امن کی راہ میں رکاوٹیں

مقتدا منصور  اتوار 27 جنوری 2013
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

جب بھی پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات میں کسی قسم کی بہتری کی توقع پیدا ہوتی ہے، تو کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ یا سانحہ رونما ہو جاتا ہے، جو بڑھے ہوئے ایک قدم کو چار قدم پیچھے لے جانے کا سبب بن جاتا ہے۔ حالیہ دنوں میں اس کی ایک واضح مثال 2008ء میں ممبئی پر ہونے والا دہشت گرد حملہ تھا، جس نے جامع مذاکرات کے سلسلے کو منقطع کر کے دونوں ممالک کو جنگ کے دہانے تک پہنچا دیا تھا، جس کے نتیجے میں تعلقات میں بہتری کی امیدوں پر پانی پھر گیا۔ پھر کئی برس کے تعطل کے بعد گزشتہ برس جب مذاکرات کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوا اور بعض امور میں پیش رفت ہونے لگی تو کنٹرول لائن پر دو طرفہ فائرنگ کے نتیجے میں حالات ایک بار پھر سنگین ہو گئے۔

ان دونوں ممالک کا المیہ یہ ہے کہ سرحد کے دونوں جانب ایسے انتہا پسند عناصر موجود ہیں، جو پر امن بقائے باہمی کے راستے میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ یہ عناصر گو آبادی کا ایک انتہائی مختصر حصہ ہیں، لیکن دونوں ممالک کی اسٹبلشمنٹ کی سرپرستی کی وجہ سے پالیسی سازی پر اثر انداز ہو کر امن کوششوں کو سبوتاژ کرنے میں فعال رہتے ہیں۔ اگر پاکستان میں لشکر طیبہ، جیش محمد اور دفاع پاکستان کونسل جیسی تنظیمیں بھارت مخالف جذبات کو پروان چڑھانے میں پیش پیش ہیں، تو بھارت میں بھارتیہ جنتا پارٹی (BJP)، راشٹریہ سیوک سنگھ (RSS) اور شیو سینا پاکستان مخالفت میں ان سے کئی ہاتھ آگے ہیں۔

چند روز قبل بھارتی وزیر داخلہ سشیل کمار شنڈے نے خفیہ ایجنسیوں کی رپورٹوں کی روشنی میں انکشاف کیا کہ راشٹریہ سیوک سنگھ (RSS) اور بھارتیہ جنتا پارٹی (BJP) دہشت گردی کے تربیتی کیمپ چلا کر ہندو بنیاد پرستی کو فروغ دے رہی ہیں۔ ان کے اس بیان کی تائید وزیر خارجہ سلمان خورشید نے بھی کی ہے۔ جب کہ سیکریٹری داخلہ آر کے سنگھ نے دو قدم آگے بڑھتے ہوئے سمجھوتہ ایکسپریس، مالیگائوں، درگاہ اجمیر شریف اور مکہ مسجد دھماکے میں ملوث افراد کے نام بھی پیش کر دیے ہیں۔ یوں پہلی مرتبہ بھارت میں سرکاری سطح پر ان الزامات پر مہر ثبت کی گئی ہے، جو پاکستان اور بھارت کی سول سوسائٹی کئی دہائیوں سے ان جماعتوں پر لگاتی چلی آ رہی تھی۔ اس طرح یہ ثابت ہو گیا کہ تعلقات کے بگاڑ میں صرف دونوں جانب کی اسٹبلشمنٹ ہی ملوث نہیں ہے، بلکہ انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعتیں بھی شریک ہیں، جو جمہوریت اور سیکولرازم کی مخالف ہونے کی وجہ سے پاک بھارت تعلقات میں رکاوٹ بنی ہوئی ہیں۔

تعصبات کی اس فضا کو تقویت دینے میں بھارتی میڈیا کے کردار کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ بھارتی میڈیا نے ہمیشہ انتہا پسند عناصر کے کرتوتوں پر پردہ ڈالنے کی مذموم کوشش کی ہے۔ اس کے برعکس پاکستانی میڈیا کو یہ کریڈٹ حاصل ہے کہ اس نے شدت پسند عناصر کی منفی سرگرمیوں کو چھپانے کی کبھی کوشش نہیں کی۔

اس میں شک نہیں کہ کشمیر سمیت بعض دیگر تنازعات پاکستان اور بھارت کے درمیان نارمل تعلقات میں بنیادی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ لیکن سرد جنگ کے خاتمے کے بعد دنیا کے مختلف ممالک کے رجحانات میں ایک نمایاں تبدیلی آئی ہے۔ زیادہ تر ممالک اپنے باہمی اختلافات کو پس پشت ڈال کر معاشی تعاون کے ذریعے ترقی کی نئی راہیں تلاش کر رہے ہیں، جس کی سب سے اہم مثال یورپی یونین کی ہے۔ دوسری مثال آسیان (ASEAN) کی ہے، جہاں ملائیشیا اور انڈونیشیا نے اپنے سرحدی اختلافات کو ایک طرف رکھ کر معاشی ترقی کے لیے مل کر جدوجہد کرنے کا فیصلہ کیا اور آسیان کے جھنڈے تلے آج دونوں ممالک ترقی کی منازل طے کر رہے ہیں۔ جنوبی ایشیا کے ممالک کی تنظیم سارک (SAARC) بھی تیس برس قبل وجود میں آئی، لیکن پاکستان اور بھارت کے غیر سنجیدہ رویے کی وجہ سے مسلسل غیر فعال اور بے مصرف تنظیم بنی ہوئی ہے۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات میں بہتری نہ آنے کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ دونوں ممالک میں ریاستی فیصلہ سازی پر حاوی قوتیں سرد جنگ کی نفسیات سے باہر نکلنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ حالانکہ ان دونوں ممالک کے عوام کا معاملہ دنیا کے دیگر ممالک سے قطعی مختلف ہے۔ یہاں معاملہ صرف معاشی اور سماجی ترقی کے اہداف حاصل کرنے تک محدود نہیں ہے بلکہ ان دونوں ممالک کے عوام کی طویل مشترک تاریخ اور ایک دوسرے کی زمین کے ساتھ جذباتی تعلق بھی موجود ہے۔ 1947ء میں تقریباً ڈیڑھ کروڑ انسان جبراً نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔ 85 لاکھ مسلمانوں نے سرحد عبور کر کے پاکستان میں سکونت اختیار کی اور 74 لاکھ کے قریب ہندوئوں اور سکھوں نے بھارت کی طرف نقل مکانی کی، جب کہ مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد نے بھارت ہی میں رہنے کو ترجیح دی۔

اس طرح کشمیر سمیت بھارت کی ہر ریاست میں ایسے بے شمار مسلمان خاندان موجود ہیں، جن کے عزیز و اقارب کی ایک بڑی تعداد پاکستان کے مختلف علاقوں میں آباد ہے۔ لہٰذا تقسیم ہند اور عوام کی بڑے پیمانے پر ایک دوسرے ملک کی طرف نقل مکانی بے شک ایک تاریخی حقیقت ہے۔ اس میں بھی شک نہیں کہ تقسیم کے نتیجے میں بعض ایسے تنازعات نے سر اٹھایا، جنھوں نے ان دونوں ممالک کے درمیان نارمل تعلقات کے قیام کو متاثر کیا۔ لیکن ان تنازعات کو بنیاد بنا کر عوام کے اپنے پیدائش کے مقام کی زیارت اور عزیز و اقارب سے ملنے کے حق کو سلب نہیں کیا جا سکتا۔

دوسری اہم بات یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت کے تزویراتی منصوبہ سازوں کو اب اس پہلو پر غور کرنا چاہیے کہ 65 برس کے جنگی جنون نے ان دونوں ملکوں کو کیا دیا؟ انھیں اس بات پر بھی توجہ دینا ہو گی کہ جنوبی ایشیا کا یہ خطہ جہاں نہ تو قدرتی اور انسانی وسائل کی کوئی کمی ہے اور نہ تیز رفتار ترقی کرنے کے پوٹینشیل میں کمی ہے، بلکہ اس خطے میں غذائی اجناس اتنی وافر مقدار میں پیدا ہوتی ہیں کہ ہر شہری کو پیٹ بھر روٹی مل سکتی ہے۔ تو پھر یہ خطہ کیوں غربت، افلاس اور پسماندگی کی دلدل میں دھنسا ہوا ہے؟ صرف پاکستان اور بھارت میں مجموعی طور پر 40 کروڑ سے زائد افراد خطِ افلاس کے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ جو انتہائی تشویشناک صورتحال ہے۔ لہٰذا صاف ظاہر ہے کہ ان دونوں ممالک کے منصوبہ سازوں نے جنگ بازی کے شوق میں اس پورے خطے کو مسائل میں الجھا دیا۔

جنگی جنون کی نفسیات کا شکار ہونے کی وجہ سے اگر ایک طرف پاکستان دو لخت ہوا، اس کی معیشت تباہ ہوئی اور سیاسی انتشار کا شکار ہوا، دوسری طرف بھارت کو بھی اس Mindset کی وجہ سے کوئی فیض حاصل نہیں ہوا، بلکہ وہ اندرونی خلفشار کے علاوہ خارجہ محاذ پر بھی مختلف ہزیمتوں کا شکار چلا آ رہا ہے۔ اس کے صرف پاکستان ہی کے ساتھ نہیں بلکہ چین کے ساتھ بھی سرحدی تنازعات موجود ہیں۔ اس کے علاوہ بنگلہ دیش اور سری لنکا کو اس سے مستقل شکایات رہتی ہیں۔ اس نے اپنے دفاعی بجٹ کو غیر ضروری طور پر اس قدر بڑھا لیا ہے کہ خود اس کے عوام کی سماجی ترقی کی شرح متاثر ہو رہی ہے۔ آج اگر دونوں ممالک اپنے اختلافات مذاکرات کے ذریعے حل کرنے اور دفاعی اخراجات کو کم کرنے پر آمادہ ہو جائیں، تو عوام کی فلاح و بہبود کے لیے خاصی خطیر رقم میسر ہو سکتی ہے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ دونوں ممالک کے تزویراتی منصوبہ ساز ماضی کی غلط پالیسیوں سے نکلنے کی کوشش کریں۔ اپنے اپنے ملک کو شدت پسند عناصر کی سرگرمیوں سے محفوظ بنانے کی کوشش کریں اور جامع مذاکرات کو نیک نیتی اور سنجیدگی کے ساتھ آگے بڑھائیں، تا کہ اعتمادی سازی کا عمل تیزی کے ساتھ آگے بڑھایا جا سکے۔ اس کے علاوہ بزرگ شہریوں کے لیے ویزا کی سہولیات کا جو معاہدہ گزشتہ برس ہو چکا ہے، اس پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں اور عوام کو ایک دوسرے کے ملک میں سفر کرنے کے لیے مزید سہولیات فراہم کریں۔ شہروں کے بجائے پورے ملک کے لیے ویزا کے اجرا کو یقینی بنائیں اور عوام کے عوام سے رابطے کے راستے میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کی کوشش کریں۔ کیونکہ ہمارا بہتر مستقبل اور معاشی استحکام بداعتمادی، دشمنی اور جنگ و جدل کے بجائے امن، اعتماد اور سماجی روابط میں مضمر ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔