کیا روزے سے مراد صرف بھوکا رہنا ہے؟

سید رفعت سبزواری  بدھ 31 مئ 2017
حُسنِ کمال یہ ہے ایک ماہ میں حاصل کی گئی اِس اخلاقی تربیت کو وہ تمام سال اپنائے رکھے، وگرنہ فقط ایک ماہ کے لئے نیک اور پارسا بنے رہنا اُسے چنداں فائدہ نہ دے گا۔

حُسنِ کمال یہ ہے ایک ماہ میں حاصل کی گئی اِس اخلاقی تربیت کو وہ تمام سال اپنائے رکھے، وگرنہ فقط ایک ماہ کے لئے نیک اور پارسا بنے رہنا اُسے چنداں فائدہ نہ دے گا۔

رمضانِ کریم اسلامی مہینوں میں بیش بہا عزتوں اور رفعتوں کا مہینہ ہے، اِس ماہِ مبارک میں خدا اپنے بندوں پر اپنی رحمتوں کے دروازے کھول دیتا ہے، اِسی ماہِ صیام میں اِس کتاب کا نزول ہوا جو قیامت تک ہدایت کا چراغ ہے۔

اِس ماہ کی مدح میں کیا کچھ بیان کیا جائے کہ الفاظ کم پڑنے لگتے ہیں۔ روزہ بنیادی ارکانِ اسلام میں سے ہے اور ہر مسلمان پر فرض کیا گیا ہے، قرآن مجید میں اللہ نے ارشاد فرمایا ہے؛

”اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کر دیئے گئے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جاﺅ۔“

رمضان لفظ ’رمضا‘ سے نکلا ہے، ’رمضا‘ اُس باد و باراں کو کہتے ہیں جو کہ موسم خریف سے پہلے برستی ہے اور زمین کو تر و تازہ کردیتی ہے جبکہ عربی زبان میں لفظ  ’صوم‘ استعمال ہوا ہے، جس کے معنی رُک جانا ہے، یعنی تقویٰ کے حصول کے لئے طلوع آفتاب سے لے کر غروب آفتاب تک نہ صرف کھانے پینے سے ہاتھ روک لینا بلکہ ہر بُرائی سے دوری اختیار کئے رکھنا ہے۔

میری ناقص رائے میں روزہ جس قدر انفرادی تربیت اور محاسبہ نفس کی طرف مائل کرتا ہے بالکل اُسی طرح سماجی اور اجتماعی حوالے سے بھی اِس کا کردار نہایت اہم ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا روزے سے مراد صرف خود کو بھوکا رکھنا ہے؟

میرے خیال میں روزے سے مراد ہرگز فقط بھوک اور پیاس نہیں ہے بلکہ وہ اخلاقی تربیت ہے جو عین انسانی صفات کی عکاس ہے، جس میں انسان ایک ماہ کے اندر وہ اخلاقی صفات اپنانے کی کوشش کرتا ہے جو اُسے ایک اچھا انسان بنانے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔

حُسنِ کمال یہ ہے ایک ماہ میں حاصل کی گئی اِس اخلاقی تربیت کو وہ تمام سال اپنائے رکھے، وگرنہ فقط ایک ماہ کے لئے نیک اور پارسا بنے رہنا اُسے چنداں فائدہ نہ دے گا۔ اجتماعی حوالے سے بھی رمضان اپنے اندر تمام تر فیوض و برکات سمیٹے ہوئے ہے۔

ماہِ صیام میں جہاں مسجدیں آباد ہوتی ہیں، لوگ ایک دوسرے سے ملتے ہیں وہیں کسی حد تک غریب طبقے تک بھی خوراک اور دیگر ضروریات زندگی پہنچانے کا انتظام بھی کیا جاتا ہے، مگر یہاں بھی ہمیں یہ امر مدِنظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ یہ تمام تر اقدامات تربیتی حوالے سے ہیں تاکہ اُن کو سارا سال انجام دیا جائے، وگرنہ فقط ایک ماہ تک ہی محدود کردینا اِس کے مقصد کو فوت کردیتا ہے۔

یہ تمام تمہید باندھنے کا مقصد فقط اِس کے سوا کچھ نہیں تھا کہ رمضان کی اہمیت و ضرورت کو جانچ لینے کے بعد یہ دیکھا جائے کہ ہم رمضان کو اپنے معاشرے میں کیسے خوش آمدید کہتے ہیں۔

ہمارے ہاں جہاں ایک طبقہ رمضان کی حقیقت و اہمیت سے واقف ہے اور اِس کو اسی انداز میں مناتا بھی ہے وہیں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو رمضان آتے ہی اپنی تمام تر غیر اخلاقی خصلتوں سمیت باہر آجاتا ہے۔ مہنگائی آسمانوں کو چھونے لگتی ہے، ملاوٹ زدہ اشیاء کی ترسیل بڑھا دی جاتی ہے، تمام ضروریاتِ زندگی کی قیمتوں کو پر لگ جاتے ہیں، دفاتر میں حاضری کم لگنا شروع ہوجاتی ہے، لوگ دفتری اوقات سے قبل ہی اپنی ذمہ داریاں چھوڑ کر روزے کی حفاظت کرتے ہوئے گھر سدھار جاتے ہیں، جبکہ سڑکوں چوراہوں پر تلخ کلامی اور لڑائی جھگڑے معمول سے زیادہ نظر آنے لگتے ہیں اور اگر آپ اِن سے پوچھیں گے کہ بھائی صاحب کیوں لڑ رہے ہو تو جواب یہ ہوگا کہ،

’’روزے میں دماغ خراب کردیا‘‘

یہ ایک ایسا عمومی جملہ ہے جو ہمیں اکثر سننے کو ملتا ہے۔ اِن سے کوئی پوچھے کہ جب دماغ خراب ہی کرنا ہے تو آپ کے روزے کا فائدہ نہیں کیونکہ آپ وہ سب حرکتیں کر رہے ہیں، جس سے روزہ آپ کو باز رہنے کا حکم دیتا ہے اور تاکید کرتا ہے۔ پھر اِسی رمضان میں شاہانہ ہوٹلوں میں دعوت افطار کا سلسلہ چل نکلتا ہے اور اُسی ہوٹل کے باہر ایک بھکاری روٹی کے دو ٹکڑے مانگنے کے لئے کھڑا ہوتا ہے۔

غرض یہ کہ رمضان کریم کے مفہوم کو سمجھنے اور اِس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ایک بہتر معاشرے کا قیام عمل میں لایا جاسکے اور طبقاتی کشمکش اور تقسیم میں کمی لائی جاسکے۔ ایک بات بہت واضح ہے کہ روزے کا مقصد قطعاً خود کو بھوکا رکھنا نہیں ہے، بلکہ اخلاقی، سماجی، معاشی و معاشرتی اور انسانی حوالے سے تربیت ہے تاکہ ایک عالی معاشرے کا قیام عمل میں لایا جاسکے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ   [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی۔
سید رفعت سبزواری

سید رفعت سبزواری

بلاگر راولپنڈی سے تعلق رکھتے ہیں اورانجنئیرنگ کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ رفعت کو ٹوئیٹر پر فالو کیا جاسکتا ہے۔ twitter.com/R_Jaffry

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔