طلاق طلاق طلاق…

شیریں حیدر  اتوار 27 جنوری 2013
 Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

لانگ مارچ اور پھر دھرنے نے ہمیں اپنے اپنے گھروں میں محصور کر دیا، ممکن ہی نہ تھا کہ اسلام آباد میں کوئی نفس کہیں نکل پاتا… ٹیلی فون بھی مرے پڑے تھے، جی تو چاہ رہا تھا کہ گھروں سے باہر نکلا جائے مگر کسے خود کو کسی نئی مصیبت میں پھنسانا مقصود تھا، سو صبر کر کے بیٹھے تھے اور باہر کے حالات سے واقفیت کا واحد ذریعہ ٹیلی وژن تھا اور ہر چینل ایک جیسی خبریں دے رہا تھا سو منہ کا ذائقہ بدلنے کو ریموٹ کنٹرول کا چارج سنبھالا اور مختلف چینلز کے ڈرامے دیکھنا شروع کر دئیے، کچھ بجلی کی لوڈ شیڈنگ کی باعث ادھورے رہ گئے اور کسی کے درمیان میں صاحب کو خبریں سننا ہوتی تھیں… وہ مسلسل ڈراموں کو ڈراما کہہ رہے تھے کہ جس طرح کا رومانس ہمارے ڈراموں میں دکھایا جا رہا ہے وہ آج کے زمانے میں مسائل کے باعث ممکن نہیں رہا… لوگوں کے پاس اتنا وقت کہاں کہ بیویوں سے رومانوی ڈائیلاگ بولیں یا محبوبائیں پالیں!!!

یہی کچھ ہر چینل کے ڈراموں میں دکھایا جا رہا تھا، غم روزگار اتنا وقت ہی نہیں دیتا کہ اپنی روز مرہ روٹین میں ڈرامے دیکھے جائیں مگر جب حالات نے گھروں میں محصور کر دیا تو اس کے سوا کوئی چارہ نہ بچا۔ مجھے اندازہ ہوا کہ اپنے ارد گرد جو مسائل دیکھنے کو مل رہے ہیں اور معاشرے میں جن برائیوں کا بہت زیادہ ارتکاب ہو رہا ہے، ان کی کافی ذمے داری ہمارے ٹیلی وژن کے ڈراموں پر عائد کی جا سکتی ہے۔ آپ میں سے جو خواتین و حضرات باقاعدگی سے اپنے کئی چینلز کے ڈرامے دیکھتے ہیں انھیں میری اس بات سے اتفاق کرنا ہو گا کہ جو کچھ دکھایا جا رہا ہے وہ ہر گز اس قابل نہیں کہ اسے اپنے خاندان کے ساتھ بیٹھ کر دیکھا جا سکے۔ہر ایک ڈرامے میں یہ حالات لازم ہیں جیسے یہ کسی ڈرامے کی کامیابی کا مسالہ ہو… ہر ڈرامے میں شادی شدہ مردوں یا عورتوں کی گھر سے باہر غیر اخلاقی دوستیاں ضروری ہیں، یہاں تک کہ اس باہر کی دوستی کو غیر اخلاقی نہیں کہا جاتا اور ان غیر اخلاقی دوستیوں کے کرداروں کی تخلیق اس طرح سے کی جاتی ہے کہ ناظرین کی ہمدردیاں ان کے ساتھ ہو جاتی ہیں۔ عورتیں گھروں کی چار دیواری میں بھی ہوں تو انھیں چور دروازے مل جاتے ہیں اور مرد حضرات تو باہر سر عام اپنی دوستیاں نبھاتے پھرتے ہیں۔

گھروں میں دکھائی جانیوالی فضا غیر صحتمندانہ رجحانات کی عکاسی کرتی ہے… نوجوانوں کے ہاتھوں موبائل ٹیلی فونوں کو اتنا عام دکھایا جاتا ہے کہ جن کے پاس موبائل فون نہ ہوں وہ خود کو دنیا کے محروم ترین انسان سمجھیں گے۔ ماں باپ سے جھوٹ بولنے اور کبھی نہ پکڑے جانے والے بچے، ان کی نظروں کے پیچھے منفی سرگرمیوں میں ملوث ہوتے ہیں اور والدین کو اس کا کبھی علم ہی نہیں ہو پاتا۔
سب سے بڑھ کر جو بات دکھی کرتی ہے وہ ہے ہر ایک ڈرامے میں ان میں سے کسی ایک فقرے کا موجود ہونا…
… میں تمہیں طلاق دیتا ہوں, طلاق… طلاق… طلاق!!!
… میں تم سے طلاق لینا چاہتی ہوں!!!!
… مجھے صرف طلاق چاہیے!!!!
… تم مجھے طلاق کیوں نہیں دے دیتے؟؟؟
… اسے فوراً طلاق دے دو، تم اسے طلاق دے کر فارغ کیوں نہیں کر دیتے؟
… طلاق ہی ہمارے مسائل کا واحد حل ہے!!!!
… میں طلاق کے علاوہ کوئی بات نہیں کہنا چاہتا… اور اسی نوعیت کے دیگر الفاظ

اس میں کچھ زور بیان نہیں، جس کسی کو شک ہو وہ چند دن تک ٹیلی وژن کے ڈراموں کو مسلسل دیکھے۔ جانے ہماری سوسائٹی کو کس طرف لے جایا جا رہا ہے، ڈراما دیکھنے والے طبقے کی ذہنی اپچ اور ان کے اذہان پر ڈرامے کے اثرات کا اندازہ کیوں نہیں لگایا جاتا۔ ملک اور معاشرے میڈیا سے بہت کچھ سیکھ کر اپنی زندگیوں کو مثبت راہوں پر گامزن کرتے ہیں مگر ہمارے ہاں جو کچھ ہو رہا ہے وہ کم و بیش وہی ہے جو ہمارا میڈیا پھیلا رہا ہے… زوجین کے مابین تعلقات کو مذاق کے انداز میں پیش کیا جاتا ہے اور طلاق جو ہمارے اللہ کے نزدیک نا پسندیدہ ترین امر ہے اس کا پرچار کیا جا رہا ہے اور اسے ازدواجی تعلقات میں بگاڑ کے واحد حل کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے…کہاں گئے وہ ڈرامے کہ جن کو دیکھنے کے لیے گلیاں اور کوچے ویران ہو جایا کرتے تھے ۔ آج تو ڈراموں کی بہتات ہے مگر پھر بھی کوئی ڈراما اس طرح پسندیدگی کی سند نہیں پا سکتا جیسی پسندیدگی اس دور کے ڈراموں کا مقدر تھی جو آج سے تیس چالیس برس قبل دکھائے گئے مگر ان کے کردار لوگوں کو آج بھی یاد ہیں… جنگل، وارث، کرن کہانی اور ایسے کتنے ہی لازوال ڈرامے جو آج بھی دیکھیں تو اچھے لگتے ہیں۔

ڈراما حقیقی زندگی کے تناظر میں بنایا جاتا ہے اور ہر لکھی گئی کہانی کی طرح ڈرامے کے ذریعے بھی اخلاقی سبق دئیے جانے چاہئیں مگر بد قسمتی سے آج ڈراما کمائی کا ذریعہ اور نئی نسل کے بگاڑ کا باعث بن کر رہ گیا ہے۔ ہمارے ہاں تو میڈیا کا اس بات پر مقابلہ ہے کہ کون سا چینل خبر کو بھی ڈرامے کی طرح بنا کر زیادہ سے زیادہ سنسنی خیز بنا کر پیش کر سکتا ہے… آوے کا آوا ہی بگڑا ہو ا ہے اور ہنگامی طور پر ہمیں اس کی سمت درست کرنے کی ضرورت ہے۔

ایسا ڈراما اس لیے بنتا جا رہا ہے کہ ہم اسے دیکھتے ہیں، اسے پسند کرتے ہیں اور فیس بک پر اپنی پسندیدگی کی سند بھی دیتے ہیں… غیر ممالک میں بیٹھے ہوئے پاکستانی اپنے ملکی حالات کو ڈرامے کے ذریعے ہی جانتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ کیا ہمارے ملک میں ساری نوجوان لڑکیاں اسی طرح بغیر بازؤں کی قمیضیں اور اتنی تنگ پتلونیں پہنتی ہیں؟ کیا ہماری گھریلو عورتیں بھی اب رات کو پورا میک اپ کر کے اور ساڑھیاں باندھ کر سوتی ہیں… اور تو اور ہمارے مارننگ شوز ہی کمال کے ہیں جن میں پہلے تو ورزشیں اور کھانا پکانا ہوتا تھا مگر اب پوری پوری شادیاں ہوتی ہیں، جن میں رشتے طے ہونے سے لے کر شادی کی تیاریاں اور وہ رسومات بھی ہوتی ہیں جو کبھی بھی ہماری معاشرت کا حصہ نہیں رہی ہیں۔بیرون ملک سے فرمائشیں آتی ہیں کہ فلاں مارننگ شو میں جو لان کا جوڑا فلاں اینکر نے پہنا ہوا تھا، فلاں انداز کا پاجامہ… فلاں ڈیزائنر کا سوٹ… ان سب نے وہ منفی رجحانات پروان چڑھائے ہیں کہ معاشرے کی شکل ہی بگڑ کر رہ گئی ہے۔

ہمارا میڈیا ہر گز ہمارے مذہب اور معاشرت کی عکاسی نہیں کرتا۔ حکومت تو شاید ان کی اصلاح کر سکے نہ کرنا چاہے، ان کی اصلاح تبھی ممکن ہے جب ان کے لیے ایک ضابطہء اخلاق وضع کیا جائے اور انھیں کہا جائے کہ کوئی ڈراما مذہبی، معاشرتی اور لسانی طور پر غیر اخلاقی نہ ہو۔ ان میں وہ سب کچھ نہ دکھایا جائے جو ہمارے ہاں ہو نہیں رہا، یا نہیں ہونا چاہیے۔ اگر یہ ممکن نہیں تو کاش ملک سے ان تمام چینلز کا خاتمہ کر دیا جائے اور ہمیں اسی پرانے دور میں واپس لے جایا جائے جس وقت ایک ہی چینل تھا اور وہ ایک فیملی چینل تھا… یوں تو ہم ہر طرح سے ترقی کی دوڑ میں ’’ریورس‘‘ میں جا رہے ہیں، اس میدان میں پیچھے رہ جائیں گے تو شاید ہم اپنی بہت سی اقدار کو بچا سکیں گے!!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔