اکنامک سروے ... کیا کھویا کیا پایا

جاوید قاضی  ہفتہ 27 مئ 2017
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

اکنامک سروے رپورٹ سال 2017-2016 بلآخر ہمارے ہاتھوں میں آگئی۔ ہم نے کیا کھویا کیا پایا۔ آج ہندسوں میں پھنسی حقیقتیں اوراعدادوشمار، تخمینے وخسارے سب نظر سے گزارتے ہیں۔سب سے پہلے خوش آیند بات یہ ہے کہ شرح نمو دس سال کے بعد 05% سے تجاوزکرتے ہوئے05.28% پر آگئی۔ اب ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہم معاشی طور پر دنیا کے چند اہم ترقی پزیر ممالک میں سے ایک ہیں لیکن اِس بات میں صداقت تب ہو گی جب یہ معاملہ اسی طرح آیندہ سالوں میں مستقل مزاجی سے چلتا رہے ۔جو بات سمجھنے کی ہے وہ یہ ہے کہ اس شرح نمو کے پانے میں جس پالیسی کا ہاتھ ہے ،اس سے ہم بیرونی و داخلی طور پر مقروض بہت ہوئے ہیں۔ ہمارے مالی خسارے کا ہدف مجموعی پیداوار کے03.08% تھامگر رپورٹ کہتی ہے کہ یہ04.02% ہے۔

IMF اِس کو نہیں مانتی وہ کہتی ہے کہ یہ 04.05%ہے یعنی لگ بھگ پندرہ سو ارب روپے ہم نے بینکوں اور مختلف زرایع سے قرضے کی صورت میں لیے، پھرکیا ہوا کہ اتنی بڑیBorrowig کے بعد بھی افراطِ زر کئی سالوں سے سنگل ڈجٹ چلتے پرہوئے آج کل04.01% پر ٹھہرا ہوا ہے۔

جس کی وجہ سے مونیٹری پالیسی یعنی اسٹیٹ بینک نے سْود کی شرح 05.05% رکھی ہوئی ہے۔اْس کی بنیادی وجہ بین الاقوامی منڈی میں تیل کی قیمت سو ڈالر فی بیرل سے گِر کر تیس سے پچاس ڈالر فی بیرل کے بینڈ پرگھوم رہی ہے اورآیندہ سالوں میں یہ معاملہ اسی طرح ہی چلتا رہے گا۔ وہ اِس لیے کہ شمسی توانائی سے بجلی پیدا کرنے والے آلات بہت سستے ہوگئے ہیں ، پسِ پردہ اور بھی بہت سی وجوہات ہونگی جِن کا یہاں ذکرکرنا مناسب نہیں ۔ ورنہ اتنے سارے قرضے سے لینے سے جو مہنگائی متوقع تھی یا افراطِ زر بڑھنا تھا اْس سے اسٹیٹ بینک سْود کی شرح اتنی کم کبھی بھی نہ مقررکرتا۔

جو لمحہ فکر ہے وہ ہے برآمدات کی مد میں۔ پیپلزپارٹی کی حکومت نے جو پچیس ارب ڈالر کے قریب یہ برآمدات چھوڑے تھے اْس کو گِراتے گِراتے رواں مالی سال میںPML-N کی حکومت  20.08ارب ڈالرپر لے کر آئی اْس کے بر عکس درآمدات ہیں جو کہ پینتالیس ارب ڈالر سے بھی تجاوزکر رہے ہیں۔ پچھلے سال تجارتی خسارہ اٹھارہ ارب ڈالر کے گرد گھوم رہا تھا۔ آج وہ چھبیس ارب ڈالرکے گرد گھوم رہا ہے، جو کہ خطرناک حد کو چھْو رہا ہے۔ لیکن اْس میں ایک چیز خوش آیند ہے کہ برآمدات کا لگ بھگ بارہ ارب ڈالر کا بِل صنعتی مشینری کی مد میں ہے اور اس کا 76.05%بجلی پیدا کرنے والے آلات کے حوالے سے ہے ۔ لیکن یہ تمام تر طور طریقے جو مروج ہیں اْن سے اصل معاملات کا پتا نہیں چلتا۔ یہ شرح نمو، مجموعی پیداوار ، مالی خسارہ ، اور سْود زیاں سب ڈھکوسلے ہیں یہ تمام تر طریقہ کار اْن ریاستوں کے لیے ہیں جو فلاحی ریاستیں ہیں۔ ہم بنیادی طور پر اپنی رْومیں غیر فلاحی ریاست ہیں۔ ہمارے لیے جو مروج طریقہ ہے وہHDIہے نہ کہ GDPیا شرح نمو وغیرہ۔HDIکیا ہے؟HUMAN DEVELOPMENT INDICATOR یا انسانی وسائل کی ترقی۔

یہ سروے سے رپورٹ ہر سال اقوام ِ متحدہ کا ادارہUNDPشایع کرتا ہے نہ کہ پاکستان کا ’’بیوروآف اسٹیٹکس‘‘ UNDP کی اِس رپورٹ کے مطابق 2017 میں پاکستان 160ترقی پزیر ممالک میں سے ،147نمبر پرکھڑا ہے۔ یعنی سن 2000سے بارہ قدم اور پیچھے ہے۔

وہ بچے جو اسکول نہیں جا سکتے ہم اس دوڑ میں دنیا کے بد ترین ممالک میں سے دوسرے نمبر پر ہیں۔ یعنی صحت ، تعلیم اور خصوصاً زچگی کے حوالے سے ہم دنیا کے چند بدترین ممالک میں سے ہیں اور ہم سے بہترگمبوڈیا، غانا، میانمار بہتر طورپر، پرفارم کررہے ہیں۔

اور ڈار صاحب ہیں کہ کہہ رہے ہیں ہے کہ پاکستان 2050 تک مجموعی پیداوار میں ساوتھ کوریا وکینیڈا کو بھی پیچھے چھوڑ دے گا، اگر پاکستان کا موازنہ ایسے ہی ممالک سے کیا جائے جِن کی فی کَس آمدنی پاکستان کے برابر ہے تو بھی ہم اْن کے نسبت صحت کے شعبے میں 42%کم خرچہ کرتے ہیں۔ یعنی مجموعی پیداوار کا صرف1.6%۔پھر ہوتا کیا ہے ؟ مثال کے طور پر سندھ کو لیجیے؛ یہاں بچوں میں اموات کی شرح ایک ہزار بچوں میںسے27 بچوں کی ہے۔ لگ بھگ ایک کروڑ دیہی سندھ میں لوگ یرقان کے مرض میں مبتلا ہیں۔

شفاف پانی کی عدم فراہمی کی وجہ سے ڈائیریا کی وباء اورگندے پانی سے پیدا ہوئی بیماریاں خطرناک حد تک پھیلی ہوئی ہیں۔غذائی قلت کی وجہ سے Stuntedبیماری ، پاکستان میں دوسرے ممالک کی بہ نسبت سب سے ز یادہ ہیں ۔ چالیس فیصد بالغان ناخواندہ ہیں جو کہ 24 پوائنٹس کم ہے اْن ممالک کے مقابلے میں جن کی فی کس آمدنی پاکستان کے برابر ہے ۔

اور اگر یہ لسٹ کھولی گئی تو ختم نہ ہوسکے گی۔ بیس کروڑ آبادی کے پاکستان میں، بارہ کروڑ لوگ غربت کی لکیر کے نیچے زندگیاں بسر کر رہے ہیں ۔ان میں سے پانچ کروڑ لوگ ایسے بھی ہیںجن کے گھروں میں باتھ روم بھی نہیںہیں۔ بہرحال میں اِن تمام تضادات و خدشات کے بیچ سے نکلتی ہوئی Silver lining کو دیکھتا ہوں ۔

پاکستان کی بیس کروڑآبادی میں 12کروڑلوگ نو جوان ہیں ۔ یہ قوم مستقبل پر آنکھیں رکھنے والی قوم ہے۔ یہ اِسStatus quo کو نہیں چلنے دیں گے اور اْس میں اْن تمام خدشات کے باوجود بھیCPEC سے نکلتا ہوا انفرا سٹرکچر، جس نے پاکستان کا نقشہ تبدیل کر دیناہے۔ روزگارکے مواقعے پیدا ہونگے، زرعی ملک سے ہم یقینا صنعتی ملک بن جائیں گے۔

پاکستان کا بنیادی مسئلہ سیاسی ہے جوکہ اْس کے معاشی ترقی کے راستے میں روڑھے اٹکاتا ہے اوراگر پاکستان کی جمہوریت اسی طرح رواں رہی تو ایک حقیقی اورسچی قیادت ضرور پیدا ہوگی۔ جو پاکستان کو 0.7%شرح نمو تک لے جائے گی۔

جو پاکستان کی موجودہ تین سو ارب ڈالر کی مجموعی پیداوار کو، آیندہ دس سالوں میں چھ سو ارب ڈالرکی مجموعی پیداوار تک لے جائے گی۔ پاکستان کے اندر اتنی طاقت ہے کہ وہ آیندہ بیس سالوں میں تین ہزار ارب ڈالرکی مجموعی پیداوار تک پہنچ سکتا ہے، شر ط یہ ہے کہ بجٹ بنانے کے لیے روایتی طور طریقوںکو چھوڑنا پڑے گااورHDI PATTERN کو اپنانا پڑے گا۔ زندگی کے معیار کو بہتر بنانا پڑے گا اور غربت کے خاتمے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے پڑیںہوں گے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔