عالمی عدالت انصاف کی ناانصافی

عثمان دموہی  اتوار 28 مئ 2017
usmandamohi@yahoo.com

[email protected]

کلبھوشن کو ہم پاکستانی جتنا خطرناک جاسوس سمجھتے رہے ہیں، وہ اس سے کئی گنا زیادہ خطرناک ہے۔ اس نے چند سال میں بلوچستان اور سندھ میں اتنی تباہی مچائی جتنی کہ گزشتہ ستر برسوں میں تمام بھارتی جاسوس مل کر بھی انجام نہیں دے سکے تھے۔ وہ تو خیر سے پکڑا گیا اور مزید تباہی کا سلسلہ رک گیا ورنہ یہ شخص نہ جانے کیا لنکا ڈھاتا۔

اہم سوال یہ ہے کہ اس نے بلوچستان اور سندھ میں جن پاکستانیوں کی معاونت حاصل کی تھی ہمارے خفیہ اداروں نے ان کے نام ضروراگلوائے ہوں گے۔ ان آستین کے سانپوں کے خلاف کب کارروائی شروع کی جائے گی؟ واضح ہوکہ جب تک ان اندرونی دشمنوں کو گرفت میں نہیں لیا جاتا ملک کی سلامتی خطرے سے دوچار رہے گی۔

اطلاعات کے مطابق ایک سابقہ حکومت کے دور میں تو کئی ممالک کے جاسوس پاکستان میں آزادی سے اپنا کام کر رہے تھے۔ ایک دوردراز کے ملک کی قومی اسمبلی میں یہ سوال بھی اٹھایا گیا تھا کہ اس کے جاسوس پاکستان میں کیا کررہے ہیں؟ کاش کہ ویسی صورتحال اب کبھی پیدا نہ ہونے پائے۔ بھارتی قائدین نے تو پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کا بیڑہ اٹھا رکھا ہے چنانچہ بھارت سے کسی قسم کی امید رکھنا خود کو بھارت کے رحم وکرم پر چھوڑنے کے مترادف ہوگا تاہم بھارت کے جاسوسوں کا ملک میں داخلہ روکنا ایک بڑا چیلنج ہے۔

اب تو بھارتی ’’را‘‘ نے افغان خفیہ ایجنسی این ڈی ایس کی خدمات بھی معاوضے پر حاصل کرکے انھیں بھی پاکستان کے خلاف تخریب کاری میں جھونک دیا ہے۔کلبھوشن کی پاکستان میں گرفتاری کے بعد پہلے تو بھارت نے اسے اپنا شہری ہی تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا۔ جب کلبھوشن نے سارا راز کھول دیا تو بھارت گرفت میں آگیا اور پھر مجبوراً اسے اپنا ایک عام شہری تسلیم کرکے اس تک کونسلر رسائی کے لیے کوششیں شروع کردیں۔

اب وہ اسے بچانے کے لیے عالمی عدالت تک چلا گیا ہے جس سے کلبھوشن کے ایک بڑے جاسوس ہونے کا نہ صرف بھانڈا پھوٹ گیا ہے بلکہ بھارت کی پاکستان دشمنی بھی کھل کر عالمی برادری کے سامنے آگئی ہے۔ حالانکہ عالمی عدالت کسی جاسوس کے کیس کو سننے کی مجاز نہیں ہے مگر بھارت نے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرکے اپنے حق میں فیصلہ حاصل کرلیا ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ عدالت کے اکثر جج یہودی ہیں اور پھر ایک جج بھارتی باشندہ ہے اب ایسی صورت حال میں پاکستان کے حق میں کیسے فیصلہ آسکتا تھا؟

اگرچہ ابھی حتمی فیصلہ نہیں ہوا ہے مگر لگتا ہے بھارتی فرمائش پر کیس میں تاخیر کرکے کلبھوشن کی پھانسی کو التوا میں ڈلوادیا جائے گا۔ گوکہ پاکستان کو اس کیس میں مایوسی ہوئی ہے مگر تجزیہ کار کہہ رہے ہیں کہ بھارت نے عالمی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا کر خود اپنے لیے مصیبت کھڑی کرلی ہے۔

خود بھارتی دانشوروں اور قانون دان بھارت کے اس عمل کو اپنے پیروں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف قرار دے رہے ہیں کیوں اب بھارت نے پاکستان کو مسئلہ کشمیر کو عالمی عدالت لے جانے کا راستہ صاف کردیا ہے۔ ساتھ ہی اس نے اپنے اس موقف کو بھی نقصان پہنچایا ہے کہ دونوں ممالک کے تنازعات بغیر کسی بیرونی مداخلت کے حل ہونا چاہئیں۔

مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ اب پاکستان کشمیر کی آزادی کے لیے عالمی عدالت انصاف کا دروازہ کھٹکھٹا سکتا ہے ،البتہ اس سلسلے میں کافی غوروخوض کی ضرورت ہے۔ غوروفکر والی بات اس لیے بھی اہم ہے کیونکہ بھارت نے بڑی طاقتوں کی آشیر باد کے ساتھ ہی اس کیس کو عالمی عدالت لے جانے کی ہمت کی ہوگی اور ان کی وجہ سے ہی اسے وہاں اس کی مرضی کے مطابق ریلیف ملا ہے دراصل وہ چاہتا تھا کہ یہ کیس کسی طرح طویل ہوجائے تاکہ کلبھوشن کی پھانسی التوا کا شکار ہوجائے۔چنانچہ اقوام متحدہ کی طرح اس عدالت پر بھی بڑی طاقتوں کی اجارہ داری اور یہاں کے یہودی ججوں کی موجودگی میں مسئلہ کشمیر کو اس عدالت میں لے جانا خطرے سے خالی نہیں ہوگا۔

ابھی تو بھارت پر یہ الزام ہے کہ وہ سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل نہ کرکے اقوام کا باغی ہے مگر مسئلہ کشمیر زندہ ہے البتہ اس مسئلے کو عالمی عدالت میں لے جانے کی صورت میں مغربی ممالک کے اشارے پر اگر بھارت کے ریاست جموں کشمیر سے الحاق کی جھوٹی دلیل کو درست تسلیم کرلیا گیا تو پھر نہ صرف مسئلہ کشمیر ہمیشہ کے لیے ختم ہوسکتا ہے بلکہ ہم نئی مصیبت میں گھر سکتے ہیں کہ کشمیری اپنے حق خود ارادیت کے چھننے کا ہمیں ہی ذمے دار قرار دے کر ہمیشہ کے لیے ہم سے رشتہ توڑ سکتے ہیں۔

دراصل بھارت مسئلہ کشمیر کو ہمیشہ ہی التوا میں رکھنا چاہتا ہے اور اس سلسلے میں اسے مغربی ممالک کا مکمل تعاون حاصل ہے۔ وہ تو اس سلامتی کونسل کی قراردادوں کے منحرف کو سلامتی کونسل کا مستقل رکن تک بنانے کے لیے تیار ہیں۔ بھارت کشمیر کو انسانی مسئلہ سمجھنے کے بجائے پاکستان کے لیے دریاؤں کا مسئلہ سمجھتا ہے اور اسی لیے وہ اسے حل کرنے سے گریزاں ہے۔

بھارت نے پاکستان کو مسئلہ کشمیر سے دست بردارکرانے کے لیے پاکستان پر کون سا ظلم نہیں ڈھایا ہے حتیٰ کہ اس نے پاکستان پر تین بڑی جنگیں تک مسلط کرنے میں پس وپیش نہیں کیا مگر پاکستانی نہ کبھی ہار ماننے والی اور نہ کسی کے آگے جھکنے والی قوم ہے۔ مشرقی پاکستان کا سانحہ محض کشمیرکی وجہ سے ہی رونما ہوا تھا۔

دراصل اس سانحے کے ذریعے بھارت پاکستان کو بڑا سبق سکھا کر مسئلہ کشمیر سے دور کرنا چاہتا تھا مگر پاکستان آج بھی مسئلہ کشمیر پر اٹل ہے اور کشمیریوں کی آج بھی سیاسی، سفارتی اور اخلاقی مدد کرنے کا بہ بانگ دہل اعلان کرتا ہے۔ جب مشرقی پاکستان کے سانحے کے بعد بھی پاکستان کشمیریوں کی آزادی کے موقف سے نہ ہٹا تو اس نے پاکستان میں اپنے جاسوسوں کے ذریعے تخریب کاری کا سلسلہ شروع کردیا۔ پاکستانی خفیہ ایجنسیوں نے کمال ہوشیاری سے اس کے متعدد جاسوسوں کو پکڑا ہے۔ جب ایسے بھی کام نہ بنا تو طالبان کے کچھ دھڑوں کو لالچ دے کر پاکستان میں تخریب کاری کا سلسلہ شروع کرایا گیا۔

بلوچستان کے بعض مفاد پرست سرداروں سے گٹھ جوڑ کرکے ان کی مدد سے علیحدگی پسند گروپس تشکیل دیے گئے انھیں اسلحہ فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ افغانستان میں ان کی تربیت کا بندوبست کیا گیا۔ کلبھوشن اس پورے تخریبی نیٹ ورک کا نگراں تھا ہوسکتا ہے اس سے پہلے بھی کوئی دوسرا بھارتی جاسوس یہ ذمے داری سنبھالتا رہا ہو۔ تاہم کلبھوشن نے جو کام کر دکھایا وہ کوئی دوسرا بھارتی جاسوس نہ کرسکا اور اسی لیے بھارتی حکومت اسے ہر قیمت پر پاکستانی قید سے رہا کرانا چاہتی ہے۔ جہاں تک جندال کی پاکستان آمد کا معاملہ ہے وہ ابھی تک متنازعہ بنا ہوا ہے۔

اپوزیشن پارٹیاں جندال کی میاں نواز شریف سے ملاقات کو کلبھوشن کی رہائی سے جوڑ رہی ہیں۔ عمران خان کا اصرار ہے کہ عالمی عدالت میں حکومت نے جان بوجھ کر کلبھوشن کا کیس خراب کیا ہے بعض مبصرین بھی عمران خان کے موقف کو درست قرار دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کلبھوشن کو پھانسی دے کر حکومت یورپی یونین کی تنقید کا نشانہ نہیں بننا چاہتی کیونکہ وہ صرف پاکستان میں پھانسیوں کے خلاف ہے۔ پھر سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس کی ناراضگی سے ملکی معیشت بھی متاثر ہوسکتی ہے چنانچہ لگتا ہے حکومت عالمی عدالت کے فیصلے سے مطمئن ہے مگر اب اہم سوال یہ ہے کہ سابقہ حکومتیں بھی بھارتی جاسوسوں کو رعایتیں دیتی رہی ہیں اب اگر یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہتا ہے تو پھر ملک کو دشمن کی دست برد سے کیسے بچایا جاسکے گا؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔