’مبارک ہو، پپو رمضان آگیا‘

 پير 29 مئ 2017
دالیں، چینی، شربت سب مہنگا کردو۔ کوئی بھی چیز پہلی والی قیمت پر نہیں رہنی چاہیئے، یہی موقع ہے منافع کمانے کا، آخر نیا بنگلہ بنانا ہے، بیٹی کی شادی بھی کرنی ہے۔

دالیں، چینی، شربت سب مہنگا کردو۔ کوئی بھی چیز پہلی والی قیمت پر نہیں رہنی چاہیئے، یہی موقع ہے منافع کمانے کا، آخر نیا بنگلہ بنانا ہے، بیٹی کی شادی بھی کرنی ہے۔

نام کے ساتھ حاجی کا لاحقہ، خوبصورت لمبی داڑھی، ماتھے پر محراب، سر پر خوبصورت دستار سجائے سیٹھ جی اپنے ملازم پپو سے فرما رہے تھے کہ تمام چیزوں کے بھاؤ چڑھا دو۔ بھنڈی تیس (30) روپے، توری بیس (20) روپے، پھل پچاس (50) سے سو (100)، دالیں، چینی، شربت سب مہنگا کردو۔ کوئی بھی چیز پہلی والی قیمت پر نہیں رہنی چاہیئے، یہی موقع ہے منافع کمانے کا، آخر نیا بنگلہ بنانا ہے، بیٹی کی شادی بھی کرنی ہے۔ پپو نے نادانی میں پوچھ لیا کہ صاحب آج اتنے خوش کیوں ہیں؟ سیٹھ نے خوشی سے بھرپور لہجے میں جواب دیا، پپو کم عقل رمضان جو آگیا ہے۔

جی ہاں تاجروں اور اداکاروں کا رمضان آگیا ہے۔ ملک بھر کے بازاروں میں یکساں کیفیت دیکھنے کو ملی۔ تاجروں نے اشیاء صرف کے نرخ ایسے بڑھائے کہ خریداری کیلئے آنے والے ہوش گنوا بیٹھے۔ منافع خوروں نے آلو 34 کے بجائے 45، پیاز 21 کے بجائے 32، ٹماٹر، پالک تیس (30) سے چالیس (40) روپے کلو تک فروخت کرنا شروع کردیے۔ اِسی طرح سیب 166 کی جگہ 250، خوبانی اڑھائی سو (250) روپے کلو تک فروخت ہوتی رہی۔ کیلا 160 روپے درجن، کجھور ایرانی ڈھائی سو (250) روپے کلو تک جاپہنچی۔ لاہور میں لیموں چار سو (400) روپے کلو تک بکتا رہا۔

دنیا بھر میں جب رمضان آتا ہے تو اشیائے خورد و نوش کی قیمتیں گرادی جاتی ہیں۔ غیر مسلم ممالک میں بھی ریلیف دیا جاتا ہے۔ امریکہ، برطانیہ، کینیڈا سمیت یورپ کے تمام ممالک میں اشیاء خورد و نوش سستی کردی جاتی ہیں، لیکن پاکستان وہ ملک ہے جہاں ہر شے دگنی قیمتوں پر فروخت کرکے ناجائز منافع خوری کی جاتی ہے۔

ہمارے ہاں جس کام کو نہ کرنے کا وعدہ یا اعلان کیا جاتا ہے اُس کے بالکل برعکس عمل کیا جاتا ہے۔ وزیراعظم نے ایک دن پہلے ہی کہا تھا کہ رمضان المبارک میں شہروں میں چار اور دیہات میں چھ گھنٹے لوڈ شیڈنگ کی جائے گی جبکہ سحر، افطار اور تراویح کے اوقات میں لوڈشیڈنگ ببالکل نہیں ہوگی، لیکن مجال ہے کہ وزیراعظم کے احکامات پر کسی نے بھی کان دھرے ہوں۔ بات سحری یا افطاری کی ہو یا پھر تراویح کی، بجلی مشکل سے ہی نصیب ہوتی ہے۔ کراچی سمیت پورا سندھ اندھیرے میں ڈوبا رہا ہے۔ پختونخواہ کی بات کریں تو وہاں شہریوں نے بجلی نہ ملنے پر گرڈ اسٹیشن پر ہی قبضہ کرنا شروع کردیا ہے۔ بلوچستان میں تو حالات اِس سے بھی گئے گزرے ہیں، جبکہ پنجاب کے دارالحکومت اور حکمرانوں کے شہر میں بھی ایسا ہی حال دیکھنے کو مل رہا ہے۔

ہمارے حکمراں ناجانے کیوں نہیں سمجھتے کہ دنیا کے بعد آخرت بھی ہے جس پر وہ خود بھی یقین رکھتے ہیں۔ حکمرانوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ وہ پورا سال تو ظلم و زیادتی کے مرتکب ہورہے ہیں، کم از کم ایک رمضان کے مبارک مہینے کو تو بخش دیں، اتنا ہی کمائیں جس کا رب کے حضور جواب دے سکیں۔ جھوٹ بول کر سیاست کی دکان چمکانے سے عارضی چھٹکارا تو مل جائے گا لیکن مستقل چھٹکارا پانا مشکل ہوجائے گا۔

آس پاس کے لوگوں کو یاد رکھیں۔ یہ نہ ہو کہ آپ پیٹ بھر کر سحری کرلیں، افطار کے وقت انواع و اقسام کے کھانے ہڑپ کرجائیں اور پڑوس میں کوئی بھوکا سوجائے، کوئی فاقوں سے مرجائے۔

کسی کے مرنے پر اِس کے ہونٹوں کو گھی سے تازگی بخشنے سے پہلے اِس کی سانسیں بحال رکھنے کا بندوبست کیجئے۔ بڑی دستار، ماتھے پر محراب اچھی لگتی ہے، اِس کی لاج بھی رکھیے، اِس کا فرض بھی نبھائیے۔ جس آخرت کی بہتری کیلئے یہ حلیہ اپنایا ہے، ناجائز منافع خوری کرکے دوسروں کیلئے دنیا کو ہی جہنم نہ بنائیے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ   [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔