ٹیکنالوجی پر پابندی

ڈاکٹر توصیف احمد خان  بدھ 31 مئ 2017
tauceeph@gmail.com

[email protected]

سوشل میڈیا بھی سرخ لکیرکی زد میں آگیا۔ عوام کے جاننے کے حق کے لیے طویل کوششوں کے بعد تیار ہونے والا قانون کا مسودہ معلومات کو خفیہ قراردینے کے کلچرکو مستحکم کرے گا۔اداروں اوردہشت گردی کو ہتھیارسمجھنے والے گروہوں کی ناپسندیدگی واضح ہوتی جارہی ہے۔ سوشل میڈیا جدید ترین انفارمیشن ٹیکنالوجی کی دین ہے۔

انسانی تاریخ کے ارتقاء سے واضح ہوتا ہے کہ ہمیشہ انسان نے اپنی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے سائنس اور ٹیکنالوجی کو ایجاد کیا۔ ٹیکنالوجی نے انسانی زندگی کوبہت آسان کیا ہے مگر ٹیکنالوجی مہنگی اور اس کا استعمال مشکل ہونے کی بناء پر اس کا فائدہ عوام کو نہیں ہوتا اور بہت عرصے بعد بعض ٹیکنالوجیز پر آنے والی لاگت کم ہوجاتی ہے تو پھر وہ عوام کو میسر آتی ہے، مگر انفارمیشن ٹیکنالوجی کی بنیاد کمپیوٹر کے نظام پر ہے۔ کمپیوٹرگزشتہ صدی میں بہت مہنگا تھا مگر انفارمیشن ٹیکنالوجی نے اس نظام کو سستا اور استعمال کو آسان کردیا۔

یہی وجہ ہے کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی نے امیروں اورغریبوں سب کی زندگی اورکلچر کو تبدیل کردیا۔ اس ٹیکنالوجی کا ایک خصوصیت یہ ہے کہ ہر آدمی کسی بھی زبان میں اپنا مافی الضمیر بیان کرسکتا ہے۔ پھر اپنے خیالات، آواز، تحریر اور تصاویر یعنی فوٹیج کے ذریعے دنیا تک پہنچائی جاسکتی ہیں۔ یوں سوشل میڈیا کی پہنچ ہر شخص تک ہے اور ہر شخص اپنے خیال کو سوشل میڈیا پر منتقل کرتا ہے اور یہ سب کچھ چند لمحوں میں ہوتا ہے اور اس پر کوئی لاگت نہیں آتی۔ اس  میں بیسیوں قسم کی باتیں ہوتی ہیں۔

زندگی، سیاست، اداروں، شخصیات، ممالک، مذاہب، جنس غرض ہر تصورکیے جانے والے مسئلے پر ہر وہ آدمی اپنے خیالات اور معلومات کا اظہار کرتا ہے جس کے بارے میں یہ طے کرنا مشکل ہے کہ وہ اس بات کا اہل ہے بھی یا نہیں ۔ پھر عوام کو اطلاعات دوسروں تک منتقل کرنے کا مؤثر ذریعہ مل گیا ہے۔ اخبارات، ریڈیو اور ٹیلی وژن اپنی پالیسی، اقتصادی، سیاسی، سماجی ،مذہبی مفادات، قوانین اور دیگر نامعلوم وجوہات کی بناء پر جن اطلاعات کو شایع نہیں کرتے ان کو مسخ کردیتے ہیں۔ وہ اطلاعات سوشل میڈیا کے ذریعے دنیا بھر میں پھیل جاتی ہیں۔ اس طرح عام آدمی کو اس عوام دشمن نظام کے خلاف اطلاع دینے اور رائے دینے کا حق مل گیا۔

اس صدی کے 17 برسوں کے دوران اخبارات اور الیکٹرونک میڈیا پر شایع اور نشر ہونے والے مواد کا موضوعاتی تجزیہ کیا جائے تو یہ حقیقت روشن ہوتی ہے کہ بااثر افراد ، پولیس اور قانون نافذ کرنے والے افراد کی قانون شکنی اورمظالم کی فوٹیج پہلے سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں، پھر اخبارات نے شایع کیا اور الیکٹرونک میڈیا نے نشرکیا تو وزیر اعظم، وزرائے اعلی وغیرہ نے نوٹس لیا ،  سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس کے طریقہ کار کے تحت مظلوموں کی داد رسی کی۔ یوں بہت سے قانون شکن افراد کو سزائیں ملیں اور عوام کو یہ امید پیدا ہوئی کہ اس نظام میں انھیں بھی کوئی ریلیف مل سکتا ہے۔ سوشل میڈیا پر پیش کیے جانے والے مواد سے پہلے مذہبی دہشت گرد متاثر ہوئے۔

ان دہشت گردوں نے ان لوگوں کو نشانہ بنانا شروع کیا جو عقل ودانش کی بنیاد پر اپنے خیالات پیش کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ کئی افراد قتل ہوئے، کچھ پر متنازعہ قانون کے تحت کارروائی ہوئی مگر پوری دنیا ان واقعات سے متاثر ہوئی۔ اسٹیبلشمنٹ کو سوشل میڈیا پر ہونے والی بحث پر اعتراضات ہوئے۔ سوشل میڈیا پر لاتعداد مسائل پر بحث و مباحثہ ہوتا ہے۔ بہت سے مسائل فروعی ہوتی ہیں اور بہت سے حقائق سے بھرپور ہوتے ہیں۔ ایسے حقائق سے بھرپور جن کا سامنا کرنا ریاستی اداروں کے مفاد میں نہیں ہے، مگر یہ مباحث اس ملک کے عوام کے مجموعی مفاد میں ہیں، یوں اس سال کے اوائل میں کچھ بلاگرز اپنے گھروں سے لاپتہ ہوئے۔ ان میں اسلام آباد کے نفسیات کے پروفیسر بھی شامل تھے جن کی ترقی پسند شاعری حبیب جالب کی شاعری کی گھن گرج کی یاد تازہ کرتی ہے مگر اس وقت وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے جمہوری رویے کا ثبوت دیا۔ انھوں نے قانون کی بالادستی کو یقینی بنایا۔ اخبارات اور سوشل میڈیا پر بعض عناصر نے یہ پروپیگنڈیا کیا کہ بلاگرز توہین رسالت سے متعلق مواد کی ترویج میں ملوث ہیں مگر بعد میں خود وزیر داخلہ نے وضاحت کی کہ ان بلاگرز پر ایسا کوئی الزام نہیں تھا، یوں یہ بلاگرز رہا ہوئے۔

پاناما لیکس کے تناظر میں تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن کے جاں نثاروں میں سوشل میڈیا پر سخت بحث و مباحثہ ہونے لگا۔ یہ بحث و مباحثہ صرف تحریروں کا نہیں بلکہ مختلف شخصیتوں کی فوٹیج وائرل کرنے کا بھی ہے۔ ایسی بھی  فوٹیج سوشل میڈیا پر وائرل کی جاتی ہیں جن سے ان شخصیات کا امیج متاثر ہوتا ہے۔ یوں وزارت داخلہ حرکت میں آئی۔ سوشل میڈیا پر پیش کیے جانے والے  مواد کا تعلق عوام کے جاننے کے حق (Right to Know) سے منسلک ہے۔

پیپلزپارٹی کی سابق سربراہ بے نظیر بھٹو شہید اور مسلم لیگ کے نامزد کردہ موجودہ وزیر اعظم نواز شریف نے 2005ء میں لندن میں میثاق جمہوریت پر دستخط کیے تھے۔ اس میثاق میں یہ شق شامل تھی کہ جب بھی دونوں جماعتوں کو پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل ہوئی وہ عوام کے جاننے کے حق کے لیے آئین میں ترمیم کریں گی۔ سینیٹ کے موجودہ چیئرمین رضا ربانی ، وفاقی وزیرخزانہ اسحاق ڈار اور پورٹ اینڈ شپنگ کے موجودہ وزیر اور معروف رہنما غوث بخش بزنجو کے صاحبزادے میر حاصل بزنجو کی کوششوں سے ہونے والی 18ویں ترمیم میں آرٹیکل 19-A شامل کیا گیا۔ آرٹیکل 19-A میں عوام کے ریاستی اداروں میں جاننے کے حق کی توثیق کی گئی۔ آئین میں آرٹیکل 19 پہلے سے موجود ہے جو آزادئ صحافت کی ضمانت دیتا ہے۔ بدقسمتی سے جنرل پرویز مشرف کے دور میں وفاق میں اطلاعات کے حصول کا ایک قانون منظور ہوا تھا مگر یہ قانون آئین کے آرٹیکل 19-A کے مطابق نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سینیٹ میں 2008ء سے جاننے کے حق کے لیے ایک بہتر قانون بنانے کی کوشش ہورہی ہے۔

اب جو مسودہ سینیٹ میں زیر غور ہے وہ عوام کے جاننے کے حق کی مکمل طور پر تسکین نہیں کرتا ۔اس مسودے میں سرکاری دستاویزات کو پوشیدہ رکھنے کو ترجیح دی گئی ہے۔ جاننے کے حق پر تحقیق کرنے والے ایک معروف صحافی نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ اس مسودہ قانون میں پبلک انفارمیشن اور مستثنیٰ قرار دی گئی معلومات کی مبہم اور وسیع درجہ بندی کی گئی ہے۔ اس طرح متعلقہ حکام کو معلومات پوشیدہ رکھنے کا قانونی جواز مل جائے گا۔ اس مسودہ میں شق 7۔ ایف کے تحت عوام کے مفاد میں کسی بھی قسم کی معلومات کو روکنے کا اختیار حاصل ہے۔ یہ قانون اگر پارلیمنٹ سے منظور ہوا تو یہ میثاق جمہوریت کے منافی ہوگا۔ وزیر داخلہ نے پاکستان ٹیلی کمیونکیشن اتھارٹی کے سربراہ کو ہدایت کی ہے کہ وہ سوشل میڈیا کے لیے ضابطہ اخلاق بنائیں۔ اس اتھارٹی کا کام ٹیکنیکل نوعیت کا ہے۔

ضابطہ اخلاق پارلیمنٹ کو تیار کرنا چاہیے۔ ہر شہری کے خلوت کے حق (Right of Privacy) کے تحفظ کے لیے ہتک عزت کا قانون مؤثر ہونا چاہیے اور عدالتی طریقہ کارآسان، سستا اور جلد ہونا ضروری ہے۔انسانی حقوق کی سرگرم کارکن عاصمہ جہانگیر سوشل میڈیا پر پابندیوں کو آزائ صحافت اور جاننے کے حق کے منافی قرار دیتی ہیں۔ صحافیوں ، سول سوسائٹی اور سیاسی جماعتوں کا یہ متفقہ مؤقف ہے کہ ریاستی ادارے سوشل میڈیا سے منسلک افراد کو ہراساں نہ کریں اور عوام کے بنیادی حق کے لیے بہتر قانون سازی کی جائے۔

وزیراعظم نواز شریف کو اس حقیقت کو محسوس کرنا چاہیے کہ جدید ٹیکنالوجی کو محدود نہیں کیا جاسکتا۔ جمہوری حکومتیں جب عوام کے بنیادی حقوق کو غصب کرتی ہیں تو وہ خود اپنی جڑیں کمزور کرتی ہیں اور طالع آزماؤں  کے لیے راستے بناتی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔