بجلی بحران اور درد انگیز حقائق

ایڈیٹوریل  منگل 30 مئ 2017
حقیقت میں توانائی بحران کی ناگزیر مجموعی صورتحال ساری قوم اور ارباب بست و کشاد کے لیے لمحہ فکریہ ہے . فوٹو : فائل

حقیقت میں توانائی بحران کی ناگزیر مجموعی صورتحال ساری قوم اور ارباب بست و کشاد کے لیے لمحہ فکریہ ہے . فوٹو : فائل

ملک میں بجلی یا توانائی بحران سے متعلق سلگتے سوالات کی ایک دلچسپ اور المناک کہکشاں ہے جو سیاسی ، سماجی اور معاشی افق پر نظر آتی ہے، الیکٹریسٹی ماہرین خود حکمرانوں سے بار بار پوچھتے ہیں کہ بجلی کی قلت ،اس کی طلب سے کم پیداوار کی منطق کیا ہے ، پانی و بجلی کی وزارت کے اعداد وشمار پر یقین کرنے کو کیوں دل آمادہ نہیں ہوتا، مسئلہ گمبھیر کیسے ہوگیا، بجلی کی آنکھ مچولی ، طویل معطلی یا عرف عام میں غیر علانیہ لوڈ شیڈنگ کے پیچھے اصل سچ کیا ہے اور قوم کو عالم اسلام اور خطے کے ایک ایٹمی ملک میں جسے بقول وزیر خزانہ بہت جلد دنیا کی اہم معیشت کا درجہ حاصل ہوجائیگا۔

لوڈ شیڈنگ سے نجات ملنے کے کوئی آثار دکھائی کیوں نہیں دیتے، ملک بھر کے بجلی صارفین کا یہ سادہ سا سوال ہے کہ ارباب اختیار 2018 تک ملک سے لوڈ شیڈنگ ختم ہونے کی نوید تو دیتے ہیں لیکن وہ اس بات کی ضمانت کیوں نہیں دیتے کہ الیکشن سے پہلے بجلی کے اتنے ڈھیر سارے منصوبوں اور متبادل توانائی کے ممکنہ وسائل سے اہل وطن کو ریلیف کیوں نہیں ملا ؟اگر پاور جنریشن ،ڈسٹری بیوشن اور بلنگ کے معروضی اور زمینی حقائق کی بات کی جائے تو بجلی کی پیداوار سے متعلق مسائل کسی طلسم ہوشربا یا یونان کی دیومالائی کہانیوں سے مختلف نہیں ہوسکتے، ماہرین برقیات کے ایک طبقہ کا کہنا ہے کہ بجلی کی قلت، اس کی کم پیداوار، ناقص تقسیم اور ضیاع کو روکنے کی صلاحیت اور استعداد سے استفادہ میں کوتاہی برتی گئی جب کہ اس بات پر سبھی سیاست دان متفق ہیں کہ توانائی کے مسئلہ کو خود توانائی بحران کے ذمے داروں نے زندہ رکھا ہوا ہے ۔

اس تناظر میں بجلی کی معطلی اور درد انگیز لوڈ شیڈنگ سے پیدا شدہ مجموعی صورتحال کی ہلکی سی جھلک صوبہ خیبر پختونخوا میں اٹھنے والے غیر معمولی اضطراب سے لگایا جاسکتا ہے جہاں صوبہ کے مختلف شہروں میںگزشتہ چند روز سے لوڈ شیڈنگ کے خلاف احتجاج اور پر تشدد مظاہرے ہوتے رہے، مزید براں قیامت خیزگرمی نے شہریوں کا پارہ بلند کردیا، مشتعل مظاہرین جلاؤ گھیراؤ اور ہنگامہ آرائی کرتے رہے، ملاکنڈ کی تحصیل درگئی میںشہریوں نے واپڈادفاتراورلیویزتھانہ کو نذر آتش کردیا جب کہ فائرنگ اور پتھراؤ سے 2 افراد جاں بحق 14 زخمی ہوگئے ، فائرنگ کے بعد حالات کشیدہ ہونے پر امن و امان کے لیے فوج طلب کر لی گئی۔

جہاں تک بجلی بحران کا مسئلہ ہے وہ ملک گیر ہے ۔ تمام صوبوں میں مسئلہ کی حرکیات اور نوعیت بھی مختلف ہے ، طلب و رسد کا فرق نمایاں ہے، صورتحال کی سنگینی کے اسباب بھی قابل غور ہے، مثلاً خیبر صوخیبر پختونخوا میں جو عوامی رد عمل ظاہر ہوا اسے صوبائی حکومت کو پہلی فرصت میں ٹیک اپ کرنا چاہیے تھا ، جلاؤ گھیراؤ، پر تشدد مظاہروں اور قانون کو ہاتھ میں لینے سے بجلی کس طرح آئے گی، کہیں بل ادا کرنے کے لیے کوئی تیار نہیں ، کراچی میں کنڈا سسٹم ایک ناسور ہے، بجلی خرچ ہوتی ہو تو شہری اس کا بل ادا کریں ، بجلی محکموں کو بھی شفافیت اور مناسب بلنگ کا انتظام کرنا چاہیے، اوسط بلنگ بھی نا مناسب ہے، خیبر پختونخوا کے وزیر اطلاعات شاہ فرمان نے کہا ہے کہ وفاق اگر بجلی میں اس صوبہ کا آئینی حق دیتا تو لوڈشیڈنگ کے ستائے عوام سڑکوں پر نہ نکلتے، ان سے پوچھا جاسکتا ہے کہ خیبر پختونخوا میں بل دینے کا کلچر کیسا ہے؟

این ٹی ڈی سی کے ذرایع کا کہنا ہے کہ اگلے روز بجلی کی مجموعی ڈیمانڈ ساڑھے21 ہزار میگاواٹ سے تجاوز کر گئی جس کے باعث شارٹ فال 8 ہزار میگاواٹ تک پہنچ گیا۔ تاہم خوش آیند بات یہ ہوئی کہ ہنگاموں کے سیاق وسباق میں ہی وزیر مملکت پانی و بجلی عابد شیر علی نے پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر تحریک انصاف کے اراکین قومی اسمبلی کو کے پی کے میں لوڈ شیڈنگ کے معاملہ پر منا لیا، جب کہ یقین دہانی پر تحریک انصاف نے دھرنا ختم کر دیا۔ اس موقع پر پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی علی محمد خان نے کہا کہ کے پی کے سب سے زیادہ بجلی پیدا کرنے والا صوبہ ہے لیکن کے پی کے کے لوگوں کے ساتھ لوڈ شیڈنگ کے معاملہ پرناانصافی کی جا رہی ہے اور کے پی کے میں لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ 16گھنٹے ہے۔

پی ٹی آئی کے رکن مراد سعید نے کہا کہ حکمرانوں نے پہلے6ماہ اور پھر ایک سال کے اندر لوڈ شیڈنگ کے خاتمہ کا وعدہ کیا گیا مگر وہ وعدہ ابھی تک ایفاء نہیں ہوسکا۔ ترجمان پیسکو نے کہا ہے جن علاقوں کے لوگ احتجاج کر رہے ہیں وہاں 88 فیصد خسارے کا سامنا اور 18 گھنٹے لوڈ شیڈنگ کی جارہی ہے۔ ادھر پنجاب خصوصاً کے کئی علاقوں میں بھی لو ڈ شیڈنگ کا دورا نیہ 18گھنٹے تک جا پہنچا ہے،کراچی میں سحر اور افطار کے اوقات میں لوڈشیڈنگ نہ کرنے کے دعوے نقش بر آب ثابت ہوئے، رمضان المبارک کے دوسرے روز بھی شہر بھر میں بجلی کی بدترین لوڈشیڈنگ کا سلسلہ جاری رہا، شہر کے مختلف علاقوں میں 8 سے 12 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کی جارہی ہے، پیر کو پھر بدترین بریک ڈاؤن ہوا ، روزداروں کو افطار وسحری میں شدید مشکلات پیش آئیں، لیکن اسی دوران وزیر پانی و بجلی خواجہ آصف نے وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ سے لوڈ شیڈنگ پر معذرت کی ۔

بجلی بحران پر دیگر صوبائی حکومتوں کو بھی وزیراعلیٰ سندھ کی تقلید کرنی چاہیے جنھوں نے بجلی کے مسئلہ پر وفاق سے اختلاف اور شکایات کو حد عبور کرنے کا ذریعہ نہیں بنایا ، مکالمہ کا تسلسل جاری رکھنا صائب حکمت عملی ہے کیونکہ توانائی کا اجتماعی مسئلہ بہر طور ملک کے تمام اکائیوں کا مسئلہ ہے، یہ ملک سب کوعزیز ہے، دوسری جانب وزارت پانی وبجلی کا عجیب دعویٰ ہے کہ ملک کے کسی علاقے میں غیر علانیہ لوڈشیڈنگ نہیں ہو رہی ، وزارت پانی و بجلی نے کہا ہے کہ ملک میں بجلی کی پیداوار 16 ہزار400 میگا واٹ جب کہ طلب 20 ہزار 400میگا واٹ ہے، بجلی کی قلت 4 ہزار میگا واٹ ہے، شہروں میں 4 سے 6جب کہ دیہی علاقوں میں6 سے 8 گھنٹے تک کی لوڈشیڈنگ کی جارہی ہے۔ مگر یہی وہ بند گلی ہے جہاں بجلی کی کمی ، شارٹ فال کی حقیقی صورتحال ، لوڈ شیڈنگ کے دورانئے سے متعلق درست حقائق اور مکمل سچ کا برملا اظہار وقت کا تقاضہ اور عوام کا بنیادی حق ہے۔

اخباری اطلاعات کے مطابق وزیراعظم نوازشریف نے لوڈشیڈنگ کے موجودہ شیڈول پراظہار برہمی کرتے ہوئے حکم دیا ہے کہ رمضان المبارک میں کم سے کم لوڈشیڈنگ کی جائے، توانائی کے بارے میں کابینہ کمیٹی برائے توانائی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے صورتحال کی سنگینی کو مد نطر رکھا جب کہ کابینہ کی توانائی کمیٹی کا اجلاس منگل کو دوبارہ طلب کر لیا۔ ایک معاصر انگریزی اخبار نے وزیراعظم کی برہمی کی اندرونی رپورٹ دیتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم لوڈ شیڈنگ کی حد اور دورانئے سے متعلق اعداد وشمار سے متفق نہیں تھے،ان کی برہمی دیدنی تھی، انھوں نے وزرا اور سینئر بیوروکریٹس پر واضح کیا کہ لوڈ شیڈنگ کہیں بھی 6 تا 8 گھنٹے تک محدود نہیں ہے، بلکہ وزیراعظم کے علم میں تھا کہ دور افتادہ اور دیہی علاقوں میں 16سے 18 گھنٹے بجلی غائب رہتی ہے ۔

حقیقت میں توانائی بحران کی ناگزیر مجموعی صورتحال ساری قوم اور ارباب بست و کشاد کے لیے لمحہ فکریہ ہے، ایک تحقیقی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک کو سالانہ 1.4 ٹریلین خسارہ لوڈ شیڈنگ سے ہورہا ہے۔بندہ پرورو! کیا اس پر بھی کسی کو پوائنٹ اسکورنگ کی اجازت دی جانی چاہیے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔