مسلمانوں کے خلاف اعلان ِجنگ

ع محمود  منگل 30 مئ 2017
نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ گوشت کی خرید وفروخت پہ پابندیوں سے ہزار ہا مسلم خاندانوں میں فاقے ہو رہے ہیں۔ فوٹو : فائل

نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ گوشت کی خرید وفروخت پہ پابندیوں سے ہزار ہا مسلم خاندانوں میں فاقے ہو رہے ہیں۔ فوٹو : فائل

 چارلی چپلن مشہور امریکی اداکار گذرے ہیں۔ ان کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ وہ اپنی فلموں اور تقریروں میں آمرانہ حکومتوں پر زبردست طنز کرتے تھے۔

چارلی چپلن کا ایک منفرد قول ہے:’’ ڈکٹیٹر خود کو تو تمام پابندیوں سے آزاد کر دیتا ہے‘ مگر اپنی رعایا کو غلام بنا لیتا ہے۔‘‘ یہ قول بھارتی وزیراعظم ‘ نریندر مودی پر موزوں بیٹھتا ہے۔ موصوف بھارت میں آباد تمام اقلیتیوں کو ہندو اکثریت کا غلام بنا دینے کے در پے ہیں۔

مودی ’’گڈگورنس‘‘ کا نعرہ لگا کر اقتدار میں آئے۔ انہوں نے حکومت سنبھال کر بعض اچھے کام بھی کیے مگروہ بھارت میں غربت اور بیروزگاری ختم نہ کر سکے۔ مزیدبراں ان کے آتے ہی پورے بھارت میں ہندو قوم پرستوں کو یہ لائسنس مل گیا کہ وہ اپنی رسومات و روایات زبردستی اقلیتوں پر تھوپنا شروع کردیں۔ اس سلسلے میں ’’گاؤ رکھشا‘‘ یا گائے کی حفاظت کی مہم نے نہایت اہمیت حاصل کر لی۔

قدامت پسند ہندو گائے کو مقدس جانور سمجھتے ہیں بلکہ اس کی پوجا کرتے ہیں ۔ مگر گائے کا گوشت کروڑوں بھارتی مسلمانوں‘ دلتوں اور عیسائیوں کا من بھاتا کھاجا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قیام بھارت کے بعد کئی ریاستوں میں گائے کے ذبیح پر پابندی لگا دی گئی مگر قانون سختی سے نافذ نہیں کیا گیا۔ لیکن مودی سرکار آتے ہی نہ صرف مروجہ قوانین پر سختی سے عمل درآمد کرایا جانے لگا بلکہ نئے قانون بھی متعارف کرائے گئے۔

23مئی 2017ء کو مودی حکومت نے یہ نیا قانون جاری کیا کہ اب بھارت بھر کی مویشی منڈیوں میں گائے‘ بھینس اور بیل ذبیح کی خاطر فروخت نہیں کیے جا سکتے۔ یہ اقدام قدامت پسند ہندوؤں کو خوش کرنے کی خاطر کیا گیا۔ مگر یہ قانون گوشت اور مویشیوں کی خرید و فروخت سے منسلک لاکھوں مسلمانوں کے مسائل مزید گھمبیر بنا ڈالے گا۔

بھارت میں گوشت کے کاروبار سے منسلک افراد میں بیشتر مسلمان ہیں۔ یہ کوئی معمولی کاروبار نہیں بلکہ اس کی مالیت ’’آٹھ تا دس ارب ڈالر ‘‘ کے مابین بتائی جاتی ہے۔ اس کاروبار سے لاکھوں مسلمانوں کا روزگار وابستہ ہے۔ مگر مودی سرکار آتے ہی یہ روز گار خطرے میں پڑ چکا۔ نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ گوشت کی خرید وفروخت پہ پابندیوں سے ہزار ہا مسلم خاندانوں میں فاقے ہو رہے ہیں اور وہ بمشکل گذارہ کر رہے ہیں۔ اب نیا قانون مسلمانوں اور دلتوں کی کمر توڑنے کے مترادف ہے۔

مودی حکومت کی تھپکی پر ہندو قدامت پسند بدمست ہجوم کی صورت گائے کے کاروبار سے منسلک مسلمانوں اور دلتوں پر حملے کرنے لگے ہیں۔ خوفزدہ ہو کر بہت سے مسلمان اور دلت بھینس کا گوشت بیچنے لگے۔ یاد رہے‘ بھارت ہر سال چار ارب ڈالر مالیت والا بھینس کا گوشت برآمد کرتا ہے۔ لیکن نئے قانون نے بھینس کے ذبیح پر بھی پابندی لگا دی۔ گویا ظالم مودی سرکار نے مسلمانوں سے یہ ذریعہ روزگار بھی چھین لیا۔

بھارتی ریاست کیرالہ میں گائے اور بھینس کا گوشت وسیع پیمانے پر استعمال ہوتا ہے۔ اسی لیے مودی حکومت کے نئے قانون پر کیرالہ ہی میں سب سب زیادہ تنقید ہوئی۔ وزیراعلیٰ کیرالہ نے ٹویٹ کیا: ’’مودی حکومت فاشسٹ بن چکی ۔وہ اب عوام الناس کو حکم دے رہی ہے کہ کیا کھائیں اور کیا نہ کھائیں۔ یہ عمل ایک جمہوری اور سیکولر ملک میں نامناسب اور آئین کی خلاف ورزی ہے۔‘‘

سچ یہ ہے کہ جموں و کشمیر سے لے کر کیرالہ تک قوم پرست مودی حکومت نے مسلمانوں اور دلتوں کے خلاف بالواسطہ جنگ چھیڑ دی ہے۔ اس جنگ کا مقصد یہ ہے کہ ان دونوں بڑی غیر ہندو طاقتوں کو اکثریت کا غلام بنا لیاجائے۔ مودی کی سوچ یہ ہے کہ ا گر اس جنگ میں اپنا کچھ مالی نقصان ہوتا ہے تو جیت کی خاطر اسے برداشت کر لینا چاہیے۔

واضح رہے کہ بھینس کے ذبیح پر پابندی سے بھارت اربوں ڈالر کے زرمبادلہ سے محروم ہو سکتا ہے۔ نیز بھارت میں چمڑے کا کاروبار بھی اربوں ڈالر مالیت رکھتا ہے۔ گائے‘ بیل اور بھینس کے ذبیح پر پابندی سے وہ بھی متاثر ہو گا کیونکہ اسے ہر سال مطلوبہ کھالیں نہیں مل پائیں گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔