رواداری پر نفرت کا حملہ

زاہدہ حنا  اتوار 28 مئ 2017
zahedahina@gmail.com

[email protected]

برطانیہ ایک ملک نہیں، مقناطیس ہے جو صدیوں سے لوگوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ اس کے دارالحکومت لندن کی بنیاد رومن فاتحین نے اب سے لگ بھگ 2 ہزار برس پہلے دریائے ٹیمز کے کنارے رکھی جہاں ملکہ الزبتھ اول نے 1600ء میں برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی کو ہندوستان سے تجارت کا فرمان دیا۔ تجارت کے لیے آنے والوں نے لگ بھگ دو صدی تک ہندوستان اور دنیا پر حکومت کی۔ نو آبادیاتی نظام کا آکٹوپس ایشیا اورافریقا کے وجود میں اپنے پنجے گاڑے رہا۔

1665 میں لندن پر طاعون کی بلا نازل ہوئی تو انسان حشرات الارض کی طرح ہلاک ہونے لگے، یہ 1666 تھا جب ایک نان بائی کے تندور سے ایک چنگاری بھڑکی جس نے اس شہر کو خاکستر کردیا۔ یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ سر رائیڈر ہیگرڈ کی ہیروئن ’شی‘ کی طرح یہ شہر بھی آگ کے شعلوں میں نہا کر نکلا، دلی سات مرتبہ اجڑی اور سات مرتبہ بسی، لندن بھی ایک مرتبہ خاکستر ہوا اور پھر دیو مالائی پرندے ققنس کی طرح اپنی ہی راکھ سے جی اٹھا۔

آج جب کہ اس کی تمام نوآبادیاں آزاد ہوچکی ہیں، اب بھی لوگ اس کی طرف کھنچے چلے جاتے ہیں۔ یہ شہر مصوری، موسیقی، شعرو ادب اور ڈرامے کے لیے شہرت رکھتا ہے۔ 400 برس پہلے سے شیکسپیئر کی دھوم اسی شہر سے شروع ہوئی تھی۔ یہاں کی لائبریریوں، کالجوں، یونیورسٹیوں سے ساری دنیا کے لوگ علم کی پیاس بجھاتے ہیں ۔ لندن اور انگلستان سے ہم برصغیر والوں اور اس کی دوسری نوآبادیوں کو ناراضیاں بہت ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی اس کی خوبیاں ہزاروں ہزار ہیں۔ اس کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ آج سے نہیں صدیوں سے اس نے اپنے دیس سے نکالے جانے والوں اور خود اختیارکردہ جلاوطنوں کے لیے اپنی بانہیں کھلی رکھی ہیں۔

مارکس اور لینن اس کی دو بڑی مثالیں ہیں۔ دونوں سرمایہ دارانہ نظام کے نظری اور عملی مخالف لیکن دونوں کو پناہ لندن میں ہی ملی بلکہ یہ کہنا زیادہ درست ہوگا کہ انگلستان مارکس کے لیے دوسرا وطن تھا۔ جرمنی سے جلاوطن ہوا تو انگلستان میں پناہ لی اور پھر لندن کی سرزمین میں ہی وہ اور اس کا سارا خاندان پیوند خاک ہوا۔ بیسویں صدی میں ہمارے کتنے ہی سیاستدانوں کو وہاں پناہ ملی۔ نام کیا گنوائے جائیں۔اس کے تنوع اوراس کی وسعت قلبی کا اندازہ اس سے لگایئے کہ اس وقت لندن کا مئیر ایک پاکستانی نژاد برطانوی ہے۔ ہم جن لوگوں کو گالی دیتے نہیں تھکتے، ان ہی سفید فام لوگوں نے ایک ایشیائی مسلمان کو اپنا نمائندہ منتخب کیا ہے اور ہاں سعیدہ وارثی کا نام تو رہ گیا۔

اس تمہید کا مقصد یہ ہے کہ ہم مانچسٹر میں ہونے والے الم ناک سانحے پر غورکریں اور یہ سوچیں کہ آخر یہ کیسی سیاسی تربیت ہے اور جمہوریت کا وہ کون سا سبق ہے جس کے سبب وہاں کے عوام اورخواص ایسے ہولناک سانحوں پر تحمل اور تدبر سے کام لیتے ہیں۔

مانچسٹر کنسرٹ میں برطانویوں کی نئی نسل کی لڑکیاں اور لڑکے چشم زدن میں خاک پر سلادیے گئے۔ برطانوی حکومت اور پولیس نے فوری طور پر بے پناہ صدمے کا اظہار توکیا لیکن یہ واویلا نہیں مچایا کہ ہمارے یہاں پناہ لینے والے، ہماری سوشل سیکیورٹی سے فائدہ اٹھانے والے اور ہمارے اسکول اورکالج میں پڑھنے والے ایک مسلمان لڑکے نے یہ ’کارنامہ‘ انجام دیا ہے۔ وزیراعظم سے لے کر ایک عام پولیس کانسٹیبل نے بھی اشارۃً یہ نہیں کہا کہ اس جرم کا مرتکب ایک مسلمان تھا اور جب امریکا نے اس لڑکے کی قومیت، مذہب اور نام جاری کیا تو برطانیہ میں امن عامہ کو قائم اور برقرار رکھنے والوں نے ناپسندیدگی اور برہمی کا واضح الفاظ میں اظہار کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ چند دنوں میں ہم بھی دنیا کو اور اپنے لوگوں کو اس بارے میں سب کچھ بتاتے لیکن امریکا نے جلد بازی کی جس سے ہماری تحقیق و تفتیش کا اہم کام متاثر ہوا۔ لیبیا سے ترک وطن کرکے انگلستان آنیوالے جوڑے کا یہ بیٹالندن میں پیدا ہوا، یہیں پلا بڑھا، جس نے یہ ہولناک جرم کیا لیکن 23 سالہ سلمان عابدی اس جرم کا واحد ذمے دار نہیں۔ دہشتگردوں کا ایک نیٹ ورک ہے جس نے اس سے اتنے بڑے پیمانے پر دہشت گردی کا ارتکاب کرایا۔ ہم اس نیٹ ورک کے لوگوں کو گرفتار کرنا چاہتے ہیں لیکن امریکیوں کی جلد بازی نے ہمارا کام مشکل بنا دیا ہے۔

اس موقع پر آپ ہندوستان اور پاکستان میں ہونے والے دہشت گردی کے دو واقعات کو یاد کیجیے۔ پہلا مسز اندرا گاندھی کا قتل ہے۔ مسز گاندھی اپنے سکھ محافظوں کے ہاتھوں ہلاک ہوئیں۔ یہ خبر جیسے ہی عام ہوئی، دلی میں فسادات برپا ہوگئے۔ اسی طرح بے نظیر بھٹو جب شہید کی گئیں تو جو ہوا وہ ہمارے سامنے ہے۔

انگلستان میں نسل پرستی ایک جانا پہچانا مظہر ہے، اس کے باوجود مانچسٹر میں ہونے والے خونیں واقعے کے بعد کسی بھی ایک مسلمان یا رنگ دار کی نکسیر نہیں پھوٹی۔ کسی نے یہ نہیں کہا کہ لندن کے پاکستانی اور مسلمان مئیر سے استعفیٰ لے لیا جائے۔ کسی مسلمان کی دکان لوٹی نہیں گئی اور خاص طور سے افریقی مسلمانوں پر برطانیہ کے سفید فام باشندوں کا قہر و غضب نازل نہیں ہوا۔ یہ واقعات اور معاملات ہمیں سنجیدگی سے غور و فکر کی دعوت دیتے ہیں۔

ہمارے نوجوان اور بعض حالات میں بزرگ نفرت کی دلدل میں کیوں دھنس جاتے ہیں جہاں وہ انسان ہونے کے شرف سے محروم ہوجاتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے کہ مذہبی انتہا پسندی اور اس کی بناء پر دہشت گردی ہمارے گروہوں کا شعار بن گئی ہے؟ ایسا کیوں ہے کہ ایسے ہر سانحے کے پیچھے کسی مسلمان نوجوان کا ہاتھ ہوتا ہے؟

اس جنون اور خونیں رویے کے ڈانڈے ہمیں پہلی صدی ہجری کے تیسرے عشرے سے ملنا شروع ہوجاتے ہیں۔ یہ خوارج تھے جو اس وقت نمودار ہوئے اور عرصہ دراز تک مسلمان خواص اور عوام ان کی تلوار کی زد میں رہے۔ ڈیڑھ ہزار برس میں مسلمانوں کو سب سے زیادہ نقصان ان مسلمان گروہوں نے پہنچایا جو اپنے خیال میں سچے مسلمان تھے اور ان مسلمان علما، گروہوں اور خواص سے نجات چاہتے تھے جو ان کے خیال میں اسلام کی بنیادوں کو کمزور کررہے تھے۔

اگر ہم دنیا بھر کے مسلمان ملکوں کا جائزہ لیں تو وہاں صرف یہی نہیں ہے کہ غیر مسلموں کے ساتھ ناروا سلوک کیا جاتا ہے، بلکہ آپس میں فرقے اور مسلک کی بنیاد پر مسلمان ایک دوسرے سے نفرت کرتے ہیں اور اپنے مخالف مسلمان گروہ کو ہر طرح کا نقصان پہنچانے کے درپے رہتے ہیں۔ اس وقت اگر ہم افغانستان، پاکستان، ترکی، عراق، شام، الجزائر اور کئی دوسرے مسلمان ملکوں کے احوال پر نظر کریں تو صاف دکھائی دیتا ہے کہ ان تمام ملکوں میں ہونے والی غارت گری کے ذمے دار صرف مسلمان ہیں۔ فرقے اور مسلک کے نام پر جو دشمنی اختیار کی گئی ہے، وہ ناقابل یقین ہے۔ یہ نفرت ہمیں کھا رہی ہے اور ہماری جڑوں کو کاٹ رہی ہے۔

مانچسٹر میں ایک 23 سالہ مسلمان نوجوان نے جس طرح رنگ و نور کی ایک محفل کو خاک وخون میں نہلا دیا، اس کے لیے یہ جواز نہیں بنتا کہ اس نے لیبیا اور شام میں مسلمانوں کی حالتِ زار دیکھی تھی۔ ان دونوں ملکوں میں وہاں کے حکمرانوں کی ہوسِ اقتدار اور فرقہ وارانہ نفرت کی بنیاد پر لوگ ایک دوسرے کا گلا کاٹ رہے ہیں۔ بشار الاسد کے جنگی طیارے اگر شامی عوام پر بم برسا رہے ہیں تو اس کا ذمے دار ہم اقوامِ عالم کو نہیں ٹہرا سکتے۔ اسی طرح پاکستان میں اگر طالبان ڈیڑھ سو بچوں کو اس لیے ذبح کر جاتے ہیں کہ وہ مسلمان تو تھے لیکن ان کے مسلک سے تعلق نہیں رکھتے تھے، تو اس رویے کا ذمے دار ہم غیر مسلموں کو کس طرح ٹہرا سکتے ہیں۔

ہم اپنی رواداری اور صلح جوئی کا بار بار اعلان کرتے ہیں لیکن حقیقت میں یہ دونوں انسانی رویے ہمیں چھو کر نہیں گئے۔ ہم یہ کہہ کر اپنی انسانی ذمے داریوں سے عہدہ برآ نہیں ہوسکتے کہ امریکا ، یورپ اور اسرائیل نے وقتاً فوقتاً ہم مسلمانوں پر بہت ظلم کیا ہے۔ ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ جب شامیوں پر قیامت ٹوٹی، وہ در بہ در ہوئے تو یہ جرمنی، انگلستان اور دوسرے مغربی ملک تھے جنھوں نے ان کے لیے اپنی سرحدیں کھولیں اور انھیں وہ مراعات دیں جو ان کے اپنے شہریوں کو حاصل ہیں۔

ہمارے وہ نوجوان جنھیں علم کی قندیلیں روشن کرنی تھیں وہ خود کش دھماکے سے اپنے اور دوسرے نوجوانوں اور بوڑھوں کے وجود کو بھڑکتی ہوئی آگ کا شعلہ بنا دیتے ہیں۔ بیگناہ انسانوں کی ہلاکت کے عوض خیالی جنت اور وہاں رہنے والی حوروں کو حاصل کرنے کی خواہش نہ کریں۔ زندگی کو کسی مقصد کے تحت گزارا جائے تو روئے زمین پر ہی جنت آباد ہوجاتی ہے۔ اس کے لیے اپنی اور دوسروں کی ہلاکت کا اہتمام کیوں کیا جائے؟ یوں بھی یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ اگر آپ اس بات کو مانتے ہیں کہ سب کچھ خدا کی طرف سے ہوتا ہے تو دنیا بھر میں پھیلے ہوئے مذاہب، فرقے اور مسلک خدا کی عطا ہیں، کیا انھیں مٹانے اور قتل کرنے سے خدا راضی ہوگا؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔