بجٹ 18-2017؛ وعدے ہی وعدے

سید بابر علی  اتوار 28 مئ 2017
تنخواہوں، پنشن اور کم سے کم اُجرت میں صرف 10فی صد اضافہ یا عوام سے سرکاری مذاق۔ فوٹو: فائل

تنخواہوں، پنشن اور کم سے کم اُجرت میں صرف 10فی صد اضافہ یا عوام سے سرکاری مذاق۔ فوٹو: فائل

وفاقی وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے جمعہ  26مئی کو مالی سال2017-18 کے لیے53 کھرب 10 ارب روپے کا بجٹ پیش کردیا۔ ہمیشہ کی طرح اس سال بھی ہندسوں کی مدد سے خوب صورت پیکنگ میں ایک ایسا بجٹ پیش کیا گیا جو عوام کے لیے منہگائی ہی کا تحفہ لائے گا، جس کے اثرات کچھ دنوں میں ظاہر ہونا شروع ہوجائیں گے۔

ہر سال کی طرح اس سال بھی بجٹ میں تعلیم اور صحت سے کہیں زیادہ رقم دفاع کے لیے مختص کی گئی ہے۔ دفاع کے لیے مختص بجٹ 841 ارب روپے کو بڑھاکر 920ارب روپے کردیا گیا ہے۔ جب کہ تعلیم کے لیے 95ارب نوے کروڑ اور صحت کے شعبے کے لیے صرف 59ارب روپے کی ’خطیر‘ رقم مختص کی گئی ہے۔

وفاقی وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں مالی سال 2017-18کا بجٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے آئندہ مالی سال کے دوران ترقی کی شرح ہدف 6 فی صد رکھی ہے اور اسے 18-2017 تک بڑھا کر 7 فی صد تک لے جایا جائے گا۔ آئندہ مالی سال کے لیے ٹیکس وصولی کا ہدف 4333ارب 50کروڑ اور بجٹ خسارہ 4 اعشاریہ ایک فی صد رکھنے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ جسے پورا کرنے کے لیے مزید قرضے لیے جائیں گے۔

مالی سال2017-18 میں قومی مالیاتی فنڈ کے تحت قابل تقسیم محاصل کے حساب سے سب سے زیادہ حصہ پنجاب کو ملے گا جو کہ 11کھرب 61ارب 82کروڑ40لاکھ ہے، خیبر پختون خواہ کو تین کھرب 89ارب 85کروڑ چالیس لاکھ روپے ملیں گے، سندھ کو چھے کھرب، بارہ ارب 59کروڑ روپے اور بلوچستان کو دو کھرب 19ارب 97 کروڑ نوے لاکھ روپے ملیں گے۔ آئندہ مالی سال کے لیے ترقیاتی منصوبوں کے لیے ایک ہزار ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔

بجٹ میں وزیراعظم کی خصوصی اسکیموں کے لیے 20 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ ان منصوبوں میں سود سے پاک قرضے، کاروباری قرضے، نوجوانوں کو ہنر مند بنانے کی اسکیمیں اور لیپ ٹاپ اسکیم شامل ہے۔ اعداد و شمار کے اس گورکھ دھندے کے عوام اور کاروباری طبقے پر کیا اثرات مرتب ہوں گے، بجٹ کے اہم نکات کے ساتھ ان کی مختصر تفصیل قارئین کی آگاہی کے لیے پیش کی جارہی ہے۔

٭ ’’سخاوت‘‘ کی انتہا، تنخواہ، پینشن اور کم سے کم اُجرت میں دس فی صد اضافہ

وزیرخزانہ نے بجٹ تقریر میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں ایڈہاک الاؤنس ضم کرکے تنخواہوں میں دس فی صد ’خطیر‘ اضافہ کرنے کی نوید سنائی۔ انھوں نے عام سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں آٹے میں نمک کے برابر اضافہ کیا۔ بجٹ2017-18 میں چار لاکھ روپے سالانہ تک تنخواہ حاصل کرنے والے افراد پر لاگو ٹیکس کی شرح کو برقرار رکھا گیا ہے، جب کہ بینکوں کی ٹرانزیکشنز پر نان فائلرز کے لیے ٹیکس کی شرح کو 0.4فی صد ہی پر رکھا گیا ہے۔ بجٹ میں کم اُجرت پانے والے افراد کی ماہانہ اُجرت 15ہزار روپے کردی گئی ہے۔ منہگائی کے تناسب کو دیکھتے ہوئے ایک ہزار روپے کا اضافہ اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے۔ معمولی سا اضافہ تنخواہ دار ملازمین کی جب کہ غیرسرکاری ملازمین کے طرز زندگی میں اس بجٹ کے مثبت تو نہیں لیکن منفی اثرات ضرور مرتب ہوں گے۔

٭بجلی کا بحران۔۔۔۔۔ ایک وعدہ اور سہی

بجٹ میں توانائی کے شعبے کو خاص ترجیح دیتے ہوئے حکومت نے 401 روپے مختص کیے ہیں۔ اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ حکومت کی پانچ سالہ مدت ختم ہونے تک دس ہزار میگا واٹ بجلی نیشنل گرڈ اسٹیشن میں آجائے گی اور 2017 لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کا سال ہوگا۔ داسو پراجیکٹ کے لیے 54ارب، مایع نائٹروجن گیس کے منصوبوں کے لیے 70ارب روپے، دیامر بھاشا ڈیم کے لیے 21ارب روپے، تربیلافور منصوبے کے لیے 16ارب چالیس کروڑ اور نیلم جہلم پراجیکٹ کے لیے 19ارب روپے رکھے گئے ہیں، جب کہ جام شورو پلانٹ پر 16ارب بیس کروڑ روپے خرچ کیے جائیں گے۔ ہر سال کی طرح اس سال بھی اتفاقِ رائے نہ ہونے کی وجہ سے کالا باغ ڈیم کے لیے کوئی رقم مختص نہیں کی جاسکی۔ تاہم عوام کو لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کے لیے کیے گئے گذشہ وعدوں کی طرح اس وعدے کے وفا ہونے کی بھی کچھ زیادہ امید نہیں ہے۔

٭ بلڈرز ڈیولپرز پر فکس ٹیکس ختم، سیمنٹ اور سریے پر ٹیکس میں اضافہ

بجٹ 2017-18میں سیمنٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کو ایک روپے فی کلو سے بڑھا کر سوا روپے فی کلو کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے اور اسی طرح اسٹیل سیکٹر جو ابھی بجلی کے استعمال کی بنیاد پر9روپے فی یونٹ سیلز ٹیکس ادا کر رہا ہے، آئندہ مالی سال کے لیے اسے بڑھا کر ساڑھے دس روپے فی یونٹ کرنے کی تجویز پیش کی گئی۔ یہ اضافہ شپ بریکنگ اور اس سے محلقہ صنعتوں پر بھی لاگو ہوگا۔ ٹیکس میں ہونے والے اس اضافے کا بالواسطہ اثر عام آدمی پر ہی مرتب ہوگا، کیوں کہ یہ دونوں اشیا تعمیراتی صنعت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں اور ان پر ڈیوٹی اور ٹیکس میں اضافے سے رہائشی منصوبوں کی لاگت میں بھی اضافہ ہوگا۔ جب بلڈر اور ڈیولپرز پر لاگو فکس ٹیکس کو ختم کرکے اس طبقے کو مزید ریلیف دیا گیا ہے۔

٭موبائل سستا اور ملٹی میڈیا پراجیکٹرز پر ٹیکس چھوٹ

نئے مالی سال کے لیے سیلز ٹیکس کی شرح میں موجود درجہ بندی کو ختم کرکے فکس ٹیکس 650روپے فی سیٹ کردیا گیا ہے۔ جس کے نتیجے میں سستا موبائل لینے والے صارف کو بھی اتنا ہی ٹیکس دینا پڑے گا جتنا کہ ایک قیمتی موبائل لینے والے کو ، اس سے قبل کم قیمت کے موبائل سیٹ پر 300روپے، درمیانی قیمت کے موبائل فون پر 1ہزار روپے اور منہگے موبائل سیٹ کی قیمت پر 15سو روپے فی سیٹ سیلز ٹیکس وصول کیا جاتا تھا۔ تاہم موبائل سیٹ کی درجہ بندیوں میں ہونے والے مسائل اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے فروغ کے لیے اب 650روپے فی سیٹ کے حساب سے سیلز ٹیکس وصول کیا جائے گا۔ لیکن ٹیکس میں کمی کا فائدہ عوام کو پہنچتا کم نظر آرہا ہے۔ دوسری طرف تعلیمی اداروں کی جانب سے ملٹی میڈیا پراجیکٹرز کی درآمد پر سیلز ٹیکس کی چھوٹ دی گئی ہے اصولاً تو اس کا فائدہ غریب طالب علموں کو فیس میں کمی کی صورت میں پہنچانا چاہیے لیکن سیلز ٹیکس کی چھوٹ میں یہ کمی ہمیشہ کی طرح اس بار بھی لاکھوں روپے فیس لینے والے نجی تعلیمی اداروں کے بینک بیلنس میں اضافے کا سبب بنے گی۔

٭ پولٹری مشینری اور زرعی ڈیزل انجن پر ٹیکس میں رعایت، عوام دانے دانے کے محتاج

بجٹ2017-18 میں ملک بھر میں پولٹری کی صنعت میں سرمایہ کاری بڑھانے کے لیے پولٹری مشینری کی درآمد پر عائد سیلز ٹیکس کو دس فی صد کمی کے بعد سات فی صد کردیا گیا۔ اسی طرح زراعت میں استعمال ہونے والے تین سے 36ہارس پاور کے ڈیزل انجنوں پر ٹیکس میں چھوٹ دی گئی ہے۔ لیکن اس کا تمام تر فائدہ سرمایہ داروں کو ہی پہنچے گا ٹیکس چھوٹ اور ٹیکس میں رعایت کا فائدہ زرعی اجناس اور مرغی کے گوشت کی قیمتوں میں کمی کی صورت عوام کو دیا جانا چاہیے، لیکن عوام آئندہ مالی سال میں بھی دانے دانے کی محتاج رہے گی اور ان شعبہ جات سے وابستہ سرمایہ کار اپنے جیبیں بھرتے رہیں گے۔

٭ عوام غربت سے بدحال، حکومت غیرملکی تحائف اور عطیات سے مالامال

آئندہ مالی سال کے بجٹ میں ’غریب‘ حکومت نے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ایک اور عظیم الشان کارنامہ سرانجام دیا ہے، جس کی رو سے دوسری حکومتوں اور اداروں کی جانب سے وفاقی، صوبائی حکومتوں اور پبلک سیکٹر آرگنائزیشنز کو تحائف یا عطیات کی شکل میں ملنے والے رقوم پر سیلزٹیکس لاگو نہیں ہوگا، کیوں کہ ان ’معمولی‘ عطیات اور تحائف کو ہمارے ’غریب ‘ حکم راں اپنی گزربسر کے لیے استعمال کریں گے۔ ویسے بھی یہ سیلز ٹیکس، انکم ٹیکس دینے کی ذمے دار ہماری ’امیر‘ عوام ہے ’غریب ‘ حکم راں نہیں۔

٭ہائی برڈ برقی کاریں سستی، ادویات، منرل واٹر، دودھ دہی اور مشروبات منہگے

حکومت نے عوام الناس کے ’’وسیع تر مفاد میں‘‘ فیصلہ کیا ہے کہ آئندہ مالی سال میں عوام کے طرز زندگی میں بہتری لانے کے لیے منہگی ہائی برڈ برقی کاروں کی درآمد پر سیلز ٹیکس میں25 سے50  فی صد تک کی چھوٹ دی جائے۔ لہٰذا یکم جون 2017 سے درآمد ہونے والی اٹھارہ سو سی سی تک کی ہائی برڈ کار پر 25 اور اس سے اوپر کی گاڑی کی درآمد کرنے والے ’غریب ‘ افراد کو سیلز ٹیکس میں 50فی صد تک کی چھوٹ دی جائے گی، جب کہ عوام الناس کی روزمرہ کی اشیائے ضروریہ منرل واٹر، پیک دودھ دہی، پنیر، فلیورڈ ملک، مشروبات، دیسی گھی اور ادویات پر ٹیکس اور ایکسائز ڈیوٹی لگا کر مزید منہگا کردیا گیا ہے۔

٭ جعلی ادویات کے بجائے جعلی سگریٹ بیچنے والوں کے خلاف قانون سازی

بجٹ 2017-18میں بہت سے باتیں حیرت انگیز ہیں مگر ان میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں نان ڈیوٹی پیڈ اور جعلی سگریٹ بنانے، بیچنے، ذخیرہ کرنے، تقسیم کرنے اور ان کی نقل و حمل میں ملوث افراد پر فرد جرم عائد کرنے اور سزا دینے کی تجاویز پیش کی گئی ہیں لیکن جعلی ادویات بنانے و فروخت کرنے والے افراد کے خلاف سزا دینا تو دور کی بات ایک لفظ تک نہیں کہا گیا ہے۔ غالباً حکومت کے نزدیک جعلی ادویات سے زیادہ ہلاکت خیز جعلی سگریٹ ہے۔

٭موبائل فون صارفین کے خوش آئند بجٹ

ٹیکنالوجی کے اس دور میں سیلولر فونز اور موبائل فون سروس فراہم کرنے والی صنعت پاکستان کو ٹیکس اور دیگر مد میں خطیر رقم ادا کر رہی ہے۔ پاکستانی معیشت میں اہم کردار ادا کرنے والی ٹیلی کام انڈسٹری گذشتہ کئی سال سے ٹیکسز کے نشانے پر ہے۔ دنیا بھر میں رابطے کے لیے اہم موبائل فونز بلاامتیاز ہر خاص و عام کی ضرورت بن چکے ہیں۔ تاہم مالی سال 2017-18 میں حکومت نے ٹیلی کام سیکٹر اور صارفین کے لیے ٹیکس کی شرح میں خاطرخواہ کمی کی ہے۔ موبائل فون کالز پر ودہولڈنگ ٹیکس کی شرح کم کرکے ساڑھے بارہ فی صد اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کو ساڑھے اٹھارہ فی صد سے کم کرکے 17فی صد کردیا ہے۔ اسی تناسب سے موبائل فونز سے کی جانے والی کالز پر سیلز ٹیکس کی شرح بھی کم کی جائے گی۔ اب موبائل فون صارفین کارڈ ریچارج اور فون کالز پر ٹیکس میں رعایت سے مستفید ہوسکیں گے۔

٭تھری جی فور جی صارفین کے لیے خوش خبری

پاکستان میں تھری جی، فور جی ٹیکنالوجی کے آنے سے پاکستان کی ٹیلی کام انڈسٹری میں جہاں روزگار کے مواقع پیدا ہوئے وہیں خطیر زرمبادلہ بھی ملا۔ بجٹ2017-18 میں ترقیاتی پروگرام کے تحت حکومت نے جی ایس ایم، تھری اور فورجی ٹیکنالوجی کو مزید فروغ دینے کے لیے مجموعی طور پر دو ارب 99کروڑ پچاس لاکھ روپے مختص کیے ہیں۔ جس کا اہم مقصد پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے میں مواصلاتی رابطوں کو مزید بہتر بنانا ہے۔ تاہم اس کے براہ راست اثرات عوام پر بھی مرتب ہوں گے، جو کہ ایک خوش آئند بات ہے۔

٭ بچوں کا دودھ مہنگا، ڈائپر سستا

آئندہ مالی سال میں حکومت نے بچوں کے خشک دودھ پر ڈیوٹی کی شرح میں اضافہ کردیا ہے، جب کہ بے بی ڈائپرز پر کسٹم ڈیوٹی 16فی صد سے کم کر کے 11فی صد کردی ہے۔ ڈائپرز کی قیمت کم ہونے سے ان خاندانوں کو ریلیف ملے گا جہاں شیرخوار بچے ہیں، تاہم خشک دودھ کی شرح کا بڑھنا اس ریلیف کا اثر زائل کرتا نظر آتا ہے۔

٭خواتین کے لیے بُری خبر

بجٹ 2017-18کو کسی صورت خواتین کے لیے خوش آئند قرار نہیں دیا جاسکتا، کیوں کہ حکومت نے کاسمیٹکس اور آرائش حسن کی دیگر مصنوعات پر ٹیکس کی مد میں 5 فی صد اضافہ کردیا ہے۔ بننا سنورنا خواتین کا فطری حق ہے۔ تاہم نئے بجٹ کے بعد اب انہیں اپنے حسن کے نکھار کے لیے گھریلو بجٹ میں بھی اضافہ کرنا پڑے گا۔ حکومت سے اس فیصلے سے مشکلات کا شکار پاکستان کی کاسمیٹک انڈسٹری مزید مشکلات میں گھِر جائے گی۔ پاکستان میں بننے والی بیوٹی پراڈکٹس پر لاگو سیلز ٹیکس لیوی اور ڈیوٹی کی وجہ سے خواتین بھارت، چین اور دنیا کے دیگر ممالک سے اسمگل ہوکر آنے والے کم قیمت مصنوعات زیادہ خریدتی ہیں۔ حالیہ ٹیکس سے پاکستان کی کاسمیٹک انڈسٹری مزید مشکلات کا شکار ہوجائے گی۔

٭ اہلیان کراچی کے لیے خوش خبری

وفاقی حکومت نے گزشتہ بجٹ میں بجٹ میں ٹرانسپورٹ مافیا کے ہاتھوں یرغمال بنے کراچی باسیوں کے لیے گرین بس ٹرانزٹ سسٹم کے نام سے بس سروس شروع کرنے کا اعلان کیا تھا ، جس کے لیے 16ارب روپے مختص کیے گئے تھے۔ آئندہ مالی سال کے لیے حکومت نے کراچی کو پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے لیے گریٹر کراچی واٹر سپلائی منصوبے کا اعلان کیا ہے، جس پر مجموعی طور پر بارہ ارب 75کروڑ روپے کے اخراجات کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔

٭بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے بجٹ میں اضافہ

بجٹ 2017-18میں بے نظیر انکم سپورٹ فنڈ کی رقم بڑھا کر 121ارب روپے کردی گئی ہے۔ اس اسکیم سے پہلے 50لاکھ لوگ مستفید ہورہے تھے، اب 55لاکھ افراد اس منصوبے سے فائدہ اٹھائیں گے۔ لیکن یہ 55لاکھ افراد کون ہے اس کے بارے میں صحیح اعدادوشمار ابھی تک عوام کے سامنے پیش نہیں کیے جاسکے ہیں۔

٭سیاسی جماعتوں کی آمدنی ٹیکس سے مستثنٰی

حکومت نے سالانہ چار لاکھ روپے سے زاید آمدن رکھنے والے غریب افراد پر تو ٹیکس عائد کررکھا ہے، لیکن روزانہ چار لاکھ روپے کمانے والی سیاسی جماعتیں ٹیکس کی ادائیگی سے بر ی الذمہ ہیں۔ مالی سال 2017-18میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002  کے تحت رجسٹرڈ جماعتوں کی آمدنی کو ٹیکس سے مستثنٰی قرار دینے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ یہ ہے ہماری عوام دوست حکومت کا عوام دوست بجٹ۔

٭نان پرافٹ/خیراتی ادارے

دنیا کے بیشتر ممالک میں فلاحی، خیراتی اداروں اور نان پرافٹ آرگنائزیشنز کی آمدنی کو ٹیکس سے چھوٹ حاصل ہوتی ہے۔ پاکستان میں بھی ایسا ہی ہے لیکن آئندہ مالی سال 2017-18میں محض تین اداروں گلاب دیوی چیسٹ اسپتال لاہور، پاکستان پاورٹی ایلیویشن فنڈ اور نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس کی آمدنی کو ٹیکس سے مستثنٰی قراردیا ہے۔ حالاںکہ پاکستان میں بہت سے ادارے درج بالا اداروں سے زیادہ بہتر اور اچھے طریقے سے بلا تعصب لوگوں کی خدمت کر رہے ہیں۔

بجٹ میں سبسڈی کے لیے کسانوں کا ڈی چوک پر احتجاج

اسلام آباد میں بجٹ میں کسانوں کو سبسڈی دینے کے لیے پاکستان کسان اتحاد کی جانب سے ریلی نکالی گئی، جس پر پولیس نے آنسو گیس کے شیل فائر کیے گئے، جس کے بعد ڈی چوک میدان جنگ میں تبدیل ہوگیا۔ ریلی میں شریک کسانوں کا مطالبہ تھا کہ مالی سال 2017-18میں کسانوں کو بجلی کے بلوں اور کھاد میں سبسڈی دی جائے۔

مظاہرین کی جانب سے ریڈ زون عبور کرنے کی کوشش پر پولیس نے انہیں منتشر کرنے کے واٹر کینن اور آنسو گیس کی شیلنگ شروع کردی، جس کے جواب میں مظاہرین میں پولیس پر پتھراؤ شروع کردیا۔ وفاقی دارلحکومت کے حساس علاقے میں ہونے والے اس احتجاج میں شرکت کے لیے قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ بھی شریک ہوگئے۔ انہوں نے ریلی سے خطاب میں کہا کہ ملک کے 70 فی صد لوگوں کا انحصار زراعت پر ہے اور ملکی معیشت کو بہتر بنانے میں کسانوں کا کردار نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی نے ہمیشہ کسانوں کی مدد کی ہے۔

پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کسانوں پر تشدد کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ کسانوں کو انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور نہ کیا جائے۔ انہوں نے اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کو ٹیلی فون پر ہدایت جاری کی کہ وہ کسانوں پر تشدد کے واقعے پر اسمبلی میں احتجاج کریں۔ اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ کسانوں کے مطالبات ناجائز نہیں ہیں بل کہ یہ ان کا حق ہے۔

پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے پولیس کی جانب سے کسانوں پر تشدد کے خلاف اپوزیشن جماعتوں نے قومی اسمبلی میں بجٹ اجلاس کا بائیکاٹ کردیا۔ اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت اور آمریت میں کوئی فرق نہیں، اپنا حق مانگنے والے مظاہرین پر ظلم و جبر کرکے انہیں ان کے حق سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔ بجٹ اجلاس کے موقع پر ہمارا کسی قسم کے احتجاج کا ارادہ نہیں تھا، لیکن حکومت کی جانب سے کسانوں پر تشدد نے انہیں احتجاج پر مجبور کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ کسان آپ سے صرف اپنا حق مانگ رہے ہیں، انہیں رعایت دینے سے ملک خوش حال ہوگا۔ وہ اپنی ذات کے لیے یا اپوزیشن کے لیے کچھ مطالبہ نہیں کر رہے۔ اپنا حق مانگنے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ ان پر آنسو گیس پھینکیں، ان کو ڈنڈے ماریں، یہی کسان ہمارے معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ کسانوں کا احتجاج ہمارے دور اقتدار میں بھی ہوتا رہا ہے لیکن ہم ان پر گولیاں چلانے، تشدد کرنے یا آنسو گیس کی شیلنگ کے بجائے مفاہمت سے ان کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔