کچھ ادھر ادھر سے

نصرت جاوید  اتوار 27 جنوری 2013
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

اپنی طبعی عمر کے حوالے سے میں یقینا بڑھاپے کی حدوں میں داخل ہو چکا ہوں۔ ذہنی اعتبار سے البتہ خود کو جمود کا شکار اب بھی نہیں پاتا۔ مجھے نئی نئی ایجادات متاثر اور مسحور کرتی ہیں اور ان میں سے جن کا تعلق ابلاغ عامہ کے ذرائع سے بنتا ہے، میں انھیں اپنے استعمال میں لانے کی ہر ممکن کوشش بھی ضرور کرتا ہوں۔

ایک عادی گنہگار ہوتے ہوئے میں سو چوہے کھانے کے بعد پارسائی کا لبادہ اوڑھ کر دوسروں کے اخلاق بھی درست نہیں کرنا چاہتا۔ پوری ایمان داری سے یہ محسوس کرتا ہوں کہ جیسے میری نسل کے لوگوں نے اپنی جوانی کے دنوں میں اپنے بزرگوں کی بہت ساری روایات کے خلاف حرکتیں کی تھیں، آج کی نوجوان نسل والے میری عمر کے لوگوں کے ساتھ بھی وہی کچھ کریں گے۔ خواہش ہے تو بس اتنی کہ پرانی روایات کو چھوڑ کر نئی روایات بنانے والے مجھے اپنا دشمن نہ سمجھیں۔ کچھ اس طرح کا بندوبست ہو کہ نئی منزلوں کی جانب سفر کرتے ہوئے اپنا ہم رکاب ہی تصور کریں۔

نئی روایتوں اور عادتوں کے تمام تر احترام کے باوجود میرے بچپن سے جڑی کچھ چیزیں ہیں جن کا بتدریج ختم ہونا مجھے پریشان نہیں اداس کر دیتا ہے اور ان کی جگہ جو سامنے آ رہا ہے وہ کبھی کبھار شدید غصے میں مبتلا بھی کر دیتا ہے ۔ میری عمر کے لاہور کے پرانے باسیوں کو اچھی طرح یاد ہو گا کہ عید میلاد النبی ﷺ کا تہوار اپنی تمام تر گہما گہمی کے باوجود ایک بڑا پیارا اور گہرے تقدس والا بھی نظر آیا کرتا تھا۔ اس دن کے آنے سے چند ہفتے پہلے پرانے محلوں کے کچھ نوجوان اپنی ایک منڈلی بنا لیتے۔ یہ منڈلی گھر گھر جا کر چندہ اکٹھا کرتی۔

اس چندے سے ایک بیل گاڑی، جسے ہم ’’گڈ‘‘ کہا کرتے تھے کرایے پر لی جاتی۔ اسے بڑی محنت سے سجایا جاتا۔ پھر اس ’’گڈ‘‘ کو عید میلاد النبی ﷺ کے جلوس میں لایا جاتا۔ جہاں جلوس کو دیکھنے والوں کا زیادہ ہجوم جمع ہوتا تھا، اس ’’گڈ‘‘ کی ٹولی میں بیٹھا سب سے خوش الحان لڑکا بڑی سادگی مگر شدید عقیدت کے ساتھ نعتِ رسول مقبول ﷺ سنانے کھڑا ہو جاتا۔ اپنے نبی ﷺ کے نام کو یاد کرنے اور پھیلانے کا یہ سارا عمل ایک حوالے سے پورے محلے کا مشترکہ عمل ہوتا تھا۔ جس میں اس محلے کا ہر مکین اپنی اپنی بساط، حیثیت اور صلاحیت کے مطابق بھرپور حصہ لیتا ۔

اب زمانہ ’’کمرشل‘‘ ہو گیا اور پاکستان میں 24/7 چینلوں کی بھر مار جہاں پروگرام کرنے والے لوگوں کی اکثریت ذہنی اور تخلیقی طور پر تقریباََ فارغ ہے۔ وہ عید میلاد النبی ﷺ کو اشتہارات اکٹھے کرنے والا Event سمجھ کر اس کی Management کرتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں اسکرین پر جو کچھ دِکھتا ہے، وہ آنکھوں کو چکا چوند ضرور کرتا ہے مگر دل پر ذرا سا اثر بھی نہیں کرتا۔ میرے نبی ﷺ کا ذکر کرتے ہوئے Stars نوٹنکی والے مسخرے دکھتے ہیں۔ ان میں وہ عاجزی اور بے ساختی دور دور تک نظر نہیں آتی جو صوفی شاعر کے صرف ایک شعر مثلاََ ’’کون آیا پہن لباس کڑے۔ تسی پچھو نال اخلاص کڑے‘‘ میں چھلکتی نظر آتی ہے۔ اپنے نبی ﷺ کو یاد کرتے ہوئے پر خلوص دل ’’ہور کوئی توفیق نہیں میرے‘‘ کہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ یہ سارا قصہ عاجزی سے بیان کرنا ہوتا ہے۔ اس مقام پر Celebrity رعونت اور شو بازی کی کوئی گنجائش نہیں۔ بس خلوص اور صرف خلوص کی ضرورت ہے۔

عید میلاد النبی ﷺ کو اشتہاری Event بنتا دیکھ کر مجھے جو تکلیف ہو رہی تھی، وہ اپنی جگہ بہتر نہ ہو پائی تھی کہ مجھے پوری دیانتداری سے یہ شک بھی ہونا شروع ہو گیا کہ میرے لاہور میں بیٹھے خادم اعلیٰ تازہ انتخابات کے قریب جاتے ہوئے اس مبارک دن کو ایک سیاسی پیغام دینے کے لیے استعمال کرنا چاہ رہے ہیں۔ گزشتہ کئی برسوں سے میڈیا اور انٹرنیٹ وغیرہ پر یہ بات پھیلائی جا رہی تھی کہ رانا ثناء اللہ کی قربت کی وجہ سے شہباز شریف اور ان کے چہیتے افسران ہمارے ملک میں ذرا ’’کٹر‘‘ سمجھے جانے والے بن رہے ہیں۔ شاید اسی تاثر کی بدولت ہمارے ہاں انگریزی زبان میں لکھنے والوں نے بالآخر یہ دریافت بھی کر لیا ہے کہ کینیڈا سے آئے ایک قادری کا اچانک پاکستان آ جانا دراصل پانچ دریائوں کی سر زمین کی جڑوں میں بسی بریلوی ’’روایت‘‘ کے احیاء کا اعلان کر رہا ہے۔

مجھے پورا یقین ہے کہ بھاری لفاظی کے ساتھ انگریزی میں ملکی اور غیر ملکی اخبارات اور دوسرے ذرائع ابلاغ کے لیے ایسے تجزیے لکھنے والے ان بزرگ صوفیوں کو ہرگز خبر نہیں کہ قادری، سہروردی اور نقشبندی سلسلوں میں کونسے بنیادی فرق پائے جاتے ہیں۔ وہ کسی کو یہ نہیں سمجھا سکتے کہ سماع کیا ہے۔ خواجہ معین الدینؒ نے اس کے فروغ کی شعوری کوشش کیوں کی اور چشتیہ سلسلہ کیا ہوتا ہے۔ انٹرنیٹ پر جا کر ان سلسلوں کے نام ٹائپ کر کے وہ تو بس Search کا بٹن دبا دیتے ہیں اور پھر پہلوانوں جیسی مشقت کرنے کے بعد ایک Piece لکھ ڈالتے ہیں۔

میرے لاہور میں بیٹھے خادم اعلیٰ کو ان سے متاثر ہو کر اپنے لیے Brand ڈھونڈنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اللہ کے فضل سے انھیں والدہ محترمہ کی شفقت اب بھی میسر ہے۔ تھوڑا وقت نکال کر ان کے پاس بیٹھ جائیں۔ مجھے پورا یقین ہے کہ ان کے ساتھ گزارے چند لمحے انھیں اچھی طرح سمجھا دیں گے کہ پاک و ہند کے عام اور ان پڑھ نظر آنے والے مسلمان اپنے نبی ﷺ کے بارے میں کیا محسوس کرتے ہیں۔ 2013ء میں بھی انھیں اس ضمن میں کوئی Brand گھڑنے اور Event بنانے کی ضرورت نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔