کرو مہربانی تم اہل زمیں پر

رئیس فاطمہ  اتوار 28 مئ 2017
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

رمضان کی آمد سے پہلے ہی اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا پرکشکول کھل جاتے ہیں۔ جن کے پاس پہلے ہی سے ضرورت مندوں کے لیے ڈھیروں فنڈز اور عطیات موجود ہیں۔ انہی کے اشتہارات ہر جگہ نظر آتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ وہ جو بڑے بڑے اشتہارات شایع کروارہے ہیں۔ ان کے پاس سرمایہ ہے، فنڈز ہیں،عطیات ہیں، جبھی تو وہ اپنی آواز دوسروں تک پہنچارہے ہیں … لیکن وہ کیا کریں جو واقعتاً ضرورت مند ہیں، لیکن عطیات کی اپیل کے لیے اشتہارات شایع کروانے کے لیے مطلوبہ رقم نہیں ہے۔

آج ایسے ہی ایک ادارے کا تعارف اس امید کے ساتھ کروا رہی ہوں کہ عطیات دیتے وقت اس بات کا خیال ضرور رکھیے کہ کون زیادہ ضرورت مند اور مستحق ہے۔ یہ ادارہ ذہنی پسماندگان کا ہے۔ اس کا نام ہے ’’دارالفلاح‘‘ برائے ذہنی پسماندگان اور پتہ ہے B-133 بلاک آئی نارتھ ناظم آباد، نزد خدیجہ مارکیٹ، کراچی۔ اس ادارے میں ہر عمر کے ذہنی و جسمانی معذور رہائش پذیر ہیں، سینئر سٹیزن بھی ہیں اور نوجوان بھی۔

اس ادارے کے کرتا دھرتا واحد جمال اور ان کی اہلیہ ہیں۔ یہ دونوں میاں بیوی معذوروں کے لیے ایک درد اور ہمدردی رکھتے ہیں، ورنہ اگر انھیں صرف کمائی کرنا مقصود ہوتی تو کوئی بھی اسکول کھول کر پیسے کماسکتے تھے، لیکن دونوں میاں بیوی کے جذبہ ہمدردی اور محنت کو دیکھ کر مجھے خوشی بھی ہوئی اور دکھ بھی کہ ان کے ادارے کو مالی پریشانیوں کا سامنا ہے جس طرح معذور افراد لڑکیاں، بچے اور معمر افراد ان سے محبت کرتے ہیں۔ وہ ایک بڑی بات ہے۔

جنھیں گھر والے نہیں سنبھال سکتے انھیں یہ دونوں کس طرح سنبھالتے ہیں، یہ ایک بڑی بات ہے۔ ایک صاحب جن کا شمار معمر افراد میں ہوتا ہے کرسی پر بیٹھے دوسرے لوگوں کے ساتھ ٹی وی دیکھ رہے تھے۔ ان کے بارے میں معلوم ہوا کہ پڑھے لکھے ہیں۔ نجانے کیوں پہلے بیوی چھوڑ کر چلی گئی اور یہ اکیلے رہ گئے۔ اولاد کوئی تھی نہیں، جاب کرتے تھے۔

ایک دن جاب پر جانے کے لیے نکلے تو اچانک بیہوش ہو کر گر پڑے، محلے کی ایک نیک دل خاتون نے اہل محلہ سے مدد کی درخواست کی، کچھ پیسے جمع کیے اور کچھ لوگوں کی مدد سے انھیں اس ادارے میں چھوڑگئیں، یہ دن رات اب یہیں رہتے ہیں۔ ان کے پاس ایک معمر خاتون کو دیکھا جو بالکل صحیح الدماغ ہیں۔ ان کا بھی کوئی نہیں ہے۔ خیر انھیں یہ تو اطمینان ہے کہ کوئی نہیں ہے۔ یہی سوچ کر ان بزرگ کو بھی قرار آجاتا ہے جن کی کوئی اولاد نہیں۔ لیکن وہ کیا کریں جو اولاد کے ہوتے ہوئے لاوارث ہیں۔ زندگی انھیں گھسیٹ رہی ہے اور وہ موت کے انتظار میں دوسروں کے رحم وکرم پر ہیں۔

اس دنیا میں دو طرح کے لوگ ہیں۔ ایک وہ جو دوسروں کو دکھ دینا، ان پر الزام تراشی کرنا، ان کا دل دکھانا اور انھیں اولاد سے دور کرنا سخت گناہ سمجھتے ہیں اور جانتے ہیں کہ آخرت میں پکڑ ہوگی۔ دوسرے وہ جن کا خمیر ہی حسد، جلن اور خبث باطن سے گندھا ہے۔ یہ لوگ اپنے سے برتر، بے ضرر اور دوسروں سے محبت کرنیوالوں کی زندگی اجیرن بناکر دلی تسکین حاصل کرتے ہیں۔ اولاد کو ماں باپ سے جیتے جی دور کرتے ہیں۔ حسد اور جلن میں اس حد تک گر جاتے ہیں کہ عملیات تک کا سہارا لے کر اولاد کو والدین سے بدظن کر دیتے ہیں۔

واحد جمال اور ان کی اہلیہ میں مجھے وہ خوبیاں نظر آئیں جو اول الذکر انسانوں میں ہوتی ہیں۔ جن معمر خاتون کو وہاں دیکھا ان سے بات چیت رہی، دبلی پتلی بے ضرر سی، کہنے لگیں ’’میرا خالی بیٹھے بیٹھے جی گھبراتا ہے‘ اگر سلائی مشین کا بندوبست ہوجائے تو میں کچھ سلائی کرلیا کروں۔‘‘ میں نے پوچھا ’’آپ کو سلائی آتی ہے،کیا کیا سی لیتی ہیں‘‘ تو ہنس کر بولیں ’’سب کچھ‘‘۔

واحد جمال صاحب کا یہ ادارہ 1994 میں قائم ہوا۔ پہلے یہ ادارہ گلشن کنیز فاطمہ میں قائم تھا۔ واحد جمال کے آفس میں مجھے بہت ساری ٹرافیاں اور میڈل نظر آئے، معلوم ہوا کہ جب اسپیشل چلڈرن کے درمیان مختلف کھیلوں وغیرہ کے مقابلے ہوتے ہیں تو ان کے ادارے کے بچوں نے کافی انعامات حاصل کیے ہیں جو سب کے سب یہاں نظر آتے ہیں۔

سچ پوچھیے تو میں دل کی بہت کمزور ہوں، قتل و غارتگری کے مناظر، دھماکوں کے بعد کے ہولناک مناظر دیکھنے کی مجھ میں قطعی سکت نہیں ہے۔ میں تو قربانی کے جانور پر چھری پھرتے ہوئے بھی نہیں دیکھ سکتی … لیکن ان ذہنی اور جسمانی معذور افراد کو دیکھ کر میرے ضبط کے تمام بندھن ٹوٹ گئے۔ یہ ایک ہولناک منظر تھا کہ جیتے جاگتے وجود دنیا سے بے نیاز اپنی ہی دنیا میں مگن، عمر 28 سال لیکن ذہنی عمر بمشکل پانچ سال۔ مجھ میں مزید افراد سے ملنے اور انھیں دیکھنے کی ہمت نہیں رہی۔

میرا کہنا یہ ہے کہ عطیات، زکوٰۃ، فطرہ دیتے وقت یہ ضرور دیکھ لیں کہ کس کو دے رہے ہیں۔ دارالفلاح ایک ایسا ادارہ ہے جس کو عطیات کی سخت ضرورت ہے۔ حکومت کو بھی چاہیے کہ دارالفلاح جیسے اداروں کی طرف توجہ کرے، لیکن یہاں بھی وہی حال ہے کہ رشوت اور سفارش کے بغیر امداد ملنی بھی مشکل ہے۔ سڑکوں کی تعمیر ہو یا شہر کی صفائی یا ذہنی پسماندگان کی وزارت ہر جگہ کمیشن کی بنیادوں پر کام ہوتا ہے۔ واحد جمال صاحب کو یہ آفر بھی ہوئی تھی کہ وہ کمیشن طے کرلیں تو امداد مل سکتی ہے۔ انھوں نے اس لیے معذرت کرلی کہ آڈیٹرز کو وہ کیا حساب دینگے کہ مطلوبہ رقم کہاں کہاں خرچ کی گئی۔

شریف آدمی ہمیشہ ڈرتا ہے۔ واحد صاحب کو یہ نہیں معلوم کہ سرکاری اسپتالوں میں داخلہ بھی رشوت اور سفارش کے بغیر ممکن نہیں کیونکہ یہ پاکستان ہے، پیارے … جہاں کوئی بھی غلط کام بڑی آسانی سے رشوت کے بل بوتے پر ہوجاتا ہے، لیکن جائزکام خواہ کسی بھی نوعیت کا ہو بغیر رشوت کے ہونا ممکن نہیں۔ صرف قارئین سے درخواست کی جاسکتی ہے کہ زکوٰۃ، فطرہ اور دیگر عطیات دیتے وقت ’’دارالفلاح‘‘ کو ضرور یاد رکھیں اس ادارے میں اگر آپ جاکر دیکھیں تو خود آپ کا دل پسیج جائے گا اور میری طرح آپ بھی یہ ضرور سوچیں گے کہ یا الٰہی انھیں تو نے کیوں پیدا کیا؟؟

انسان کے لیے مقام عبرت ہے، کاش ایسے اداروں کو حکومت کی جانب سے ہر ماہ یا ہر سال امداد دی جائے۔ یہ سوچنا شاید حماقت ہے۔ البتہ قارئین سے یہ درخواست ضرور کی جاسکتی ہے کہ وہ چاہیں تو کسی بھی صورت میں مدد کرسکتے ہیں۔ خواہ نقد دے کر، چیک دے کر، غذائی اجناس دے کر، راشن ڈلواکر یا معذورین کے کچھ کپڑے بنواکر۔ واحد جمال کا فون نمبر اور بینک اکاؤنٹ نمبر درج ذیل ہیں۔ پتہ میں پہلے ہی درج کرچکی ہوں۔

فون نمبر:0300-2314283

بینک اکاؤنٹ نمبر: بنام انٹر لائن (INTER LINE) الائیڈ بینک انچولی برانچ، سپر ہائی وے فیڈرل بی ایریا کراچی۔

(1)اکاؤنٹ نمبر الائیڈ بینک 1454-3

(2) برانچ کوٹ 0010010853850020 (0427)

قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس ادارے میں بڑے بڑے معروف لوگ وزٹ کرچکے ہیں مثلاً ڈاکٹر عبدالقدیر خان، شاہد آفریدی، جنید جمشید، شہلا رضا، وسیم اکرم، وسیم باری، اداکار ندیم، جاوید شیخ اور بہت سارے دوسرے معروف لوگ۔ مجھے نہیں معلوم کہ یہ سب دورہ کرکے چلے گئے یا ادارے کی کچھ مدد بھی کی۔ بہرحال اب آپ کی باری ہے۔ اپنا فرض ادا کیجیے۔ یہ ذہنی معذور سب سے زیادہ امداد کے مستحق ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔