قلم و قرطاس کی دنیا

نسیم انجم  اتوار 28 مئ 2017
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

کئی برس گزرے جب میری ملاقات حمیدہ معین رضوی سے تقریب کے موقع پر ہوئی تھی۔ انھوں نے مجھے اپنی نثری کتاب داستان در داستان مرحمت فرمائی، میں نے ان سے وعدہ کرلیا تھا کہ میں ان کی کتاب پر اپنی بساط کے مطابق ضرور لکھنے کی کوشش کروںگی، لیکن اتفاق سے میں وعدہ نہ نبھاسکی اور کئی سال گزرگئے۔ میرے ہاتھوں میں کتاب کئی بار آئی، اس طرح یاد دہانی ہوتی رہی۔ انھوں نے مجھے اپنے کوائف بھی بذریعہ ای میل بھیجے تھے، لیکن نہ جانے ان کی میل کیسے ڈیلیٹ ہوگئی۔

بہرحال اب یہ واحد سہارا یا ہتھیار میرے پاس یہ کتاب ہے۔ ہتھیار کا لفظ میں نے اس لیے استعمال کیا کہ ہمارا قلم ہمارا ہتھیار ہی ہوتا ہے، قلم کے ذریعے برائیوں کے خلاف جہاد کیا جاتا ہے۔ بہار و خزاں کے موسموں کی عکاسی کی جاتی ہے۔ گویا گڈائی اور ترائی کے کاموں میں نمایاں کردار اس وقت قلم ادا کرتا ہے جہاں خیالات موج در موج ذہن کے نہاں خانوں میں ہلچل مچا رہے ہوں، تب قلم کی مدد سے کسی بھی تحریر کی بنیاد رکھی جاتی ہے اور تعمیری کام کیا جاتا ہے۔ بہرحال ڈاکٹر شاداب احسانی نے اپنے مضمون داستان در داستان ایک تاثر میں اپنے تاثرات کا اظہار بڑے موثر انداز میں کیا ہے۔

دیکھیے ذرا نمونۂ تحریر ’’حمیدہ معین رضوی کا تحریر کردہ ناولٹ ’داستان در داستان‘ جدید سماجی حسیت کا آئینہ دار ہے، جس میں برصغیر ایشیا اور مغرب کے منظرنامہ، مشرق و مغرب کے اقدار کی سماجی تبدیلیوں کی عکاسی کی گئی ہے، بالعموم اردو ادب میں عزیز احمد کے ’’گریز‘‘ کے معنویاتی اسلوب کے حامل ناول، ناولٹ اور سفر نامے کثیر تعداد میں لکھے گئے، جو مشرقی اقدار سے جذباتی لگاؤ، متعصبانہ رجحانات کے حامل رہے، جب کہ حمیدہ معین رضوی نے مذکورہ ناولٹ میں اعتدال اور سچائی کے ساتھ اپنے اردگردکے پس منظر اور پیش منظر میں بہتی لہروں کی بے قراری کو فنکارانہ مہارت کے ساتھ پیش کیا ہے۔‘‘

مصنفہ نے عرضداشت کے حوالے سے جو تحریر قلمبند کی ہے، اس سے چند سطور:

’’ادیب وہ ہی لکھتا ہے جو اس کی استعداد میں ہوتا ہے، اس کی تخلیق اس کی روح کی جلوہ گری کا نام ہے۔ جیسی اس کی فکری اڑان ہے، مشاہدہ ہے، یا علم اور وجدان ہے، میں نہ تو کسی منشور کو سامنے رکھتی ہوں نہ کسی مصنوعی ماحول کو اوڑھ کر افسانہ لکھتی ہوں، یوں قاری کو میری کہانیوں اور افسانوں میں کم از کم خلوص ضرور ملے گا، آج کے دور میں یہی شے نایافت ہے‘‘۔

حمیدہ معین رضوی نے مختلف موضوعات کے حوالے سے بہت دلکش ناول اور کہانیاں لکھی ہیں۔ وہ نثر لکھنے میں مہارت رکھتی ہیں اور منظر نگاری قاری کے سامنے خوبصورت نظارے یا غم کی سیاہ رات کی طرح بیدار ہوجاتی ہے۔ یہ منظر کتنا حسین ہے، جو کہ ’’داستان در داستان‘‘ کے حصہ اول کی اختتامیہ سطور میں شامل ہے۔

’’اپریل کی ایسی ہی ایک خوبصورت شام تھی، سنگتروں کے شگوفوں کی خوشبو فضا میں مہک رہی تھی، سیب، آلوچے، لوکاٹ بہار دے رہے تھے، میں نے اسے دیکھا اور سکتے میں آگئی اور وہ بھی تو۔ ساری دنیا رقصاں تھی، مجھے محسوس ہوا میری روح میری نہیں، اس کی ہے، وہ مجھے آسمان کے کناروں سے ڈھونتا آپہنچا ہے، وہ آیا مگر چلا گیا، کتنی زیادتی کی بات ہے، میں نے بتیس بہاروں کے جنازے کاندھوں سے اتارے اور بتیس خزاؤں کے کوڑے سمیٹے اور پتھر کھائے۔ کیا یہ انصاف ہے‘‘۔ کتاب کے ناشر محمود الحسن محمود کی رائے کے مطابق حمیدہ معین رضوی کی ’’داستان در داستان‘‘ بلاشبہ اردو، بالخصوص اردو کے نسائی ادب کی خدمت اور ادبی تحاریر میں درخشاں اضافہ ہے۔

’’عکاس انٹرنیشنل‘‘ 26 اشاعت کے مرحلے سے گزر کر قارئین کے ہاتھوں میں پہنچ گیا ہے۔ ٹائٹل خواتین قلمکاروں کی تصاویر سے مزین ہے، ساتویں تصویر راقم السطور کی ہے۔ حیدر قریشی نے میرے ’’دو ناول‘‘ پر خامہ فرسائی کی ہے، سب سے اوپر ڈاکٹر لدمیلا کی تصویر ہے، لیکن ان کا یا ان کے فن پر لکھا ہوا مضمون یا شاعری شامل اشاعت نہیں ہے۔ شگفتہ شفیق کے شعر و سخن پر مختلف قلمکاروں نے مضامین لکھ کر ان کی شاعری کو داد و تحسین سے نوازا ہے۔ حیدر قریشی کے مضمون کا عنوان ہے گزارش احوال واقعی (ثمینہ راجہ کے خطوط کے حوالے سے) مشبر سعید کا شعری مجموعہ ’’خواب گاہ میں ریت‘‘ پر تبصرہ بھی خاصے کی چیز ہے، اسی مضمون سے ایک شعر جوکہ مبشر سعید کا تخلیق کردہ ہے اور بقول حیدر قریشی یہ شعر ان کی پہچان بن چکا ہے:

تو نہیں مانتا مٹی کا دھواں ہو جانا

تو ابھی رقص کروں، ہوکے دکھاؤں تجھ کو

عبداﷲ جاوید کا مضمون ’’پروین شاکر، اس کا عہد اور شاعری‘‘ ایک بہت وقیع مضمون ہے، جو پروین شاکر کے مزاج، شاعری اور مختلف زمانوں کی عکاسی بہت نفاست کے ساتھ کرتا ہے اور پروین شاکر کے تخلیق کردہ اشعار کا انتخاب اور وجہ نزول پر بھی روشنی ڈالتا ہے۔ یہ تحریر عبداﷲ جاوید کی کاوشوں اور خلوص نیت کا مظہر ہے۔

ارشد خالد تعریف کے مستحق ہیں کہ بڑی محنت اور خلوص کے ساتھ پرچے کو ترتیب دیتے ہیں۔ قلمی تعاون اور مشاورت بھی ’’عکاس‘‘ کو قابل قدر بنا دیتی ہے۔ اس دفعہ ’الٹی بات‘ کے عنوان سے جو اداریہ لکھا گیا ہے وہ مردان یونیورسٹی کے حوالے سے ہے، جہاں بربریت کا مظاہرہ کیا گیا اور ایک طالبعلم  پر ظلم کے پہاڑ توڑے گئے بغیر کسی ثبوت کے، اور اگر ثبوت مل بھی جاتے تب بھی قانون کو ہاتھ میں لینے کی اجازت ہرگز نہیں تھی۔ ڈاکٹر وزیر آغا کی نظم ’’اک کتھا انوکھی‘‘ سے ایک اقتباس پیش کیا گیا ہے جسے پڑھ کر درد کی کیفیت بڑھ جاتی ہے۔

اس بار سندھی زبان کے تخلیق کار ذوالفقار گادھی کی پنچابی شاعری شامل اشاعت ہے۔ آیئے دیکھتے ہیں۔ چھوٹی بحر میں کہے گئے اشعار پڑھنے اور سننے میں بھلے لگ رہے ہیں۔

اکھاں بلن دیوے

گلاں کرن دیوے

راتاں لڑن جدوں

راہواں تکن دیوے

سہ ماہی ’’اردو ادب‘‘ انجمن ترقی اردو (ہند) نئی دلی سے شایع ہوتا ہے، مدیراعلیٰ صدیق الرحمن قدوائی اور مدیر اطہر فاروقی معاون مدیر سرور الہدیٰ ہیں۔ صدیق الرحمن قدوائی کا اداریہ لکھنے والوں اور خصوصاً نئے لکھنے والوں کا حوصلہ بڑھانے کا باعث ہے اور فکر کے بہت سے در وا کیے گئے ہیں، جو یقیناً خوش آئند ہے۔ سہ ماہی اردو کے مضامین بھی قابلیت اور علمیت  میں اضافے کا باعث ہیں۔ املا کے لیے کچھ رہنما اصول شمس الرحمن فاروقی کی تحریر ہے، صحیح اور غلط الفاظ کی تفریق اور تلفظ کے بارے میں آگاہی ملتی ہے، سابقے لاحقے، ہائے ہنوز (چھوٹی و) لفظ کے آخر میں اور ایسے ہی کئی الفاظ ہیں، جن کے استعمال کے بارے میں بتایا گیا ہے۔ معین الدین عقیل کا مضمون امیر مینائی کی تصنیف ’’بہار ہند اور اس کا پس منظر‘‘ مہر افشاں فاروقی کا ’’غالبؔ کا 1841ء کا دیوان اور مطبوعہ کتابوں کا رواج‘‘ شاہ عالم کا مضمون اختر الایمان کی شاعری کا فکری پس منظر اردو ادب کے طالبعلموں کے لیے گرانقدر تحریریں ہیں اور دوسری تحریریں بھی پڑھنے والوں کو علم سے سرفراز کرتی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔