وفاقی بجٹ میں ’’ایک ہاتھ سے دیکر دوسرے سے واپس لینے‘‘ کی حکمت عملی

عامر نوید چوہدری  ہفتہ 27 مئ 2017
امپورٹ پر زیادہ چھوٹ سے تجارتی خسارہ، ان ڈائریکٹ ٹیکسوں سے مہنگائی میں ہوشربا اضافہ ہوگا۔
 فوٹو: فائل

امپورٹ پر زیادہ چھوٹ سے تجارتی خسارہ، ان ڈائریکٹ ٹیکسوں سے مہنگائی میں ہوشربا اضافہ ہوگا۔ فوٹو: فائل

 لاہور:  وفاقی بجٹ 2017-18 میں ان ڈائریکٹ ٹیکس بڑھا کر حکومت نے ’’ایک ہاتھ سے دے کر دوسرے سے واپس لینے‘‘ کی حکمت عملی اپنائی، سرمایہ کارکو مراعات دی گئیں، عام آدمی کیلیے کچھ نہیں۔

وفاقی بجٹ 2017-18 کے تحت کاسمیٹکس مصنوعات پر ٹیکس لگانے سے حکومت کا ’’خواتین ووٹ بینک‘‘ متاثر ہوگا، کم آمد ن والے طبقے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ مربوط انڈسٹریل، ایکسپورٹ اورفوڈ سیکیورٹی پالیسی دینی چاہیے تھی، حکومت نے بجٹ میں ہیلتھ، ایجوکیشن سیکٹرکو نظر انداز کیا، قرضہ جات کی ادائیگی کے حوالے سے واضح حکمت عملی نہیں بتائی گئی، اسی طرح پٹرولیم مصنوعات پر ٹیکسوں میں کمی نہیں کی گئی، خوراک اورتعلیم مزید مہنگی ہوجائیگی۔

وزیرخزانہ نے امپورٹرزکیلیے ضرورت سے زیادہ مراعات کا اعلان کیا،جبکہ امپورٹ سیکٹرپہلے ہی کافی مراعات یافتہ ہے،اس سے تجارتی خسارہ خوفناک حد تک بڑھ جائیگا ،جسے پورا کرنے کیلیے حکومت کو مزید ٹیکس لگانا پڑینگے۔ ان ڈائریکٹ ٹیکسوں سے مہنگائی میں ہوشربا اضافہ ہوگا۔

بجٹ میں بزنس کمیونٹی کی توقعات کے برعکس کسی بھی قسم کی مربوط انڈسٹریل یا ایکسپورٹ پالیسی نہیں دی گئی ،اسی طرح فوڈ سیکیورٹی کی بات نہیں کی گئی ،جس سے خوراک کی قیمتیں مزید بڑھ جائیں گی۔ بجٹ میں گروتھ کی بات تو کی گئی ہے لیکن روزگار کے مواقع بڑھانے کے حوالے سے ٹھوس حکمت عملی نہیں بنائی گئی۔

بجٹ کو مخصوص طبقے کا بجٹ کہا جاسکتا ہے کیونکہ تنخواہ داراور کم آمد ن والے طبقے کیلیے اس میں کچھ نہیں ہے، انہیں رواں برس بھی مہنگائی میں اضافہ اور قوت خرید میں کمی کا سامنا رہے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔