- بھارت؛ انسٹاگرام ریل بنانے کی خطرناک کوشش نے 21 سالہ نوجوان کی جان لے لی
- قطر نے 12 سال کی فاتح سنگاپورسے دنیا کے بہترین ایئرپورٹ کا اعزاز چھین لیا
- اسرائیلی بمباری میں 6 ہزار ماؤں سمیت 10 ہزار خواتین ہلاک ہوچکی ہیں، اقوام متحدہ
- 14 دن کے اندر کے پی اسمبلی اجلاس بلانے اور نومنتخب ممبران سے حلف لینے کا حکم
- ایل ڈی اے نے 25 ہاﺅسنگ سوسائٹیوں کے پرمٹ اور مجوزہ لے آﺅٹ پلان منسوخ کردیے
- امریکا نے اقوام متحدہ میں فلسطین کی مستقل رکنیت کی قرارداد ویٹو کردی
- وزیراعظم کا اسمگلنگ کے خاتمے کے لیے ملک گیر مہم تیز کرنے کا حکم
- جی-7 وزرائے خارجہ کا اجلاس؛ غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ
- پنڈی اسٹیڈیم میں بارش؛ بھارت نے چیمپیئنز ٹرافی کی میزبانی پر سوال اٹھادیا
- اس سال ہم بھی حج کی نگرانی کرینگے شکایت ملی تو حکام کو نہیں چھوڑیں گے، اسلام آباد ہائیکورٹ
- بشریٰ بی بی کو کھانے میں ٹائلٹ کلینر ملا کر دیا گیا، عمران خان
- عمران خان اور بشریٰ بی بی کی درخواستیں منظور، طبی معائنہ کروانے کا حکم
- حملے میں کوئی نقصان نہیں ہوا، تمام ڈرونز مار گرائے؛ ایران
- 25 برس مکمل، علیم ڈار دنیائے کرکٹ کے پہلے امپائر بن گئے
- قومی اسمبلی: جمشید دستی اور اقبال خان کے ایوان میں داخلے پر پابندی
- کراچی میں غیرملکیوں کی گاڑی پر حملہ، خودکش بمبار کی شناخت
- مولانا فضل الرحمٰن کو احتجاج کرنا ہے تو کے پی میں کریں ، بلاول بھٹو زرداری
- کراٹے کمبیٹ 45؛ شاہ زیب رند نے ’’بھارتی کپتان‘‘ کو تھپڑ دے مارا
- بلوچستان کابینہ کے 14 وزراء نے حلف اٹھا لیا
- کینیا؛ ہیلی کاپٹر حادثے میں آرمی چیف سمیت 10 افسران ہلاک
وفاقی بجٹ میں ’’ایک ہاتھ سے دیکر دوسرے سے واپس لینے‘‘ کی حکمت عملی
لاہور: وفاقی بجٹ 2017-18 میں ان ڈائریکٹ ٹیکس بڑھا کر حکومت نے ’’ایک ہاتھ سے دے کر دوسرے سے واپس لینے‘‘ کی حکمت عملی اپنائی، سرمایہ کارکو مراعات دی گئیں، عام آدمی کیلیے کچھ نہیں۔
وفاقی بجٹ 2017-18 کے تحت کاسمیٹکس مصنوعات پر ٹیکس لگانے سے حکومت کا ’’خواتین ووٹ بینک‘‘ متاثر ہوگا، کم آمد ن والے طبقے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ مربوط انڈسٹریل، ایکسپورٹ اورفوڈ سیکیورٹی پالیسی دینی چاہیے تھی، حکومت نے بجٹ میں ہیلتھ، ایجوکیشن سیکٹرکو نظر انداز کیا، قرضہ جات کی ادائیگی کے حوالے سے واضح حکمت عملی نہیں بتائی گئی، اسی طرح پٹرولیم مصنوعات پر ٹیکسوں میں کمی نہیں کی گئی، خوراک اورتعلیم مزید مہنگی ہوجائیگی۔
وزیرخزانہ نے امپورٹرزکیلیے ضرورت سے زیادہ مراعات کا اعلان کیا،جبکہ امپورٹ سیکٹرپہلے ہی کافی مراعات یافتہ ہے،اس سے تجارتی خسارہ خوفناک حد تک بڑھ جائیگا ،جسے پورا کرنے کیلیے حکومت کو مزید ٹیکس لگانا پڑینگے۔ ان ڈائریکٹ ٹیکسوں سے مہنگائی میں ہوشربا اضافہ ہوگا۔
بجٹ میں بزنس کمیونٹی کی توقعات کے برعکس کسی بھی قسم کی مربوط انڈسٹریل یا ایکسپورٹ پالیسی نہیں دی گئی ،اسی طرح فوڈ سیکیورٹی کی بات نہیں کی گئی ،جس سے خوراک کی قیمتیں مزید بڑھ جائیں گی۔ بجٹ میں گروتھ کی بات تو کی گئی ہے لیکن روزگار کے مواقع بڑھانے کے حوالے سے ٹھوس حکمت عملی نہیں بنائی گئی۔
بجٹ کو مخصوص طبقے کا بجٹ کہا جاسکتا ہے کیونکہ تنخواہ داراور کم آمد ن والے طبقے کیلیے اس میں کچھ نہیں ہے، انہیں رواں برس بھی مہنگائی میں اضافہ اور قوت خرید میں کمی کا سامنا رہے گا۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔