کورس کو مکمل نہیں کرسکا، لیکن مجھے اس بات کا کوئی افسوس نہیں ہے۔ پائلٹ بننے اور جہاز اڑانے کی خواہش ابھی بھی دل میں ہے، لیکن مصروفیت کی وجہ سے اسے پورا نہیں کر پارہا، اگر میری بہن یہ ذمے داری سنبھال لیں تو میں دوبارہ اس کورس کو مکمل کرلوں گا۔

ایکسپریس: مستقبل میں مزید ایدھی فاؤنڈیشن کی ایمبولینس سروسز (بشمول ایئر سروس) کے فروغ اور بہتری کے لیے کیا اقدامات کرنے کے خواہش مند ہیں؟

فیصل ایدھی: ہم ایدھی فاؤنڈیشن کے تحت چلنے والی زمینی، فضائی بحری اور دیگر تمام سروسز کو نئی ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ کرنے کے خواہش مند ہیں۔ میں ایمرجینسی سروسز میں استعمال ہونے والے نسبتاً نئے چار پانچ جہازوں کو فضائی بیڑے میں شامل کرنا چاہتا ہوں۔ ابھی ہمارے پاس ایک جہاز کے علاوہ ایک ہیلی کاپٹر ہے، لیکن وہ ایک اسٹریچر والا چھوٹا ہیلی کاپٹر ہے۔ اس کی اوو ہالنگ اور دیگر مرمتی کاموں کے لیے تقریباً  3سے 4کروڑ روپے کا خرچہ ہے۔ نہ صرف ایمبولینس بل کہ اپنی تمام سروسز میں بہتری کے لیے ہمارا ایک مڈوائف، پیرامیڈیکس اور نرسنگ اسکول بنانے کا ارادہ ہے جس کے تحت پاس آؤٹ ہونے والے طلبا ہماری ساری سروسز کو ٹیک اور کریں گے، جیسا کہ میں نے پہلے بتایا کہ ہم لوگوں کی مہارت (اسکلڈ) کو فروغ دینے کے خواہش مند ہیں۔ اس سے یہ ہوگا کہ ہم سو کی جگہ دو سو زخمیوں کی جان بچا سکیں گے۔

جہاں تک بات ہے بحری سروس کی تو ہمارے پاس کچھ کشتیاں ہیں جو ہم سیلاب اور اس نوعیت کی دیگر قدرتی آفات میں استعمال کرتے ہیں۔ اس کام میں انفلیٹ ایبل کشتیاں (ہوا سے پھولنے والی) کشتیاں بہت موزوں ہیں، کیوں کہ ہوا بھری ہونے کی وجہ سے یہ ڈوبتی نہیں ہیں چاہے آپ سمندر میں، سیلاب میں ہوں یا دریا میں۔ کسی زمانے میں، میں نے 28کشتیاں درآمد کی تھیں، ان میں کچھ خراب ہوگئیں، کچھ ٹوٹ گئیں اور کچھ کو چوہے کھاگئے۔ ہمارے یہاں ان کشتیوں کو چوہوں سے بچانا بہت مشکل ہے۔ اس وقت چالو حالت میں چھے کشتیاں ہیں۔ جس طرح میں فضائی سروس کو بہتر بنانے کے لیے پُرجوش ہوں، اسی طرح میرا بیٹا بحری سروس کو فروغ دینے کے لیے بہت متحرک ہے۔

ایکسپریس: فضائی آپریشن پر کیا لاگت آتی ہے؟ کیا یہ سروس نجی طور پر بھی فراہم کی جائے گی، اگر ہاں تو پھر اس کے چارجز کیا ہوں گے؟

فیصل ایدھی: فضائی سروس چلانا بہت منہگا شوق ہے۔ ایک جہاز کو آپریٹ کرنے کے لیے پندرہ آدمیوں کا اسٹاف رکھنا پڑ رہا ہے۔ ایئر سیفٹی کے نئے قوانین کے تحت چھوٹی آرگنائزیشن کے لیے بہت فضائی آپریشنز کو جاری رکھنا بہت مشکل ہوگیا ہے۔ دوسرا اہم مسئلہ ایروناٹیکل انجینئرز کا ہے پاکستان میں ان کی شدید قلت ہے۔ اس کے علاوہ نجی کمپنیاں بھی دور دراز علاقوں میں جانے کے لیے ہمارے جہاز چارٹر کرتی ہیں جس سے ہمارے کچھ اخراجات کم ہوجاتے ہیں۔ یوں سمجھیں کہ سالانہ تین کروڑ کا نقصان ہونا ہے تو وہ کم ہوکر ڈیڑھ دو کروڑ ہوجاتا ہے۔

اس وقت جو جہا ز ہمارے پاس ہے اس کی فی گھنٹہ پرواز پر ستر ہزار روپے خرچ ہوتے ہیں، جس میں زمینی عملے کو شامل کیا جائے تو پھر یہ لاگت فی گھنٹہ ڈیڑھ لاکھ تک پہنچ جاتی ہے۔ ہاں اگر ہمارے پاس جہازوں کی تعداد بڑھ جائے تو پھر اخراجات میں کچھ کمی ہوجائے گی۔ وہ بھی اس صورت میں اگر ایک ہی کمپنی اور ایک ہی ماڈل کا جہاز ہو، ورنہ ہر ماڈل کے لیے الگ الگ تین تین انجینئرز اور ٹیکنیشنز رکھنے پڑیں گے۔ ہنگامی حالات میں ایدھی فاؤنڈیشن نے ماضی میں بھی یہ سروس بلا معاوضہ فراہم کی ہے اور آئندہ بھی اس روایت کو برقرار رکھا جائے گا۔

ایکسپریس: دنیا بھر میں حکومت اور شہری انتظامیہ فلاحی اداروں کو ایمبولینسز اور دیگر سامان دے کر ان کی حوصلہ افزائی کرتی ہے، لیکن پاکستان میں یہ معاملہ کچھ الٹ ہے، آپ نے فنڈز کی کمی کے باوجود کے ایم سی کو دس ایمبولینسز عطیہ کردیں، اس کی کوئی خاص وجہ؟

فیصل ایدھی: مغربی ممالک میں ضلعی حکومت کے پاس سب سے زیادہ ایمبولیسنز ہوتی ہیں، لیکن ہمارے پاس تو اسے ضلعی حکومت کو اتنا کم زور کردیا گیا ہے کہ ان کے پاس تنخواہیں دینے کے پیسے نہیں ہیں۔ ہم نے کے ایم سی کو ایمبولینسیں اس لیے دی ہیں کہ وہ کسی ایمرجینسی کی صورت میں ہمارا ہاتھ بٹاسکیں گے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ شاید ہماری حکومتوں کو شرم آجائے۔ کراچی میں محکمۂ فائر بریگیڈ کو تباہ کردیا گیا ہے۔ کراچی کی دو کروڑ کی آبادی کے لیے فائر بریگیڈ کے پاس نو سو فائر فائٹرز ہیں، جس میں نصف سے زاید ضعیف العمر ہیں۔ اگر کراچی کا موازنہ پیرس سے کریں تو وہا ں کی ستر لاکھ آبادی کے لیے نو ہزار فائر فائٹر اور میرے خیال سے چار پانچ سو فائر ٹینڈرز ہیں، جنہیں وہ دو تین سال بعد استعمال کرکے فروخت کردیتے ہیں، جب کہ کراچی کی دو کروڑ آبادی کے لیے کم از کم دو سو فائر ٹینڈرز ہونے چاہیے تھے، لیکن آٹھ نو ہیں وہ بھی ناقابل بھروسا۔ اگر خدانخواستہ تین چار جگہ آگ لگ جائے تو آپ خود اندازہ لگا لیں کس قدر تباہی ہوگی۔

ایکسپریس: کیا آپ کے بچے بھی آپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ایدھی فاؤنڈیشن کی ذمے داریاں سنبھالیں گے؟

فیصل ایدھی: میری بہن کبریٰ، ممی، بیوی ہم سب ہی ایدھی فاؤنڈیشن کے لیے کام کر رہے ہیں۔ ایک بیٹا موسیٰ ابھی آٹھ سال کا ہے، جب کہ سب سے بڑا بیٹا سعد فارغ وقت میں ایدھی فاؤنڈیشن میں میری ذمے داریوں میں ہاتھ بٹاتا ہے، لیکن میں اس سے یہی کہتا ہو کہ تم پہلے اپنی تعلیم مکمل کرلوں اس کے بعد اپنی صلاحیتوں کو زیادہ بہتر طریقے سے فاؤنڈیشن کی ترقی کے لیے استعمال کرنا۔ موسیٰ بھی زیادہ تر میرے ساتھ ساتھ ہی رہتا ہے۔

ایکسپریس: ادب، سماجی خدمت ، سیاست اور فنون لطیفہ میں کن شخصیات کو زیادہ پسند کرتے ہیں؟

فیصل ایدھی: میں بنیادی طور پر سیاسی آدمی تھا لیکن مجھے ایدھی صاحب نے سماجی بنا دیا۔ پسندیدہ شخصیات میں ایدھی صاحب، کارل مارکس، لینن سرفہرست ہیں، میں نے ان شخصیات کے حالات زندگی سے بہت کچھ سیکھا ہے۔

ایکسپریس: کن موضوعات پر کتابیں پڑھنا پسند ہے؟

فیصل ایدھی: وقت کی کمی اور کتب بینی کی عادت نہ ہونے کہ وجہ سے کتابیں باقاعدگی سے نہیں پڑھتا، لیکن کبھی کبھی سعادت حسن منٹو، ساحر لدھیانوی، حبیب جالب کی کتابیں پڑھ لیتا ہو۔

ایکسپریس: فلمیں دیکھتے ہیں، اگر ہاں تو پھر کن موضوعات پر بننے والی فلمیں پسند ہیں؟

فیصل ایدھی: فلموں اور ٹی وی ڈرامے دیکھنے کا شوق نہیں ہے، لیکن اگر موقع ملے تو پھر پرانے گانے شوق سے سنتا ہوں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔