کرپشن کا کینسر اور سیاست بازی

ذوالفقار احمد چیمہ  بدھ 31 مئ 2017
zulfiqarcheema55@gmail.com

[email protected]

کائناتوں کے خالق اور مالک نے انسانوں کو تخلیق کر کے دنیا میں بے لگام نہیں چھوڑ دیا بلکہ انھیں صحیح اور غلط کے بارے میں روشناس کیا، زندگی گزارنے کا طریقہ اور ضابطہ سمجھایا، ڈُوز اینڈ ڈونٹس بتائے حلال اور حرام کی تمیز سکھائی اور یہ ہدایت دی کہ کھلی کائنات میں اپنے لیے رزق تلاش کرو مگر حلال اور طیب صرف رزقِ حلال، جائز طریقوں سے کمایا ہوا۔ ناجائز طریقوں سے مال بنانا اتنا قبیح فعل ہے کہ خود رحمت العالمینؐ نے رشوت لینے اور دینے والے کو جہنم کی وعید سنائی ہے۔ اور پھر یہاں تک فرمادیا کہ جس نے حرام کا ایک لقمہ بھی کھایا اس کی کوئی دعا قبول نہ ہوگی۔

دولت کی خواہش انسان کی سرشت اور جبلّت میں ہے۔ مگرجب یہ خواہش بے لگام ہوس میں تبدیل ہوجاتی ہے تو معاشروں کا توازن بگاڑ کر انھیں تباہ کردیتی ہے۔ ادارے وہ ستون ہیں جن پر ریاست کی عمارت کھڑی کی جاتی ہے اور کرپشن وہ زہر ہے جو اداروں کی رگوں میں اُترکر زندگی اور توانائی کا رس چوس کر انھیں کھوکھلا کردیتا ہے۔ زندہ قومیں ریاست کو اس خطرناک کینسر سے محفوظ رکھنے کے لیے موثر اقدامات اٹھاتی ہیں، اس کے تدارک کے لیے بند باندھتی ہیں، قانون سازی کرتی ہیں۔ بہت سے ملکوں نے رشوت خوری یا کرپشن کو قتل جیسا جرم قرار دیکر اس کی سزا موت مقرّر کی ہے۔

انسانی معاشروں کا توازن اور حسن اخلاقی اقدار سے قائم رہتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارا معاشرہ اخلاقی توانائی اور تابندگی کے جوہر سے محروم ہوچکا ہے جسکا ثبوت یہ ہے کہ عوام کی اکثریت میں کرپشن اور رزقِ حرام کے لیے ناپسندیدگی باقی نہیں رہی۔ اس زہر سے نفرت میں وہ شدّت نہیں جو زندہ معاشروں میں ہونی چاہیے۔ اسی لیے ہماری معاشرت، سیاست، تجارت، حکومت، عدالت افسرشاہی یا افواج غرضیکہ ہر شعبے اور ہر محکمے میں اس مہلک مرض کے جراثیم سرایت کرچکے ہیں۔

کرپشن کے خاتمے کے لیے ہمارے کسی بھی قومی ادارے کا کردار قابلِ رشک نہیں۔ کسی بھی ادارے نے اس کے خاتمے یا تدارک کے لیے نیک نیتّی اور مخلصانہ جذبے سے کوشش نہیں کی۔ چونکہ اِسوقت فیصلہ سازی اور قوم کی باگ ڈور اہلِ سیاست کے ہاتھ میں ہے اسلیے سب سے زیادہ ان کی ذمے داری ان پر ہے۔ مگر رہنمائی کا فریضہ سر انجام دینے والوں کاعالم یہ ہے کہ کچھ کٹہرے میں کھڑے ہیں اور کچھ کرپشن ہی کے سنگریزوں سے ان پر سنگ زنی میں مصروف ہیں، مگر وہ بھی کرپشن کے خاتمے کے نہیں حکومت کے خاتمے کے خواہشمند ہیں۔ ہر طرف ایک ہنگامہ اور شور بپا ہے جہاں چور بھی چور چور کا شور مچارہے ہیںاورخود کرپشن ایک طرف کھڑی مسکرا رہی ہے اور خوش ہے کہ نہ کسی کے قدم اس کی جانب بڑھ رہے ہیں نہ کسی کا ہاتھ اس کے گریبان کی طرف آرہا ہے وہ محفوظ و مامون و شاداں و فرہاں پورے طمطراق سے یہ تماشا دیکھ رہی ہے اور محظوظ ہورہی ہے۔

اگر عوام میں کرپشن کے خلاف نفرت ہوتی تو بدکردار اور ناجائز طریقوں سے جائیدادیں بنانے والے چار چار پانچ پانچ مرتبہ منتخب ہوکر اسمبلیوں میں نہ پہنچ سکتے۔ عدالتیں کرپشن کے مقدموں کو طول دینے کے بجائے کرپٹ افراد کو سزائیں دیتیں (اس ملک کے ایک بھی بڑے بااثر شخص کو کرپشن میں سزا نہیں ملی) اور فوج بطور ادارہ کرپشن کو قانونی جواز فراہم کرنے کے لیے مشرّف کے شرمناک این آر او کی مزاحمت کرتا مگر ایسا نہیں ہوا، ہر لیڈر نے کرپشن کی غلاظت سے لتھڑے ہوئے افراد کو سینے سے لگا رکھا ہے۔کسی فرد، ادارے یا پارٹی کیطرف سے کرپشن کے خاتمے کے لیے نیک نیّتی اور جذبے سے کوشش نہیں ہورہی صرف سیاست بازی ہے۔ دکھ ہوتا ہے کہ کرپشن جیسے اہم قومی مسئلے کو بھی سیاست کی نذر کردیا گیا ہے۔

اہلِ سیاست کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے لیے ڈھال بن کر ایک دوسرے کی کرپشن چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ صرف انتخابی نعرے کے طور پر اس کا ذکر تو کرتے ہیں مگر کوئی سیاسی حکومت کسی سیاسی لیڈر کے خلاف کرپشن میں ملوث ہونے پر بھی کارروائی نہیں کرتی۔ اہلِ سیاست اس کی ذمے داری بھی غیر سیاسی قوتوں پر ڈالتے ہیں ان کاکہنا ہے کہ ماضی میں سیاسی لوگوں کے خلاف قانونی کارروائی ہوتی رہی ہے مگر ملٹری ٹیک اوور کے خوف نے سیاسی قوتوں کو اکٹھا کردیا ہے۔ پارلیمنٹ پر شب خون کے ڈر نے انھیں ایسے معاہدے کرنے پر مجبور کیا جس کے تحت وہ ایک دوسرے کے خلاف کارروائی نہ کرنے اورمصالحانہ روّیہ اپنانے پر مجبور ہوئے ہیں۔

دنیا کے بڑے بڑے صاحبانِ فکرو نظر اور ماہرینِ معیشت کرپشن کو ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیتے ہیں۔پاکستانی خواتین میں سے سب سے بڑی ادیبہ اور دانشور محترمہ بانو قدسیہ نے اس سلسلے میں حیرت انگیز تھیوری پیش کی ہے لِکھتی ہیں ’’جس وقت حرام رزق جسم میں داخل ہوتا ہے وہ انسانی genesکو متاثر کرتا ہے۔ رزقِ حرام سے ایک خاص قسم کی mutationہوتی ہے جو خطرناک ادویات شراب اور radiationسے بھی زیادہ مہلک ہے۔ رزقِ حرام سے جو genesتغیر پذیر ہوتے ہیں وہ لولے لنگڑے اور اندھے ہی نہیں ہوتے بلکہ نااُمید بھی ہوتے ہیں۔ یہ genesجب نسل در نسل ہم میں سفر کرتے ہیں تو ان genesکے اندر ایسی ذہنی پراگندگی پیدا ہوتی ہے جس کو ہم پاگل پن کہتے ہیں۔ یقین کرلوکہ رزقِ حرام سے ہی ہماری آنے والی نسلوں کو پاگل پن وراثت میں ملتا ہے اور جن قوموں میں رزقِ حرام کھانے کا لپکا پڑجاتا ہے، وہ من حیث القوم دیوانی ہونے لگتی ہیں‘‘۔

پھر لکھتی ہیں’’جو شخص حرام کی بوری سے کھائے گا۔ اس کے لہو کی کیمیائی حالت مختلف ہوگی اور اس لہو میں genes کی توڑ پھوڑ منفی ہو گی‘‘۔

’’ جو کچھ ہم کھاتے پیتے ہیں اندر جاکر ہمارے لہو کی ساخت پر اثر انداز ہوتا ہے اندر بلڈ کیمسٹری چلتی ہے‘‘۔

’’جو رزقِ حلال ہم اندر ڈالتے ہیں، اس کا بلڈ کیمسٹری پر مثبت اثر ہوتا ہے اور جو رزق ِحرام اندر داخل ہوتا ہے اس کا ہمارے لہو پرمنفی اثر ہوتا ہے‘‘

کسی شخص نے ایک بزرگ سے پوچھا کہ’’ اﷲ کے ننانوے ناموں میں سے اسمِ اعظم کونسا ہے جسکے ذکر سے ہرد عا کو شرفِ قبولیت ملنے لگے؟ ‘‘ بزرگ نے فرمایا ’’رزقِ حلال کھاؤ تو اﷲ کو جس نام سے بھی پکارو گے شرفِ قبولیت پاؤگے‘‘ ۔

کرپشن کی وجوہات کا جائزہ لینا شروع کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ مارکیٹ اکانومی کے اِس دور میں اخلاقی قدریں دم توڑ چکی ہیں، ترجیحِ اوّل بھی پیسہ اور ہدفِ آخر بھی پیسہ ہی بن چکا ہے۔ ہر شخص کسی بھی طریقے سے زیادہ سے زیادہ دولت اکٹھا کرنے کی چوہا دوڑ (Rat Race) میں شامل ہے، حلال و حرام کی تمیز ختم ہوچکی ہے۔ جسکے مٹنے سے عزّت و شرف کے پیمانے بھی بدل چکے ہیں۔ پیسہ اور رسوخ رکھنے والوں نے ناجائز کمائی اور کرپشن کے آگے کھڑی کی جانے والی رکاوٹوں کو روند ڈالا ہے۔ انسدادی کارروائی کرنے والے امدادی کاروائیوں میں شامل ہوجائیں تو کرپشن کی افزائش ہوگی اور وہ ریاست کی جڑوں کو کھوکھلا کریگی بہت پرانی بات نہیں لوگ حرام طریقے سے پیسہ لیتے ہوئے جھجکتے اور ڈرتے تھے، معاشرے میں حرام کی کمائی سے بنائی گئی بڑی بڑی کوٹھیوں میں رہنے والوں کو نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔

ڈراموں اور فلموں میں ایماندار شخص کو ہیرو کے طور پر پیش کیا جاتا تھا، بددیانت اور کرپٹ ولن ہوتا تھا۔ ٹیلیوژن (پی ٹی وی) اخلاقی اقدار کو اجاگر کرتا تھا۔ و الدین اور استاد بچوں کی اخلاقی تربیت کرتے تھے۔گھراور اسکول بڑے اہم اور متحرک ادارے ہوتے تھے اب دونوں غیر فعال ہیں، برقی میڈیا پر یا سیاست بازی ہے یا ایکٹرسوں اورہمارے ازلی دشمن کے خیرخواہوں کا قبضہ ہے۔ ہر شخص چادر سے بڑھکر پاؤں پھیلانے کا خواہشمند ہے۔ ہر شخص نے اپنا معیارِ زندگی اپنے وسائل سے بلند کر لیا ہے، نمود و نمائش کا دور دورہ ہے۔ ہر انسانی فعل یا عمل کے پیچھے دو عوامل کار فرما ہوتے ہیں،کچھ ملنے یا خواہش پوری ہونے کا لالچ یا ڈر (Threat or inducement ) آج حرام کھانے والے کو نہ کسی ادارے یا قانون کا ڈر ہے اورنہ ایمانداری کی راہ پر چلنے والے کے لیے ریاست کی طرف سے کوئی Incentive ہے۔ کرپشن کے تدارک کے ذمّے دار احتساب کے ادارے غیر موثّر ہیں۔ پورے کا پوارا ماحول (environmnet)کرپشن کی افزائش اور فروغ کے لیے سازگار بن چکا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس کا تدارک ممکن ہے ؟ اگر ممکن ہے تو کیسے ؟

کئی سال پہلے جب راقم ایس پی سٹی لاہور تھا ، میرے دفتر میں کسی این جی او کی دو خواتین آئیں اور کہنے لگیں ’’ ہم نے کرپشن کے خلاف ناصر باغ سے اسمبلی ہال تک واک کا اہتمام کیا ہے آپ کو اس میں شرکت کی دعوت دینے آئی ہیں‘‘۔  میرے بجائے وہاں بیٹھے ہوئے وقت کے سب سے بڑے اورحاضر جواب کامیڈین مرحوم دلدار پرویز بھٹی بول پڑے ’’بی بی اتنی لمبی واک سے پرانی قبض کا خاتمہ تو ہوسکتا ہے کرپشن کا نہیں‘‘۔کرپشن کو واکوں سے یا “Say No to Corruption”جیسے بے ضرر سے اشتہاروں سے نہیں بڑے سخت اور آہنی اقدامات سے ہی کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔

(جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔