وہ جو پی آئی اے تھی

عبدالقادر حسن  بدھ 31 مئ 2017
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

اداروں کی کامیابی یا ناکامی حکومت وقت کے مرہون منت ہوتی ہے، ریاست کا کام ادارے بنانا اور ان کو کامیابی سے چلانا ہے، اداروں کے ذریعے عوام الناس کو روزگار بھی ملتا ہے اور وہ ملکی ترقی میں اپنا کردار بھی ادا کرتے ہیں۔ ہمارے ملک میں کبھی تو کوئی حکومت ان اداروں کواپنا لیتی ہے اورکوئی حکومت ان کو لاوارث چھوڑ کر ابتری کی جانب گامزن کر دیتی ہے۔کچھ ایسا ہی حال ہماری قومی ایئر لائن کا بھی ہے ۔

پی آئی اے سے میرا پہلا تعارف اس کے عروج دنوں میں ہوا جب ایئر مارشل نور خان اور ایئر مارشل اصغر خان کے ہاتھ میں اس کی باگ ڈور تھی۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ میں ان دنوں نوائے وقت میں چیف رپورٹر تھا جب ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار سنبھالا تھا اور انھوں نے اپنے پہلے دورے کے لیے غالباً گیارہ ملکوں کا انتخاب کیا تھا میں بھی اس طوفانی دورے میںان کا ہم سفر تھا ۔ اس سفر کے لیے بھی طیارہ پی آئی اے کا ہی تھا اور پی آئی اے کے چیئر مین بھی ہمارے سفر کو مزید آرام دہ بنانے کے لیے ہمارے ہم سفر تھے۔ ان کے بعد بھی کئی حکمرانوں کے ساتھ غیرملکی دوروں میں ساتھ رہا اور روایت کے مطابق پی آئی اے ہی اپنا طیارہ فراہم کرتی۔ پی آئی اے کی پُر لطف پرواز اور میزبانی سے محظوظ ہوتے ہوئے خوش اخلاق عملہ ہمارے ان دوروں کے دوران ہماری مہمان نوازی کرتا اور بعض اوقات ہمارے ذریعے سے ملک کے حکمرانوں تک اپنے ادارے کی مزید بہتری کے لیے تجاویز بھی پہنچاتا تھا اور ہم ان کے پیغام رساں بن کر پی آئی اے کی بہتری کے لیے اپنے مشورے بھی شامل کر لیتے تھے۔

یہ پی آئی اے کے عروج کا زمانہ تھا جب دنیا بھر میں پی آئی اے سے سفر کرنے کو قابل فخر سمجھا جاتا تھا۔ اس ادارے کے محنتی کارکنوں نے اپنی اعلیٰ انتظامیہ کے شانہ بشانہ کام کر کے پاکستان کا نام دنیا کے کونے کونے تک پہنچایا اور بیرون ملک اپنے دفاتر اپنی کمائی سے خرید کردہ عمارتوں میں قائم کرنے کے علاوہ دنیا کے اہم ملکوں امریکا اور فرانس میں ہوٹل بھی اپنی ملکیت بنائے۔ امریکا میں پی آئی اے کی ملکیت روز ویلٹ ہوٹل کے بارے میں موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ میں اس ہوٹل کو خریدنا چاہتا تھا لیکن پاکستان کی ائر لائن نے اس کو مجھ سے چھین لیا، اس ڈیل کے نہ ہونے کا مجھے عمر بھر افسوس رہے گا۔ اس بات سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ پی آئی اے کی ماضی کی انتظامیہ کا کیا روشن دماغ تھا اور وہ اپنے ملک اور ایئر لائن سے کس قدر مخلص تھی۔

بیرون ملک رہنے والے پاکستانیوں کی پہلی ترجیح اپنی قومی ایئر لائن ہوتی ہے کیونکہ براہ راست سفری سہولت کا اپنا ایک الگ ہی نشہ ہے اور اس نشے کو پی آئی اے کا عملہ اپنی میزبانی سے دو آتشہ کر دیتا تھا۔ میرے تمام تر بیرونی سفر پی آئی اے سے ہیں کیونکہ جو اپنائیت اپنے طیاروں میں ملتی ہے وہ اور کہاں۔بقول شاعر

’’جو مزہ چھجو دے چوبارے اُو نہ بلخ نہ بخارے‘‘

اپنے ملک کے لوگوں کے ساتھ سفر کرنے کا ایک الگ ہی مزہ اور انداز ہوتا ہے جو کہ کسی اور ملک کے لوگوں کے ساتھ سفر کرنے میں نہیں مل سکتا کیونکہ آپ اپنے آپ کو ان میں اجنبی سمجھتے ہیں اور گھٹ کر سفر کرنے کا کیا فائدہ۔ لیکن کیا ہوا کہ بتدریج پی آئی اے کی سروس کی ابتری کی اطلاعات موصول ہونا شروع ہوئیں اور پھر آہستہ آہستہ نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ لوگوں نے کہنا شروع کر دیا ہے کہ پی آئی اے کی سروس اتنی خراب ہو چکی ہے کہ اس سے سفر کرنا اپنے پیسے کا زیاں ہے۔ یہ صورتحال کیوں پیدا ہوئی یا کن لوگوں نے پیدا کی اس کے بارے میں متضاد اطلاعات ملتی رہی ہیں۔کبھی تو اس ادارے کے اپنے ملازمین کو اس کا ذمے دار ٹھہرایا جاتا ہے اور کبھی یہ کہا جاتا ہے کہ سیاسی حکومتوں نے اس ادارے کو اپنے منظور نظر افراد کے ذریعے اس برے طریقے سے چلایا کہ پی آئی اے جو کبھی اس ملک کا قابل فخر ادارہ تھا عوامی پذیرائی سے محروم ہو گیا بلکہ کر دیا گیا۔

بیرون ملک رہنے والی پاکستانی جب اپنے ملک سے اداس ہوتے تو ایئر پورٹ پر جا کر پی آئی اے کے طیارے کو دیکھ کر وطن سے دوری کی پیاس بجھاتے اور اپنی اداسی دور کرتے تھے۔ وہ پی آئی اے سے پاکستان کے لیے سفر کو وطن سے پہلے وطن کی خوشبو سے تعبیر کرتے تھے کہ ان کو اپنے ملکی طیارے میں سوار ہوتے یہ محسوس ہوتا تھا کہ وہ پاکستان پہنچ چکے ہیں۔ میں آپ کو اپنے ذاتی احساسات بتاؤں تو وہ بھی کچھ اسی طرح کے ہیں۔

ادارے یکایک خراب نہیںہوتے ان کے پیچھے ایک لمبی داستان ہوتی ہے جو ان کی بربادی کا قصہ ہوتی ہے۔ پی آئی اے کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہے۔ اس نئے زمانے میں ہم نے اپنی ایئر لائن کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں کیا جس کی وجہ سے دوسرے ملکوں کی ایئر لائنوں نے پی آئی اے کے مسافروں کو اپنی جانب راغب کر لیا اور اب اطلاعات کے مطابق یہ صورتحال بن گئی ہے کہ ہمارے اپنے پاکستانی مسافر ان غیر ملکی ایئر لائنوں کو ترجیح دینے لگے ہیں۔ اس کی وجوہات وہی ہیں کہ بتدریج قومی ایئر لائن کے طیاروں کی حالت کو اس مقام پر پہنچا دیا گیا کہ اس کے بعد اس کی سروس مسافروں کے لیے بے معنی ہو کر رہ گئی اورہم وقت کے ساتھ مقابلے کی اس دوڑ میں پیچھے رہ گئے حالانکہ اگر اس کی بہتری کی کوشش کی جاتی تو وہ ممکن تھی ۔

آج کل آئے روز پی آئی اے کے طیاروں کے ذریعے ہیروئن اسمگلنگ کی خبریں میڈیا کی زینت بن رہی ہیں جو ملکی بدنامی کاباعث بھی ہیں اور اس ادارے کے رہے سہے وقار کو بھی ختم کر رہی ہیں۔ ادارے کے اندر اور اس سے منسلک ان لوگوں کا پتہ چلانے کی ضرورت ہے جو پی آئی اے کے ذریعے اس مذموم کاروبار میں ملوث ہیں اور پی آئی اے اور پاکستان کی بدنامی کا سبب بن رہے ہیں۔

موجودہ حکومت نے پہلے پی آئی اے کے امور کی ذمے داری ہمارے دوست طارق عظیم کے بھائی شجاعت عظیم کو سونپی جنھوں نے ابتدائی طور پر قومی ایئر لائن کے فضائی بیڑے میں طیاروں کی شمولیت کو یقینی بنایا کیونکہ ان کے بغیر ایئر لائن کا کاروبار ممکن نہ تھا۔ انھوں نے ایئر لائن کی سیدھی سمت میں اڑان کو ممکن بنایا ہی تھا کہ عدالتی حکم پر ان کو ذمے داری سے فارغ ہونا پڑا۔ ان کے بعد اب اس ایئر لائن کو اڑانے کی بھاری ذمے داری وزیر اعظم کے قریبی ساتھی سردار مہتاب عباسی کے ناتواں کندھوں پر ڈال دی گئی اور خبروں کے مطابق انھوں نے پی آئی اے کے ارباب اختیار میں ایئر لائن کو دوبارہ سے درست سمت میں رواں کرنے کے لیے تبدیلیاں شروع کر دی ہیں۔

وہ پی آئی اے کی ناقص کارکردگی کا دفاع کرنے کے بجائے اس میں اصلاحات پر زور دے رہے ہیں جو اس قومی اہمیت کے اہم ادارے کے لیے ایک اچھا اور نیک شگون ہے کیونکہ اصلاحات ہی پی آئی اے کی کارکردگی کو بہتر بنا سکتی ہیں اور اس کے ناراض مسافروں کو دوبارہ سے واپس لا سکتی ہیں، یہ قومی ایئر لائن کی بقاء کے لیے ضروری ہے۔ ہماری حکومت کو نیلی پیلی ٹرینوں پر سرمایہ کاری کے ساتھ دنیا بھر میں قومی وقار کی علامت پی آئی اے کی عظمت رفتہ کو بھی بحال کرنا ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔