اب آنسو پونچھئے

عبدالقادر حسن  منگل 30 مئ 2017
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

معیشت میر اکبھی موضوع نہیں رہا نہ ہی مجھے اس کے بارے میں کچھ خاص علم ہے اور نہ ہی میں کوئی اچھا منتظم ہوں اور اس کو میں نے اپنی زندگی میں ثابت بھی کیا ہے کہ انتظامی امور اورخاص طور پر روپے پیسے کا معاملہ میرے اختیار میں کبھی نہیں رہا یعنی میں اس معاملے میں اس قدراناڑی ہوں کہ کئی مرتبہ اپنے اسی اناڑی پن کی وجہ سے اپنا نقصان کر بیٹھا ہوں۔

قومی بجٹ کئی دفعہ بطور رپورٹر اسمبلی کی گیلر ی میں بیٹھ کر سنا لیکن اس کو رپورٹ متعلقہ رپورٹر نے ہی کیا، ہاں اس پر اپنی مقدور بھر رائے زنی ضرور کی اور وہ اس وقت کی جب بجٹ پیش ہونے کے بعد اس کے مندرجات سامنے آئے اور خبروں سے اس کی تفصیل معلوم ہو ئی۔ اب تو بجٹ کے معاملات سے لاتعلقی ہی اچھی ہے کہ اس میں عوام کی بھلائی کی بات کم ہی ہوتی ہے اور اعداوشمار کے گورکھ دھندے میں عوام کو الجھا کر ان کو سمجھنے کا موقعہ ہی نہیں دیا جاتا ۔ موجودہ حکومت نے اپنا پانچواں بجٹ پیش کیا ہے جس کا اعلان فخریہ طور پر ہمارے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کیا ۔ اس بجٹ کے اعدادو شمار جو میری ناقص سمجھ میں آئے ہیں وہ یہ بتا رہے ہیں کہ اگلے الیکشن کی تیاری ہے اور موجودہ بجٹ کے ذریعے آنے والے الیکشن کے لیے بھی ابھی سے تیاریوں کا آغاز کر دیا گیا ہے اس کو الیکشنی بجٹ کہا جا سکتا ہے۔

اخبارات میں بجٹ کے حوالے سے جن دو خبروں نے مجھے بجٹ پر کالم لکھنے پر مجبور کر دیا ان میں سے ایک خبر کی توایوان صدر کے ترجمان کی جانب سے وضاحت کر دی گئی ہے کہ صدر صاحب کی تنخواہ میںچھ لاکھ روپے ماہانہ کا اضافہ نہیں کیا گیا ہے۔ ترجمان نے وضاحت جاری کر دی ہے کہ درحقیقت یہ اضافہ سالانہ ہے اور اب صدر صاحب کی تنخواہ اسی ہزار روپے سے بڑھا کر ایک لاکھ تیس ہزار ماہانہ کرنے کی تجویز ہے اور یوں یہ تنخواہ سالانہ سولہ لاکھ تک پہنچ جائے گی۔

اس بجٹ میں مزدور کی کم از کم تنخواہ پندرہ ہزار روپے کرنے کی تجویز ہے جس میں مزیداضافے کا عندیہ بھی دیا گیا ہے، اپنے سربراہ مملکت کی تنخواہ گو ان کے منصب کے لحاظ سے ابھی بھی کہیں کم ہے اور آج کل تو تنخواہوں کا تصور ہی ایک لاکھ سے اوپر شروع ہوتا ہے اور ہم جیسے بھی جنہوں نے چند سو روپوں کے عوض نوکری شروع کی تھی اب لاکھوں میں کھیل رہے ہیں لیکن اس میں ہماری جوانی اور عفوان شباب کی قربانی بھی شامل ہے۔ ہم نے سردیوں کی یخ بستہ راتوں میں لاہور کے کتوں سے اپنی سائیکل پر گھر کی جانب جاتے ہوئے اپنے آپ کو بچایااور پھر ایک وقت وہ بھی آیا جب یہ سڑکوں کے آوارہ کتے ہمیں پہچاننے لگے اور انھوں نے ہم سے چھیڑ چھاڑ بند کر دی ، اسی طرح گرمیوں کی تپتی دوپہروں میں رپورٹنگ کر کے اور شام کو دفتر میں پنکھے کی تیز ہوا سے اپنی خبروں کی سلپوں کو بچاتے ہوئے کہ کہیں لکھی لکھائی خبریں اڑ نہ جائیں اور ردی خبروں میں شامل ہو جائیں جنھیں بعد میں ڈھونڈھنا انتہائی مشکل ہو جاتا تھا تو یہ تنخواہیں ہم نے اپنے آپ کو مار کر اور جان توڑ کر محنت سے مقام بنا کرحاصل کی ہیں ۔

اگر آج کل کے سیاسی دور کی بات کی جائے تو میرے خیال میں آج کل کے حکمرانوں کی تنخواہ تو ہونی ہی نہیں چاہیے کہ حکمران لوگ پہلے ہی نہایت آسودگی کی زندگی بسر کر رہے ہوتے ہیں اور ان کی کوئی حیثیت ہی انھیں کسی منصب پر فائز ہونے کے قابل بناتی ہے، ان کو سرکار کی جانب سے کسی قسم کی ادائیگی کی ضرورت تو نہیں ہوتی لیکن چونکہ مالِ مفت دل ِ بے رحم والی بات ہے تو کون کافر ہے جو ان مراعات سے انکار کرے حالانکہ ایک مسلمان حکمران کے بارے میں پہلے بھی آپ کو کئی باربتا چکا ہوں کہ حضرت ابو بکر صدیق  ؓ جب خلیفہ کے منصب پر فائز ہوئے تو وہ کپڑے کا کاروبار کرتے تھے، اس منصب کی وجہ سے ان کو اپنے کاروبار سے دستبردار ہو نا پڑا ،کسی نے ان سے کہا کہ خلیفہ کے لیے مقررہ تنخواہ سے تو ان کا گزارہ نہیں ہو گا تو انھوں نے کیا خوبصورت جواب دیا کہ میری تنخواہ کیونکہ مکہ کے ایک مزدور کی اجرت کے برابر ہے تو میں مزدور کی اجرت میں اضافہ کردوں گا۔

یوں میری تنخواہ بھی بڑھ جائے گی، میرا بھی گزارا ہو جائے گا اور مزدور کابھی۔ ایسے حکمران اب کہاں اب تو جو مل رہا ہے اس پر قناعت نہیں کرتے بلکہ دونوں ہاتھوں سے اس ملک کے وسائل کو استعمال کر کے اپنی ذاتی دولت میں اضافہ کرتے ہیں اور وہ دولت ان کا عمر بھر ساتھ نہیں دے سکتی وہ نہ تو ان کو بیماریوں سے بچا سکتی ہے اور نہ ہی ان کو موت سے آزادی دلا سکتی ہے اور نہ ہی ان کے ساتھ قبر میں جا سکتی ہے بلکہ یہ دولت بعد میں ان کی اولاد کی صورت میں ان کے لیے فتنہ بن کر ان کا قبر میں بھی پیچھا کرتی ہے لیکن یہ پھر بھی اس دنیا میں اسی بے وفا دولت کے پیچھے بھاگتے پھرتے ہیں اور انجانے یا جانتے بوجھتے اپنی عاقبت خراب کرتے ہیں۔

بجٹ کی دوسر ی خبر جس نے مجھے اپنی جانب متوجہ کیا وہ ہے وزیر اعظم ہاؤس کے اخراجات میں اضافہ جو یومیہ بڑھ کر پچیس لاکھ ہو گئے ہیں جب کہ اس کے ساتھ قصر صدارت کے لیے یومیہ ساڑھے بارہ لاکھ مختص کیے گئے ہیں۔ان دو بڑے محلوں کے اربوں روپے کے سالانہ اخراجات کا جواز فراہم کرنا حکمرانوں کے لیے مشکل ہونا چاہیے کیونکہ ہمارے حکمران ماشا اﷲ پہلے سے ہی اتنے امیر و کبیر ہیں کہ ان کو عوام کے پیسے پر پلنے کی ضرورت نہیں اور وہ اس سے انکار کر سکتے ہیں اور یہ اخراجات کم یا اپنی جیب سے بھی ادا کر سکتے ہیں لیکن ایسا کون کر ے گا کیونکہ عوام کے پیسے پر عیاشی کا اپنا ہی مزہ ہے جو ان کو لگ چکا ہے اور وہ اس کو اپنا صوابدیدی حق سمجھتے ہوئے استعمال کرتے ہیں۔

یہ حکمران اس ملک پر حکومت کر رہے ہیں جو قرضوں کے بوجھ تلے ڈوب چکا ہے اور تقریباً ڈیڑھ ہزار ارب سالانہ صرف سود کی مد میں ان قرضوں کی ادائیگی کے لیے اس بجٹ میں رکھے گئے ہیں جب کہ اصل زر اپنی جگہ پر ہی موجود رہے گا۔ یہ وہ ملک ہے جس کے بانی قائد اعظم محمد علی جناح اپنے مہمانوں کی چائے اور تواضح کا خرچہ اپنی جیب سے ادا کرتے تھے لیکن بعد میں آنے والے ان کھوٹے سکوں نے جس بے دردی سے اس نادر روزگار ملک کے وسائل کا استعمال کیا وہ بھی اپنی مثال آپ ہے اور اس کے نمونے ہم ہر طرف دیکھ رہے ہیں اور ان کی تازہ مثال ملک کے ان دو بڑے محلوں کے یومیہ اخراجات ہیں جو اس ملک کے معصوم عوام سے اس ملک کے چالاک اشرافیہ روزانہ کی بنیاد پرنچوڑ رہے ہیں اور نہ جانے کب تک نچوڑتے رہیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔