آئیے احمق بن جاتے ہیں

آفتاب احمد خانزادہ  بدھ 31 مئ 2017

پاکستان میں آج کل احمقوں کا مکمل راج قائم ہوگیا ہے، آپ کو وہ باآسانی بڑے سے بڑے ایوانوں، ہاؤسز اور بڑے بڑے اداروں کی بڑی بڑی کرسیوں پر براجمان دکھائی دیے جاسکتے ہیں اور اس دیدہ دلیری کے ساتھ وہ سارے ملک میں دندناتے پھرتے ہیں کہ عقل و دانش رکھنے والے انھیں دیکھتے ہی سرپٹ دوڑ لگانے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔

ہم اس لحاظ سے بھی انتہائی خوش نصیب واقع ہوئے ہیں کہ تقریباً پوری دنیا سے ناپید یہ انسانی مخلوق صرف اور صرف پاکستان میں ہی باآسانی دیکھنے، سننے کو نصیب ہے، لیکن ایک زمانے میں پوری دنیا اس مخلوق سے دوچار تھی، پھر وہ ناپید ہوتے ہوتے اب صرف پاکستان تک محدود ہوکر رہ گئے ہیں۔ آپ چاہیں کتنی ہی کیوں نہ کوششیں کرلیں لیکن پھر بھی آپ احمقوں سے نہیں بچ سکتے، آپ کی تمام کوششیں اس لیے بے سود ہوجاتی ہیں کہ آپ تو ہر ممکن ان سے بچنے کی اپنی سی کوشش کررہے ہوتے ہیں لیکن وہ خود آپ سے آکر ٹکرا جاتے ہیں، اس لیے اگر آپ ان سے بچنے کی کوشش کررہے ہیں تو آج ہی سے اپنی کوششیں ترک کردیں، کیونکہ آپ کو زندگی بھر احمقوں سے واسطہ پڑتا رہے گا۔ ان کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ آپ ان سے بچ نہیں سکتے۔ وہ فرنیچر اور دیگر اشیاء کی طرح ہماری زندگی کا لازمی جزو ہیں۔ ہم سب کے اندر بھی ایک احمق چھپا ہوتا ہے۔

ہماری زندگی میں بھی ایسے اوقات آتے ہیں جب ہم فہم و فراست کا دامن چھوڑ کر اپنی انا کے غلام بن جاتے ہیں، فوری مفاد کے لالچ میں آ جاتے ہیں۔ یہ ہی انسانی فطرت ہے۔ اپنے اندر حماقت کی موجودگی کا احساس ہونے کے بعد ہمیں دوسروں کی حماقت کو بھی قبول کرنا چاہیے۔ اگر آپ ایسا کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو پھر آپ کو ان کی حماقتوں سے لطف اندوز ہونے اور ان کے وجود کو برداشت کرنے کا موقع ملے گا اور آپ کبھی انھیں تبدیل کرنے کی حماقت نہیں کریں گے۔ دراصل یہ لوگ انسانی فطرت کے مزاحیہ اور طربیہ روپ ہوتے ہیں، ان کے لیے پریشان ہونے یا نیندیں حرام کرنے کی قطعی ضرورت نہیں۔ آپ ایسے لوگوں کو قائل کرکے اپنا حامی بناسکتے ہیں، نہ ان کے رویے تبدیل کرسکتے ہیں۔ لافانی شاعر سوفو کلیس نے کہا تھا کہ ’’سوچ سے پرہیز، بہتر زندگی کی ضمانت ہے‘‘۔ آئیں اس مخلوق کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔

1511ء میں ڈیریئس اراسمس نے The Praise of Folly لکھی، جو پیرس سے شایع ہوئی۔ اس کتاب کی مقبولیت کا ثبوت یہ ہے کہ اراسمس کی زندگی میں ہی اس کے 36 ایڈیشن یورپ کی مختلف زبانوں میں شایع ہوئے۔ اراسمس نے کتاب لکھتے وقت اصل مقصد کی تشریح یوں کی ’’چونکہ پوری نسل انسانی کامل جنون و سودا پر مصر ہے، پوپ سے مسکین دیہاتی پادری تک، اہل ثروت سے قلاشوں تک، ریشم اور اطلس میں ملبوس خواتین سے معمولی سوتی لباس پہننے والی عورتوں تک، غرض ساری دنیا خدا کی عطا کردہ عقل کے خلاف کاربند رہنے پر تلی بیٹھی ہے، سب لوگ لالچ، خودبینی اور جہالت کو رہنما بنائے رکھنا چاہتے ہیں، کوئی شخص عقل و دانش کے نام پر بتائے، چند ارباب فہم و ذکا کیوں اپنا وقت اس سعی بے حاصل میں صرف کررہے ہیں کہ انسانوں کو بدل کر ایسا بنادیں جیسے وہ بننا نہیں چاہتے۔

بہتر یہ ہے کہ انھیں حماقتوں میں مگن رہنے دیا جائے، ان سے وہ چیز نہ چھینو جو تمام دوسری چیزوں کے مقابلے میں ان کے لیے زیادہ باعث تسکین ہے، وہ ان کی سب سے بڑی صلاحیت ہے یعنی اپنے آپ کو احمق اور بے وقوق بنائے رکھنا‘‘۔ وہ اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ ’’میرے احمقوں کو یہ پروا بالکل نہیں ہوتی کہ ایسی لغویات کو جنھیں عام طور پر بے حیائی تصور کیاجاتا ہے یا تو وہ اپنی بدنامی سے ناواقف ہوتے ہیں اور اگر واقف ہوں بھی تو اسے باآسانی نظر انداز کر ڈالتے ہیں، اگر آپ کے سر پر ایک بھاری پتھر آگرے تو یقیناً آپ کے لیے اچھا نہ ہوگا، لیکن شرم، بدنامی، لعن طعن اور دشنام کی حد برداشت خود متعین کرتے ہیں، اگر آپ انھیں نظر انداز کردیں تو یہ سب آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے‘‘۔

ہوریس نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ’’سارے مجمع کی طرف سے دھتکار پھٹکار کی آپ کو کیا پروا، جب تک آپ اپنے کہے پر خود داد دے سکیں تو آپ محفوظ رہیں گے، لیکن صرف حماقت ہی ایسا ممکن بناسکتی ہے‘‘۔ سچ تو یہ ہے کہ ایک طاقتور شہنشاہ بھی ان سے اتنا خوش ہوتا ہے کہ نہ ان احمقوں کے بغیر ناشتہ کرتا ہے، نہ دربار میں داخل ہوتا ہے، بلکہ ان کے بغیر ایک گھنٹہ بھی نہیںگزار سکتا۔ یوری پیڈس اپنے مشہور قول میں ہمارے بارے میں کہتا ہے کہ ’’احمق احمقوں کی طرح بولے گا‘‘۔ جو کچھ ایک احمق کے دل میں ہوتا ہے وہ ہی کچھ اس کے چہرے اور زبان پر ہوتا ہے۔

کوئی شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ سچ سننے پر حاکموں کے کان جھنجھنا اٹھتے ہیں، لہٰذا وہ عقل مندوں کو دور رکھتے ہیں، ان کو تو یہ خوف لاحق ہوتا ہے کہ کہیں ان میں سے کوئی ایسا منہ پھٹ نہ ہو کہ میٹھی بات کہنے کے بجائے کھرا سچ بول دے۔ یہ صحیح ہے کہ بادشاہ سچ کو گورا نہیں کرتے، لیکن میرے احمقوں کے پاس ایک ایسی لاجواب صلاحیت ہوتی ہے، جس سے نہ صرف وہ سچ بول کر لطف جگاتے ہیں بلکہ صریح لعنت و ملامت میں بھی مسرت کا عنصر جگا سکتے ہیں، جو اگر کسی سیانے کے منہ سے نکلے تو وہ اپنی جان ہی گنوا بیٹھے، جب کہ ایک احمق کے منہ سے نکل کر بے شمار مسرتوں کا باعث بنتا ہے‘‘۔

’’اور میں ان اعلیٰ درباریوں کے بارے میں کیا کہہ سکتی ہوں کہ ان کی اکثریت خوشامدی، غلامانہ، بیزارکن اور ذلیل ہوتی ہے، پھر بھی وہ ہمیں باور کروانا چاہتے ہیں کہ وہ سماج کا بہترین عنصر ہیں، تاہم ایک لحاظ سے وہ سب منکسر المزاج ہوتے ہیں، وہ اپنے تن پر سونے، قیمتی پتھروں، قرمزی رنگ کی شاہی پوشاک اور نیک اوصاف کی دوسری علامتیں سجائے رکھتے ہیں، جب کہ اوصاف حمیدہ کی مشق دوسروں کے لیے اٹھائے رکھتے ہیں، وہ اپنے آپ کو خوش قسمت جانتے ہیں کہ بادشاہ کو ’’اے خداوند‘‘ بلا کر اس پر ’’ظل ظلیل‘‘ ’’ظل الٰہی‘‘ اور ’’ظل عنایت‘‘ جیسے اعزازی القاب سے نوازتے ہیں۔

وہ نصف نہار تک بستر پر سوتے رہتے ہیں، اٹھنے پر کوئی ایک کرائے کا ٹٹو پادری بن کر ان کے بستر کے پاس تیار کھڑا ہوتا ہے اور جلدی جلدی عشائے ربانی کی رسم ادا کرتا ہے، جب کہ ان کی آنکھیں نیند سے ابھی آدھی بند ہوتی ہیں جب وہ ناشتے پر ٹوٹ پڑتے ہیں، جس کے ختم کرتے کرتے دوپہر کے کھانے کا وقت ہوجاتا ہے، اس کے بعد پانسہ اور شطرنج کی بازیاں لگتی ہیں، فالیں نکالی جاتی ہیں، مسخروں، احمقوں اور فاحشاؤں سے کھیلا جاتا ہے اور پھکڑ لطیفہ بازی چلتی ہے‘‘۔

ماضی کے دنیا بھر کے اور ہمارے حال کے احمق ایک ہی جیسی سوچ رکھتے ہیں اور ایک ہی جیسا سوچتے ہیں اور ایک ہی جیسی حرکتیں کرتے ہیں، نہ وہ کبھی ماضی میں بے روزگار رہے ہیں اور نہ ہی آج ہمارے ہاں بے روزگار ہیں، کل بھی عیش و آرام میں تھے اور آج بھی عیش و آرام میں ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ تاحیات ہی عیش و عشرت میں رہیں گے۔ اس لیے آئیں عقل و دانش پر لعنت بھیجیں اور احمق بن جاتے ہیں، اس لیے کہ عیش و عشرت کی زندگی بسر کرنے کا کچھ حق ہمارا بھی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔