مجرم ہو بارُسوخ ،تو قانون کچھ نہیں

اسلم خان  اتوار 27 جنوری 2013
budha.goraya@yahoo.com

[email protected]

میرادل بجھ گیا ہے مایوس ہوگیا ہوں نصف صدی میں پہلی بار، گھٹا ٹوپ اندھیروں میں کہیں روشنی کی کرن۔۔ اُمید کا اُجالا دکھائی نہیں دیتا۔کراچی کے نوجوان شاہ زیب کے قتل نے ایسی صورتحال سے دوچار کردیا ہے۔ہمیشہ آس اور اُمید کا دامن تھامے رکھنے والے ہاتھ شل ہوتے جا رہے ہیں۔

کراچی جہاں روزانہ درجنوں بے گناہ مار دیئے جاتے ہیں، ماہر نشانچی چن چن کر جوانیاں خاک میں ملا رہے ہیں، صرف ایک اجنبی نوجوان کی موت نے میرادل کیسے توڑ دیا؟ یہ صرف شاہ زیب کی موت نہیں۔ ہمارے گلے سڑے نظام قانون و انصاف کے انجام کا باضابطہ اعلان ہے۔شاہ رخ جتوئی کو نابالغ قراردے کر بچانے کی کوشش کی جارہی ہے اسے بچوں کی جیل بھیج دیا گیا ہے، تاکہ اُسے انسداد دہشت گردی کی عدالت سے بچایا جا سکے۔سارے پاکستان کی اشرافیہ متحد ہو کر شاہ زیب کے اہل خانہ کوصلح پر مجبور کررہی ہے جس کے لیے قصاص ودیت کے اسلامی قانون کا سہارا بھی لیا جا رہا ہے۔اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی ریاست ظلم پر کھڑی ہے۔ باب العلم مولاعلیؓ نے فرمایا تھا کہ ریاست کفر پر قائم رہ سکتی ہے ظلم پر نہیں۔

کراچی میں نوجوان شاہ زیب کا قتل، اسلام آباد میں نیب کے تفتیشی افسر کامران فیصل کی پر اسرار ہلاکت اور 82ارب کی کرپشن میں ملوث توقیر صادق کا پاکستان سے فرار۔۔۔ تین مختلف کہانیاں ہیں جن کا بظاہر باہم کوئی تعلق نہیں،یہ صرف تین داستانیں نہیں۔۔۔۔۔نوحہ ہے عدل وانصاف کا،ہماری اجتماعی بے حسی اور بے بسی کا، جس نے ہمارے سماج کو انسانی درندوں کی آماجگاہ بنا دیا ہے۔

جس طرح کی لاقانونیت کا برہنہ مظاہرہ ہماری پارلیمانی جمہوریہ میںہو رہا ہے، اس کا تصور کسی شخصی آمرانہ ریاست میں نہیں کیا جا سکتا ۔ذرا سوچیے کیا صدام حسین کے عراق یا قذافی کے لیبیا میں بھی یہ ممکن تھا کہ ان کے منہ زوربیٹے راہ چلتے ہنسی مذاق میں کسی کوموت کے گھاٹ اتار دیتے؟

شاہ زیب کو شہر نگاراں، کراچی میں سر عام قتل کیا گیا۔وہ کوئی گرا پڑا، لاوارث نہیں تھا ۔ کراچی پولیس کے DSPاورنگ زیب کا بیٹا ،پیپلزپارٹی کے رکن قومی اسمبلی نبیل گبول کا بھانجا،لیکن ہوا کیا، شاہ زیب کا پولیس افسر باپ 6دن تک اپنے بیٹے کے قاتل نامزدنہ کرسکا کہ مقابل بے لگام اور منہ زور اصل حکمران اشرافیہ کے نو نہال تھے جن کی طرف دیکھنے کی بھی کراچی پولیس کو ہمت نہیں تھی ۔

اس ملک کے طول و عرض میں نجانے کتنے شاہ زیب روزانہ خاک وخون میں ملادیئے جاتے ہیںجن کا کوئی نام لیوا بھی نہیں ہوتا۔
اخبارات میں اس قتل کے بارے میں اُدھوری اور نامکمل خبریں شائع ہوتی ہیں ۔ویسے بھی کراچی کے مقتل میں ایک جان کی کیا اہمیت ہوسکتی ہے۔ یہ سوشل میڈیا تھا۔ذرائع ابلاغ کا متبادل نظام۔۔۔۔ٹویٹر اور فیس بک جسے پاکستان میں ایک کروڑ پڑھے لکھے باشعور نوجوان مسلسل استعمال کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا نے شاہ زیب قتل کو زندہ رکھا کہ روایتی میڈیا کو بھی مجبوراًاس کی پیروی کرنا پڑی اور بالآخر چیف جسٹس افتخار چوہدری نے یکم جنوری 2013کو از خود نوٹس لے کر متعلقہ حکام کو طلب کرلیا، سینئر پولیس افسر کا بیٹا قتل کر دیا جائے اور پولیس کوئی کارروائی نہ کرے، ایک نا سمجھ میں آنے والی بات ہے۔ شاہ زیب کے اہل خانہ پر دبائو کا یہ عالم ہے کہ مسلم لیگ (ن )کے بلوچستان سے رکن قومی اسمبلی لیفٹیننٹ جنرل قادر بلوچ اورغوث علی شاہ بھی صلح وصفائی اور کروڑوں روپے کی پیشکش لے کر نبیل گبول سے ملے ۔اُس شریف آدمی نے صرف اتنا کہا کہ ملزم کو پیش تو کرو اس کے بعد صلح کی بات بھی کرلیں گے ۔ کیونکہ مرنے والا تو مرگیا باقی خاندان نے تو انہی انسانی درندوں کے درمیان زندہ رہنا ہے اور پھر اسلام اور اس کے قوانین کس دن کام آئیں گے قصاص و دیت کا قانون ایسے مواقع پر کام آتاہے ۔

سپریم کورٹ کی براہ راست مداخلت سے بعد ازاں خرابی بسیار ، شاہ رخ جتوئی کی گرفتاری اور پاکستان واپسی کے بعد جو کھیل تماشا ہورہا ہے اس نے ہماری اجتماعی بے حسی پر مہر تصدیق ثبت کردی ہے ۔

شاہ رخ جتوئی کو ’’نابالغ‘‘ثابت کرنے کے لیے میڈیکل بورڈ تشکیل دیا جا رہا ہے۔ میٹرک کی سند، تعلیمی دستاویزات، پیدائش کا سرٹیفیکیٹ اور پاسپورٹ ، سب پر تاریخ پیدائش درج ہوتی ہے ۔ان تمام دستاویزات کے باوجود عمرکے تعین کے لیے میڈیکل بورڈ کی تشکیل چہ معنی دارد؟

رینٹل پاور کیس کے تفتیشی افسر، جواں سال کامران فیصل اپنی انتہائی محفوظ علاقے، ریڈ زون میں واقع اپنی سرکاری رہائش گاہ پر مردہ پائے گئے ان کی لاش پنکھے سے لٹکی ہوئی تھی بظاہر ان جوان رعنا نے ’’ذہنی دبائو‘‘ کی وجہ سے زندگی سے منہ موڑ لیا تھا ۔پہلے نیب کے سربراہ ایڈمرل فصیح بخاری نے اس کی خود کشی پر مہر تصدیق ثبت کرکے میڈیا ٹرائل بند کرنے کا حکم بھی جاری کردیاتھالیکن اب نیب نے کامران فیصل کے قتل کا مقدمہ درج کرادیا ہے جس کے بعد ایڈمرل بخاری کو مستعفی ہوجانا چاہیے ۔

ہمارے ہاں تفتیشی افسروں کی پر اسرار ہلاکت کو پہلا واقعہ نہیں ہے اس سے پہلے مرتضیٰ بھٹو قتل کیس کے تفتیشی افسر پولیس انسپکٹر حق نواز کو تھانے کی حدود میں واقع ان کی رہائش گاہ میں قتل کردیا گیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ کیا کامران فیصل کو کرائے کے قاتلوں کے ذریعے قتل نہیں کرایا جا سکتا۔ اسلام آباد پولیس شفاف تفتیش کی بجائے کیس کو دبانے کے سرتوڑ کوشش کررہی ہے لیکن نیب کے جوال سال تفتیشی افسران اپنے ساتھی کی پر اسرار موت پر احتجاج کرتے ہوئے باہر نکل آئے ہیں جس کے بعد اس قتل کو ہضم کرنا ممکن نہیں رہا۔

اسی طرح توقیر صادق کی قانون سے آنکھ مچولی اور ملک سے فرار نے ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے منہ پر ایک اور طمانچہ رسید کیا ہے۔ بغیر کسی اہلیت کے توقیر صادق کو اوگرا کا چیئرمین کیوں نامزد کیا گیا، یہ کوئی راز نہیں کھلی حقیقت ہے ۔ ماضی بعید میں یہ کالم نگار جناب توقیر صادق کو ایک معززاستاد کی حیثیت سے جانتا تھا لیکن جو استادی دکھائی ہے، اس کا تو تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔

تازہ ترین اطلاعات کے مطابق توقیر صادق کے لیے دبئی جانے والی نیب کی ٹیم افراتفری میں وارنٹ گرفتاری لے جانا بھول گئی تھی، اس لیے انھیں واپس نہیں لایا جاسکا۔ دیکھنا یہ ہے کہ ایڈمرل فصیح بخاری اس بارے میں کیا فرماتے ہیں۔

حرف آخر یہ کہ مہذب معاشروں میں آزادی اورذمے داری لازم وملزوم ہوتی ہیں۔بے لگام اور مادر پدر آزادی نے ہمیںبتباہی کے دہانے پر لے جارہی ہے ۔خاص طور ہمارے نیوز چینلزنے ریٹنگ کے لیے تمام حدودکوپامال کرکے رکھ دیا ہے۔14جنوری، سوموار کو بھارتی آرمی چیف بکرم سنگھ نے نئی دہلی میں غیر معمولی پریس کانفرنس کرتے ہوئے لائن آف کنٹرول پر کشید گی کے تناظر میں پاکستان اور مسلح افواج پر بے سروپا الزامات کی بوچھاڑ کردی ۔جسے ٹی وی چینلز نے’’لائیو‘‘دکھایا۔ سوال صرف یہ ہے کہ کیا بھارتی ٹی وی چینلز پاکستان کے چیف آف دی آرمی اسٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی کی ایسی ہی پریس کانفرنس ’’لائیو‘‘دکھا سکتے ہیں، نہیں جناب بالکل نہیں۔ یہ بے لگام آزادی صرف پاکستان میں ہی میسر آسکتی ہے، بھارت میں اس کاکوئی تصور نہیں کیا جا سکتا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر پٹیشن میں استدعا کی گئی ہے کہ غیر جانبدار چیئرمین پیمرا کا تقرر Stake Holdersکے مشورے سے کیا جائے ۔پیمرا۔۔۔نجی ٹی وی چینلز اور ایف ایم ریڈیوز کے معاملات اور حدود و قیود کے تعین کا کام انجام دینے والا ادارہ ہے ۔ اگر چیئرمین پیمرا کا تقرر بھی عوامی چنائو اور انتخاب کے ذریعے ہونے لگا تو رہے سہے قانون پر عملدرآمد کون کرائے گا اور جنرل بکرم سنگھ کی پاکستان کے خلاف پریس کانفرنس کو ’’لائیو‘‘ دکھا کر جس طرح کی ذمے داری کا مظاہر ہ کیا گیا ہے اس کو روکنے ٹوکنے والا کون ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔