ریاض کانفرنس اور پاکستان

اصغر عبداللہ  منگل 30 مئ 2017
mohammad_asghar_abdullah@yahoo.com

[email protected]

ریاض کانفرنس اپنے پیچھے کئی سوالات چھوڑ گئی ہے۔ یہ ۵۵ ملکی کانفرنس ایک ایسے وقت میں انعقاد پذیرہوئی، جب مشرق وسطیٰ میں سعودی عرب اور ایران کے درمیان کشمکش عروج پر ہے اور پاکستان کے سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف سعودی عرب کے انتالیس ملکی مسلم فوجی اتحاد کی کمان سنبھال چکے ہیں۔ علاوہ اس کے، اس موقعے پر امریکی صدر ٹرمپ بھی سعودی عرب میں موجود تھے  یہ ان کا پہلا غیرملکی دورہ تھا۔ اس کانفرنس کی وساطت سے امریکی صدر کو براہ راست مسلم دنیا کے سامنے اپنا موقف پیش کرنے کا موقع میسر آیا۔ امریکی صدر کی تقریر ، سوائے ایران کے بارے میں منفی ریمارکس کے، کافی متوازن تقریر تھی۔

حالیہ عرب مسلم امریکا سربراہ کانفرنس کو مسلم فوجی اتحاد کے پس منظر میں ہی دیکھا جا رہا ہے ، بلکہ اسی کا تتمہ قرار دیا جا رہا ہے ، لہٰذا اس مسلم فوجی اتحاد کا پس منظر سمجھنا بھی ضروری ہے۔ قصہ یوں ہے کہ یہ فوجی اتحاد15جون 2015ء کو اس طرح وجود میں آیا کہ سعودی وزیردفاع محمد بن سلمان ، جو موجودہ سعودی فرماں روا سلمان بن عبدالعزیز کے بیٹے ہیں ، نے ریاض میں ایک پریس کانفرنس کرکے اس کا اعلان کیا ۔

ابتدائی طور پر چونتیس ملکوں نے اس میں شمولیت کا اعلان کیا ، لیکن اب ان کی تعداد انتالیس تک پہنچ چکی ہے۔نمایاں ملکوں کے نام یہ ہیں: سعودی عرب ، ترکی ، مصر ، لیبیا ، کویت ، فلسطین ، قطر ، ملائیشیا ، عمان ، متحدہ عرب امارت ، افغانستان ، بنگلہ دیش ، اور پاکستان ۔ یعنی سوائے ایران ، عراق اورشام کے ، سب مسلمان ملک اس میں شامل ہیں ۔ ان ملکوں کی اکثریت اوآئی سی میں بھی موجود ہے۔ انتالیس ملکی فوجی اتحاد کے اعلان کردہ مقاصد یہ ہیں۔ 1 ، یہ اتحاد مسلمان ملکوں میں عالمی دہشت گردی کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے غیر فرقہ وارانہ بنیادوںپرکام کرے گا۔ 2۔ اس ضمن میں اقوام متحدہ اور او آئی سی کے متعین کردہ طریق کار کو ملحوظ رکھا جائے گا۔

مسلم فوجی اتحاد پر ایک ہی بڑا اعتراض سامنے آیا ہے کہ چونکہ اس میں ایران ، عراق اورشام شامل نہیں ہیں لہٰذا یہ ’’فرقہ وارانہ اتحاد‘‘ ہے۔ اس ضمن میں پہلی بات یہ ہے کہ فوجی اتحاد میں شامل اکثریت ان مسلم ملکوں کی ہے جن کے ریاستی تشخص میں کوئی فرقہ وارانہ چیز نہٰیں۔ پاکستان ، ترکی ، مصر یا ملائیشیا کے بارے میں یہ کہنا کہ ان کا ریاستی تشخص فرقہ وارانہ ہے ، انتہائی غیر منطقی بات ہے۔

پاکستان نے بطور ریاست اپنے تئیں فرقہ واریت سے ہمیشہ بلند رکھا ہے۔صرف دو مثالیں پیش خدمت ہیں ۔ سعودی فرمانروا نے یمن کے ساتھ اپنے تنازع میں پاکستان سے فوجی مدد کی درخواست کی لیکن پاکستان نے نامنظور کردی ۔ قبل ازیں عراق کے وزیراعظم نے امن مشن کے نام پر عراق میں اپنے مخالفوں کو دبانے کے لیے فوجی امداد مانگی تھی لیکن اس وقت بھی پاکستان نے عراق میں فوجیں بھیجنے سے انکار کردیا تھا۔ یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں کہ اس فوجی اتحاد میں افغانستان، بنگلہ دیش، لبنان، کویت اور لیبیا بھی بھرپور انداز میں شامل ہیں جن کے سعودی عرب کے برعکس ایران سے زیادہ قریبی تعلقات ہیں۔

پاکستان کو بھی ان ملکوں میں شامل کیا جا سکتا ہے جس کے ایران کے ساتھ ریاستی تعلقات پچھلے ستر سال میں ، باوجود علاقائی اور بین الاقوامی نشیب وفراز کے ،کبھی خراب نہیں ہوئے بلکہ موجودہ ایرانی انقلاب کو بھی پاکستان میں بالعموم خوش آمدید ہی کہا گیا۔ ایران عراق جنگ میں اسلحہ کی ترسیل کے لیے ایران کی پائپ لائن پاکستان ہی تھا ، اور جنرل ضیاالحق نے باوجود صدام حسین کے احتجاج کے ، اس پائپ لائن میں رکاوٹ ڈالنے سے انکار کر دیا تھا ، اور کہا تھا کہ بطور ایک ہمسایے کے ، یہ ایران کا حق ہے ۔کہنے کا مطلب یہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف انتالیس مسلم فوجی اتحاد کو فرقہ ورانہ رنگ میں بیان کرنے کا ظاہراً کوئی جواز نہیں ۔ ایران کی عدم شمولیت کی وجہ مشرق وسطیٰ میں ایران اورسعودی عرب کی باہمی کشمکش ہے، جو کوئی آج کی بات نہیں، اس کی جڑیں صدیوں پیچھے تک پھیلی ہوئی ہیں۔ یہ تفصیلات بیان کرنے کا یہاں موقع نہیں، لیکن واقعہ یہ ہے کہ ان دنوں ایران میں یہ سوچ عود کر آرہی ہے کہ مشرق وسطیٰ میں ایران کو پہلوی دور میں جو علاقائی سیاسی اور فوجی برتری حاصل تھی، اس کو دوبارہ حاصل کیا جائے۔

عراق ، یمن اور شام میں جو حشر برپاہے، اس کے پس منظر میں بھی مشرق وسطیٰ کی سیاست کارفرماہے۔ لہٰذا جب ریاض میں مسلم دنیا کے فوجی اتحاد کی بات ہوتی ہے تو تہران اس کو مشرق وسطیٰ کی سیاست کے تناظر میں ہی دیکھتا ہے اور یہ قدرتی چیز ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ مسلمان ملکوں کو اس وقت انتہاپسندی کا جو چیلنج درپیش ہے، اس میں مسلک ثانوی چیز ہے ، اور عالم اسلام کی نمایاں فوجی طاقتوں نے، جن میں پاکستان بھی شامل ہے، اس کی درست تشخیص کی ہے اور مشترکہ فوجی قوت سے اس چیلنج سے عہدہ برآ ہونے کی حکمت عملی بھی مبنی برحقیقت ہے۔

ریاض کانفرنس کا بنیادی ایجنڈا بھی مسلم ملکوں کو درپیش دہشت گردی کا عفریت تھا۔ سعودی فرمانروا شاہ سلمان نے اپنی افتتاحی تقریر میں اس امر کا برملا اعتراف کیا کہ دہشت گردی کے اس عفریت کا مقابلہ مل جل کر ہی کیا جا سکتا ہے۔ صدر ٹرمپ کا یہ کہنا بھی بجا تھا کہ پوری دنیا میں دہشت گر دی کا شکار ہونے والے پچانوے فی صد افراد مسلمان ہی ہیں ۔ تاہم یہ بات حیران کن تھی کہ پاکستان ، جس نے نائن الیون کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں اور اب بھی دے رہا ہے ، اس کا ذکر کی ضرورت نہ امریکی صدر نے محسوس کی ، نہ سعودی فرمانروا نے۔ وزیراعظم نوازشریف اپنی تقریر میں ان قربانیوں کا تذکرہ کر سکتے تھے ، لیکن ان کو تقریر کرنے کا موقع ہی نہ ملا ، یا نہیں دیا گیا۔

وزیراعظم نوازشریف کے ساتھ ا س ’’حسن سلوک‘‘ سے ہٹ کر اگر دیکھا جائے تو ریاض کانفرنس اپنے مطلوبہ مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہے۔ سعودی عرب کی قیادت، امریکا سمیت مغربی دنیا پر یہ تاثر قائم کرنے میں کام یاب رہی کہ آج حقیقتاً وہی مسلم دنیا کی قیادت بھی کر رہی ہے، اور امریکا سے تین سو اسی ارب کا اسلحہ کی خریداری کا معاہدہ کرکے مشرق وسطیٰ کی سیاست میں ایران کے مقابلہ میں اپنی فوجی پوزیشن مزید مستحکم کر لی ہے۔ ایک وقت تھا ، مشرق وسطیٰ کی سیاست میں ایران امریکا کا ’’قابل اعتماد ترین دوست‘‘ تھا؛ آج سعودی عرب امریکا کا’’ قابل اعتماد ترین دوست‘‘ ہے ۔ شاعر نے کہا تھا ،

آج میں ہوں جہاں کل کوئی اور تھا

یہ بھی اک دور ہے ، وہ بھی اک دور تھا

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔