پانامہ کیس، سچ کی تلاش

جبار جعفر  پير 29 مئ 2017

کرپشن کے کیسز میں سچ صرف ایک ہوتا ہے جو ناقابل بیان ہوتا ہے لیکن محتاج بیان نہیں ہوتا دنیا پر آشکارہ ہوتا ہے۔ لیکن ثابت نہیں کرسکتے کیونکہ واردات پاکستان میں پے منٹ پانامہ میں اور ثبوت لندن میں ہوتے ہیں۔ علاوہ ازیں اگر رشوت لے کر پھنس بھی جاتا ہے تو رشوت دے کے چھوٹ جانے کا ہنر بھی جانتا ہے۔ رفتہ رفتہ ہاتھ اتنا صاف ہو جاتا ہے کہ باقی کچھ نہیں بچتا۔ سوائے جھوٹ کے۔ دل کھول کر بولتا ہے سب کا سب جھوٹ بولتا ہے جھوٹ کے علاوہ کچھ نہیں بولتا۔

قانون فطرت یہ ہے کہ جھوٹے کا حافظہ نہیں ہوتا ، بھلا بتائیے اگر کسی کی کلائی پر ہیرے جواہرات سے مزین گھڑی بندھی ہو تو کیا وہ گھڑی آستین کے اندر ٹک کر رہ سکتی ہے؟ اگر نہیں رہ سکتی تو پھر وہ شخص جامے میں کیسے رہ سکتا ہے؟

پانامہ لیکس پر فیصلہ 20 سال تک اس لیے نہیں یاد رکھا جائے گا کہ دونوں فریق مٹھائیاں کھا رہے ہیں بلکہ اس لیے کہ دوران سماعت حکمرانوں کے بیانات سن کر اور شرافت کے ثبوت دیکھ کر خاص طور پر قطری شہزادے کا خط پڑھ کر’’گاڈ فادر‘‘ یاد آگیا۔ جو ایک مافیا فیملی کے حالات زندگی پر مشتمل ایک مشہور زمانہ ناول ہے۔ ماریو پوژو کے اس ناول کی ابتدا ایک بالترتیب سے شروع ہوتی ہے جس کے درمیان بالزیک کا صرف ایک جملہ درج ہوتا ہے۔

“Behind every fortune, there is a crime” (دولت کے ہر انبار کے پیچھے ایک جرم چھپا ہوا ہوتا ہے) اس کے بعد لازمی ہر فرد کے ذہن میں یہ سوال گردش کرنے لگتا ہے کہ لندن میں موجود چار دولت کے انبار (فلیٹس) کو خریدنے کے لیے رقم کہاں سے آئی؟ کس راستے سے آئی؟ جائز تھی یا ناجائز۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک بڑی مچھلی چار فلیٹوں کی ملکیت تسلیم کرکے گویا کانٹا نگل گئی تھی۔ کیس کا پانسہ پلٹ گیا اور بار ثبوت عمران خان کی طرف سے نواز شریف کی طرف منتقل ہوگیا۔

یاد رہے ماضی میں بھی ایک سیاستدان پر سرے محل کی ملکیت کا الزام لگا تھا، لیکن وہ پارٹی گھاگ تھی۔ وہ کہتی تھی کہ اگر واقعی ایسا سمجھتے ہیں تو ہماری طرف سے اجازت ہے وہ محل آپ لے لیں۔ بندہ پھر لوٹ کر نہیں آتا۔

پانامہ لیکس کا فیصلہ محفوظ ہونے کے بعد اور ریلیز ہونے سے پہلے لیک ہوجاتا ہے سب کو پتا چل جاتا ہے کہ فیصلہ منقسم ہے متفقہ نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ فیصلہ منقسم کیوں آیا؟ جب کہ بینچ کے پانچوں ججوں میں سے کسی ایک جج نے بھی وزیراعظم کی حمایت میں کوئی ایک کلمہ خیر بھی نہیں کہا۔ اس سے بھی اہم سوال یہ ہے کہ جب دو جج نے ان کو نااہل قرار دے دیا (کیونکہ وہ صادق نہیں رہے تھے) پھر ان کو اپنے عہدے سے فارغ کیوں نہیں کیا گیا۔ اہم ترین سوال یہ بھی ہے کہ (ججوں کے مطابق) کیس کے اس مرحلے میں ایسا نہیں کیا جاسکتا، کیوں؟

حقیقت یہ ہے کہ اب تک مقدمہ عدالت میں جرح کے بل بوتے پر چلا اب آگے تفتیش کے نتیجے میں آگے بڑھے گا۔ ایسے مقدمات جن میں تفتیش کی ضرورت پڑتی ہے سپریم کورٹ کے دائرے میں نہیں آتے۔ اس کے لیے ریاست کے ادارے موجود ہیں مثلاً SECP , SBP , FBR , FIA , NAB , ECP وغیرہ وغیرہ۔

اس وقت عدالت میں تین پٹیشن زیر سماعت ہیں۔ عوامی مسلم لیگ کے رہنما شیخ رشید نے اپنی پٹیشن میں عدالت سے درخواست کی ہے کہ آرٹیکل 62-63 کے تحت وزیر اعظم کو نااہل قرار دیا جائے کیونکہ وہ صادق اور امین نہیں رہے۔ تحریک انصاف کے رہنما عمران خان کی پٹیشن میں استدعا کی گئی ہے کہ پانامہ لیکس کی روشنی میں وزیراعظم کرپشن میں ملوث پائے گئے ہیں لندن کے چار فلیٹس ناجائز آمدنی سے خریدے گئے ہیں اس لیے ان کو نااہل قرار دے کر قرار واقعی سزا دی جائے۔ تیسرے امیر جماعت اسلامی سراج الحق ہیں جنھوں نے درخواست کی ہے کہ پچھلے سارے کرپشن کے کیسز کے خلاف بھی سخت کارروائی کی جائے۔

آگے بڑھنے سے پہلے اس بات کا جائزہ لیتے ہیں وزیر اعظم کو نا اہل قرار دینے کے باوجود فارغ کیوں نہیں کیا گیا؟

فرض کریں کہ وزیر اعظم کو فارغ بھی کردیا جاتا تو پھر ملک کا سیناریوکیا ہوتا۔

(ن) لیگ میں صف ماتم بچھ جاتی، درباریوں میں ٹھنڈی سانسوں کا مقابلہ شروع ہوجاتا۔ عمران خان کی لاٹری نکل آتی ساری پارٹیاں پانامہ لیکس چھوڑ کر انتخابات کی تیاریوں میں مصروف ہوجاتیں۔ وزیر اعظم ملک سے باہر نکل جاتے۔ پوری آزادی کے ساتھ تاخیری حربے آزمائے جاتے۔ پانامہ لیکس پر رفتہ رفتہ وقت کی گرد جمنے لگتی۔

اس کے برخلاف موجود سیناریو ملاحظہ کیجیے۔

حاضر سروس وزیر اعظم ہونے کی وجہ سے ملک میں ان کی موجودگی اور جے آئی ٹی میں ان کی پیشی یقینی ہے۔ یہ پانچ مرتبہ (رکن قومی اسمبلی کی حیثیت سے، وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے اور 3 مرتبہ وزیر اعظم کی حیثیت سے) ملک کے آئین سے وفاداری کا حلف اٹھا چکے ہیں۔ فلیٹوں کی خریداری کے لیے حاصل کردہ رقم کا ماخذ معلوم کرنے کے لیے حدیبیہ پیپر مل پھر منی لانڈرنگ کے تعلق سے اسحق ڈار کے اعترافی بیان تک جاسکتے ہیں اس کے بعد پانامہ کی آف شور کمپنیوں کی تعداد، ملکیت اور ان کو قائم کرنے کے لیے فنڈز کا ماخذ۔ اس کے بعد پنڈورا بکس کھل جائے گا۔ وزیراعظم اس عرصے میں پوری کوشش کریں گے کہ زیادہ سے زیادہ عوام سے رابطہ بڑھائیں۔ مریم نواز کی انتخابی مہم چلائیں تاکہ ایک مرتبہ اور وزارت عظمیٰ گھرکی گھر میں رہے۔

عدالت کے تیور بتا رہے ہیں کہ اس مرتبہ معاملہ ادھورا نہیں چھوڑا جائے گا بلکہ منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا۔ کیونکہ جے آئی ٹی میں وہ تمام ادارے (SECP , ECP , SBP , FBR , FIA , NAB) کے نمایندے شامل ہیں، جن کی غفلت، نااہلی، مصلحت پسندی کی وجہ سے ریاست کی بقا داؤ پر لگ گئی تھی ان کے لیے آخری موقعہ ہے کہ خود اہل ثابت کریں۔

جے آئی ٹی کے باہر سپریم کورٹ کا تین رکنی بینچ نگرانی کر رہا ہے اور اندر آئی ایس آئی اور ایم آئی کے نمایندے بیٹھے ہوں گے۔ جن کی موجودگی چمک کو اپنا چمتکار دکھانے سے باز رکھے گی۔ یہ آنکھوں سے نہ صرف دیکھتے ہیں بلکہ سنتے بھی ہیں۔ تمام اداروں کی اوورہالنگ کے بعد ایسی ہی جے آئی ٹی سپریم کورٹ کی نگرانی میں ماضی کے تمام ملتوی شدہ اسٹے آرڈر زدہ ، سیاسی دباؤ کا شکار مقدمات کو دوبارہ کھولا جائے گا جس کی درخواست امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کی ہے تاکہ Status Quo کا منہ کالا اور میرٹ کا بول بالا ہو۔

آخری سوال یہ ہے کہ عوام کیا چاہتے ہیں؟

(1)۔ قانون کی حکمرانی؟

(2)۔ انصاف کا بول بالا؟

(3)۔ نہ یہ نہ وہ بلکہ۔۔۔۔۔۔ پہلے دو مثالیں ملاحظہ کیجیے۔

A: دن دہاڑے بھرے بازار میں ایک آدمی کو گولیاں مار کر قتل کردیا جاتا ہے، قاتل علاقے کا جانا پہچانا بھتہ خور ہے۔ پولیس اس کو گرفتار کرلیتی ہے۔ موقعہ واردات پر واقع دکانداروں سے گواہی دینے کی درخواست کی گئی کوئی بھی راضی نہیں ہوتا ۔مجبوراً دو نمبر کے گواہوں کو استعمال کرتی ہے اور کیس ہار جاتی ہے۔

فیصلہ قانون کے عین مطابق ہوتا ہے ملزم بری ہو جاتا ہے۔ قانون کی حکمرانی برقرار رہتی ہے۔

B: نیویارک کا ایک بزنس مین میامی بیچ پر چھٹیاں منا رہا ہوتا ہے۔ شراب و شباب کے نشے میں ایک شخص کو قتل کردیتا ہے۔ فوراً اپنے ہوٹل پہنچتا ہے کمرے میں بند ہو جاتا ہے اور نیو یارک اپنے قانونی مشیر کو فون کرتا ہے اور سارا حال سنتا ہے۔ قانونی مشیر جواب دیتا ہے ’’فکر کی کوئی بات نہیں میں چند گھنٹوں میں اپنے ہوائی جہاز کے ذریعے چشم دید گواہوں کو لے کر آرہا ہوں۔ کمرے سے باہر مت نکلنا۔‘‘ نتیجتاً انصاف کا بول بالا ہوجاتا ہے۔

ایسا نظام انصاف کس کام کا جس میں قانون طاقتور کی حفاظت کرتا ہے اور سزا کمزور کا مقدر بنتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ملک Status Quo کے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے اور میرٹ اس کے پیروں تلے کچلی ہوئی ہے۔ اس کا واحد حل یہ ہے کہ پہلے Status Quo کی تجہیز وتکفین کرکے میرٹ کے چلن کو عام کیا جائے۔ جب دہشت گردوں کے سہولت کاروں کو بھی برابر کا مجرم گردانا جاتا ہے تو پھر میرٹ کے قاتل سفارش کاروں کو بھی برابر کا مجرم کیوں قرار نہیں دیا جاتا؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔