18-2017 کا وفاقی بجٹ تاجر و صنعت دوست ہے نہ عوام دوست، ایکسپریس فورم

فورم سے محمد بوستان اورجمال الدین کا بھی اظہارخیال۔ فوٹو: ایکسپریس

فورم سے محمد بوستان اورجمال الدین کا بھی اظہارخیال۔ فوٹو: ایکسپریس

کراچی: پاکستان میں ہرسال وفاقی بجٹ پیش کرنے کے بجائے ایف بی آر کی ایما پربجٹ کی آڑ میں نئے قوانین یا ترمیمی قوانین متعارف کرادیے جاتے ہیں حالانکہ قوانین کی منظوری یا ترامیم کیلیے قومی اسمبلی کا فلورموجود ہے، حکومت کو چاہیے کہ وہ بجٹ کوحقیقی معنوں میں بطوربجٹ پیش کرے جس میں تجارت وصنعت اور عوام کے مفادات کو ملحوظ خاطر رکھا جائے، مالی سال2017-18 کا وفاقی بجٹ نہ تاجروصنعت دوست اور نہ ہی عوام دوست ہے، یہ بات ہفتے کوایکسپریس پوسٹ بجٹ فورم میں تاجروصنعت کارنمائندوں نے کہی۔

فورم سے خطاب کرتے ہوئے کراچی چیمبر آف کامرس کے صدرشمیم فرپو نے کہا کہ نیا بجٹ درحقیقت موجودہ حکومت کاایک الیکشن بجٹ ہے جس میں کسانوں کے نام پران جاگیرداروں کے مفادات کا تحفظ کیا گیا ہے، خدشہ ہے کہ حکومت اپنی ضرورت کیلیے سال 2017 کے اختتام سے قبل مزید منی بجٹس بھی لائے گی، انھوں نے کہا کہ اعلان کردہ وفاقی بجٹ میں نرم الفاظ میں عام آدمی کومزید جکڑاگیا ہے تنخواہوں میں تو10 فیصد اضافے کی بات کی گئی ہے لیکن سیمنٹ پر25 فیصد فیڈرل ایکسائزڈیوٹی عائدکرنے کے الفاظ استعمال کرنے بجائے فی کلوگرام25 پیسے فیڈرل ایکسائزڈیوٹی بڑھانے کا ذکر کیاگیا ہے۔

پاکستان سوپ مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے سینٹرل چیئرمین عامر عبداللہ ذکی نے کہا کہ اعلان کردہ وفاقی بجٹ ایک عام آدمی کا بجٹ قطعاً نہیں ہے جس میں بڑی گاڑیوں کی رجسٹریشن فیس توکم کردی گئی ہے لیکن غریب کی سواری موٹر سائیکل کی رجسٹریشن فیس میں کمی سے گریز کیا گیاہے، بجٹ میں یہ بات توجہ طلب ہے کہ پورے وفاقی بجٹ میں صرف بڑے مارکیٹ پلیئرزکے مفادات کوتحفظ دینے کیلیے پولٹری انڈسٹری پر خصوصی توجہ مرکوزکی گئی ہے جبکہ ملکی برآمدات میں کمی کے باوجود برآمدی صنعتوں کے لیے ترغیبات متعارف نہیں کرائی گئیں اوربرآمدی شعبے کے 300 ارب روپے کے پھنسے ہوئے ریفنڈزجسے حکومت بغیرسود کے استعمال کررہی ہے۔

ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈیولپرز (آباد) کے چیئرمین سدرن زون حسن بخشی نے کہا کہ بجٹ اقدامات سے ملک میں تعمیراتی لاگت10 سے15 فیصد بڑھ جائے گی، بجٹ میںکنسٹرکشن اوررئیل اسٹیٹ سیکٹرکے لیے متعارف کردہ فکسڈ ٹیکس ریجیم کے خاتمے سے تعمیراتی شعبے کی نمورک جائے گی جبکہ ریونیووصولیوں کے حجم میں بھی کمی واقع ہوگی، جنوری2017 سے فکسڈٹیکس ریجیم کے تحت تعمیراتی شعبے سے20 کروڑ روپے کی وصولیاں کی گئیں جوسالانہ8 تا10 ارب روپے تک بڑھ سکتا ہے لیکن ایف بی آرکی ایماپرفکسڈ ٹیکس ختم کرکے کرپشن کے دروازے کو دوبارہ کھولا جارہا ہے، پاکستان دنیا بھر میں350 روپے میںسیمنٹ کی بوری ایکسپورٹ کررہا لیکن ملک میں 550 روپے میں فروخت کی جارہی ہے اور اب سیمنٹ پرایف ای ڈی عائد کرکے سیمنٹ کی قیمتوں میں مزید اضافہ کردیا گیا ہے جبکہ عالمی مارکیٹوں میں55 ہزارروپے ٹن کا سریا85 ہزار روپے میں فروخت کیاجارہا ہے۔

ٹیکس ایڈوائزری فورم کے چیئرمین شرجیل جمال نے کہا کہ بجٹ کی آڑ میں چوردروازے سے نئے قوانین لاگو کردیاجاتا ہے حالانکہ نئے قوانین کی منظوری کے لیے اسمبلی کا فلورموجود ہے، اس ملک میں بجٹ کو بجٹ کے طور پرپیش نہیں کیا جاتا ہے، اچانک نیاقانون متعارف کرنے کی روایت سے تاجربرادری اور ایف بی آرکے ماتحت محکموں کے درمیان تنازعات کھڑے ہوجاتے ہیں جسکے نتیجے میں بندرگاہوں پر اچانک ہزاروں کنٹینرزکی کلیرنس وترسیل رک جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ اسی نوعیت کے تنازعات کے باعث بندرگاہوں پر ایسے 10ہزار کنٹینرزمال نیلامی کے لیے پڑے ہوئے ہیں جنکے درآمدکنندگان یا برآمدکنندگان نے قوانین میں اچانک تبدیلی کے بعد کلیرنس حاصل نہیں کی ہے۔

شرجیل جمال نے کہا کہ ایف بی آر پاکستان کا وہ واحد ادارہ ہے جسے کنٹرول کرنے کے لیے کوئی ریگولیٹری اتھارٹی نہیں ہے، ایف بی آرکے ملٹی پاورز میں کمی لائی جائے اور صوابدیدی اختیارات کو ختم کیا جائے۔

فاریکس ایسوسی ایشن آف پاکستان کے صدرملک محمد بوستان نے کہا کہ وفاقی بجٹ میں ترقیاتی منصوبوں اور انفرااسٹرکچرکی بہتری پرتوجہ دی گئی ہے لیکن ملکی برآمدات میں کمی اور بڑھتے ہوئے تجارتی خسارے پرقابوپانے کے لیے بھی ٹھوس اقدامات بروئے کارلاناچاہیے، زرمبادلہ ملک کی اہم ضرورت ہے اور16 ارب ڈالر کی ورکرزریمٹنسز پاکستان کو استحکام بخش رہی ہے، بیرونی دنیا میں مقیم پاکستانی ورکرز کے لیے وہاں کی حکومتوں نے روزگار کے مواقع محدودکرتے ہوئے اپنے باشندوں کو روزگار کی فراہمی میں ترجیح دیناشروع کردی ہے لہٰذا سمندرپار مقیم پاکستانیوں کے روزگار کے حالات اطمینان بخش نہیں رہے ہیں جن پرحکومت کو توجہ دینے کی ضرورت تھی، قدرتی خوبصورتی میں دنیاکے سرفہرست10 ملکوں میں ہونے کے باوجودپاکستان کے سیاحتی شعبے پرکوئی توجہ نہیں دی گئی، قرضے لیکرتجارتی خسارے پر قابو پانے کے بجائے حکومت نئے ڈیموں کے منصوبوں کا اعلان کرتی جس سے نہ صرف پانی کے مسائل حل ہوتے بلکہ بجلی اورزرعی شعبے کی پیداوار میں نمایاں اضافہ ہوتا۔

پاکستان اپیرل فورم کے چیئرمین جاوید بلوانی نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ اور روایت ہے کہ مرکزی بجٹ کے اعلان کے بعد دوبارہ منی بجٹ کے اعلانات ہوتے ہیں جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بجٹ سازی کرنے والے اہل لوگ نہیں ہیں، بجٹ سازی میں صرف ٹیکس کنسلٹینٹس کی سنی جاتی ہے اور اسٹیک ہولڈرز کوپس پشت ڈال دیا جاتا ہے حالانکہ بجٹ سازی کے موقع پرشعبہ جاتی بنیاد پراسٹیک ہولڈرز کو مشاورت میں شامل کرنا چاہیے، انھوں نے کہا کہ سالانہ بجٹ میں تنخواہیں بڑھانادرحقیقت (آئی واش) ہے حکومت کومحض تنخواہیں بڑھانے کے بجائے مہنگائی نہ بڑھنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے چاہیں،وزیرخزانہ اسحق ڈار خود ریفنڈقوانین کی خلاف ورزی کے مرتکب ہورہے ہیں جن ایکسپورٹرز کوریفنڈپیمنٹ آرڈرزجاری کردیے جاتے ہیں قانوناً انہیں7 یوم کے اندر ریفنڈ کرنا ضروری ہے لیکن اس قانون کے برعکس آرپی اوزجاری ہونے کے کئی کئی مہینوں بعد بھی ایکسپورٹرزریفنڈز سے محروم ہیں۔

صنعتی مشینری وایکیوپمنٹ کے ایک بڑے درآمدکنندہ جمال الدین نے کہا کہ بجٹ میں ہمیشہ پالیسی ساز کرپٹ عناصر وحکام کے مفادات کوتحفظ دینے کے لیے قوانین میں خلا چھوڑدیتے ہیں، بجٹ دستاویز کو چونکہ عام آدمی بغورجائزہ لیتا نہیں ہے اس لیے ہرحکومت کاسمیٹک اقدامات ظاہرکرتے ہوئے بجٹ کا اعلان کردیتی ہے اوراعلان کردہ بجٹ کے منفی اثرات تین یا چار ماہ بعد ظاہرہونا شروع ہوتے ہیں۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔