سندھی صوبے کا غیرسندھی دارالخلافہ

سردار قریشی  منگل 30 مئ 2017

کراچی کو سندھ سے الگ کرنے کی سیاست کو کچلا جاچکا ہے اور اب یہ معاملہ ہمیشہ کے لیے ختم ہوچکا ہے۔ یہ بات پچھلے دنوں ہونے والے کراچی ادبی میلے کے تیسرے دن ’’کیا پاکستان کا جگمگانے والا شہرکراچی اب بھی جگمگاتا ہے‘‘ کے زیر عنوان اجلاس میں سندھ اور کراچی کے درمیان سیاسی رشتے پر بحث کرتے ہوئے حارث گزدر نے کہی، جو سماجی سائنس کی اجتماعی تحقیق کے ادارے کے ڈائریکٹر اور سینئر محقق ہیں۔

ان کی تقریر کے بعد بیچ لگژری کا یاسمین ہال مجمع کے شور سے گونج اٹھا۔گزدر کے بقول، بڑے لوگ بدستورکراچی پر راج کررہے ہیں اور سیاسی رشتہ ہنوزطے نہیں ہو سکا، اگرچہ اس معاملے پرکی جانے والی سیاست کچلی جاچکی ہے۔ انھوں نے کہا کہ کچی آبادیوں پر بہت زیادہ طبقاتی جدوجہد جاری ہے اورکراچی سرکلر ریلوے کی بحالی سے اس میں مزید اضافہ ہوگا۔ دریں اثناء شہری منصوبہ سازعارف حسن نے شہرکی ترقی کے لیے سیاست کو بے حد اہم قرار دیا اورکہا کہ کراچی اس مسئلے کا سامنا کرنے والا واحد شہر نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اب کراچی سندھی بولنے والے صوبے کا سندھی نہ بولنے والا دارالحکومت  ہے۔ سندھی آبادی مرکزیت پسند طرز حکومت کے ذریعے شہر کو کنٹرول کرنا چاہتی ہے جب کہ بندرگاہ والے اس شہرکی اردو بولنے والی آبادی انتہائی غیر مرکزیت پسند طرز حکومت کے ذریعے اس کا کنٹرول چاہتی ہے۔ ان کے خیال میں اس کشیدگی کا کوئی حل نکالنا پڑے گا، بمبئی کو بھی یہی مسئلہ درپیش ہے جس کی مقامی آبادی اقلیت میں ہے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ اس مسئلے کا حل کیا ہے تو انھوں نے کہا اس موضوع پر نظریاتی لٹریچر موجود ہے۔ تھائی لینڈ میں، یہ مسئلہ مذاکرات کے ذریعے تقریبا حل کرلیا گیا تھا مگر فوج نے مداخلت کرکے مذاکرات ختم کرادیے۔

اس پر سفارتکار نجم الدین شیخ نے نشاندہی کی کہ کراچی کے برعکس بمبئی میٹروپولیٹن کو تمام تر بلدیاتی اختیارات حاصل ہیں۔اورنگی پائلٹ پروجیکٹ کی عقیلہ اسماعیل نے کہا کہ اختیارات کی مرکزیت ختم کیے بغیر شہرکے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ اس سوال پرکہ کیا کشیدگی کم کرنے کے لیے سندھ کا دارالحکومت  کہیں اور منتقل کیا جا سکتا ہے، حسن نے جواب دیا کہ بطور دارالحکومت کراچی کا سندھ سے ایک تعلق ہے۔ جب اسلام آباد کو وفاقی دارالحکومت بنایا گیا تو کیا ہوا۔انھوں نے کہا ’’میری رائے میں،کراچی سندھ کا دارالحکومت ہے اور رہنا چاہیے۔‘‘ گزدرکا مزید کہنا تھا کہ کراچی اس لحاظ سے پاکستان کا انتہائی منفرد شہر ہے کہ یہاں مسائل سیاسی طور پر مارکیٹ کی قوتوں کے ذریعے حل کیے جاتے ہیں، جب کہ اسلام آباد اور لاہور جیسے شہروں میں انتظامی طور پر مسائل کا حل نکالا جاتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس شہر کی انفرادیت یہ ہے کہ سیاست اور مارکیٹ کی قوتیں مل کر اس کے مسائل حل کرتی ہیں۔ حسن نے کہا، ایک طرف بیشمار پلاٹ خالی پڑے ہیں تو دوسری جانب سیکڑوں بلند وبالا عمارتیں تعمیر ہورہی ہیں۔ انھوں نے پوچھا کیا یہی ترقی ہے جو شہر کے مستقبل کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے؟ انھوں نے مزید کہا بندر گاہ والے اس شہر میں 2011ء میں 28 ہزار منی بسیں چلتی تھیں جو 2016ء میں گھٹ کر 9 ہزار رہ گئیں۔ کیا روشنیوں سے جگمگانا اسی کوکہتے ہیں۔ اس پر سامعین بے اختیار ہنس پڑے۔ انھوں نے مسکراتے ہوئے کہا میں اس عدم توازن کی بہت سی اور مثالیں بھی دے سکتا ہوں، اگر یہ ترقی ہے تو اس کی بڑی بھاری قیمت ادا کرنی پڑ رہی ہے۔

آٹھویں کراچی ادبی میلے کا دوسرا خاص ’ایونٹ‘ وہ اجلاس تھا جس کا موضوع تھا ’دو قوموں کا جنم‘۔ اس میں یہ سوال زیر بحث رہا کہ تقسیم کے نتیجے میں دو قومیں وجود میں آئیں یا دو ملک؟ بحث میں حصہ لینے والوں میں مورخ عائشہ جلال، امن کے لیے کام کرنے والے سیاسی کارکن سید حسن خان اور تاریخ کے پروفیسر راجر لانگ شامل تھے۔ عائشہ جلال کا موقف تھا کی تقسیم دو قوموں کی نہیں دو ملکوں کی ہوئی تھی۔ انھوں نے کہا مسلمان ایک قوم ہیں جو آدھے سے زیادہ بھارت ہی میں رہ گئے۔ اس غلطی کی ذمے دارکانگریس بھی تھی۔

اب وہ مختلف قوموں کا ملک ہے۔ انھوں نے محمدعلی جناح کا سوال دہراتے ہوئے کہ ’’کلکتہ کے بغیر بنگال کی حیثیت کیا ہے؟‘‘کہا وہ پاکستان سے زیادہ خوش نہیں تھے اور تقسیم میں ان کی رضامندی شامل نہیں تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ دراصل  بنگلہ دیش سمیت تین ملکوں کا جنم تھا۔ جناح کے پاس تقسیم کو قبول کرنے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہ تھا۔ انھوں نے اپنی بات اس طنزیہ جملے پہ ختم کی کہ پاکستان تو محمد بن قاسم کی آمد کے وقت ہی وجود میں آ گیا تھا۔ لانگ کے بقول پاکستان کے بانی بہت سے ہیں۔ ان کی رائے میں جناح کی تحریک کے پیچھے کچھ اسباب کار فرما تھے جن میں سب سے اہم واحد ترجمان بننا اور کانگریس سے سرزد ہونے والی بڑی غلطیاں تھیں۔ لانگ کا استدلال تھا کہ پاکستان کے بیج نے پھل اس وقت دیا جب مسلم لیگ نے کانگریس کے برابر اختیارات مانگے، اگرکانگریس میں شراکت اقتدار کا مسئلہ نہ ہوتا تو ایسا ہونا ناممکن تھا۔

عائشہ جلال بولیں یہ کہنا غلط ہے کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جو برصغیر کے مسلمانوں کے لیے بنا۔ انھوں نے پاکستان کو مسلمانوں کے لیے چھتری قرار دیا۔ ان کے برعکس خان کی رائے تھی کہ تقسیم مسلمانوں کی بحیثیت قوم ہوئی تھی جو جناح پر مسلط کردی گئی۔ ان کے بقول یہ در اصل مسلمانوں کی تقسیم تھی۔ جلال کا کہنا تھا کہ یہ ہمارا وطن ہے، ہمیں یہ ملک دینے کے لیے شکر گزار ہونا چاہیے۔ باقی جہاں تک سیاست کا تعلق ہے تو وہ ممکنات کا آرٹ ہے۔

ادبی میلے کا ذکر اس بحث مباحثے کی بات کیے بغیر ادھورا رہے گا جس کا موضوع تھا ’’علاقائی اور قومی شناخت۔‘‘ ماحولیات کے ماہر مسعود لوہار نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے اس وقت سب کو چونکا دیا جب انھوں نے کہا کہ ہم مربوط کرنے والی صدی میں رہ رہے ہیں اور اگلے 15 برسوں میں، یہ عمل مثالی ہوگا جس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ پنجابی، ہندکو، پوٹوہاری اور سرائیکی زبانیں سندھی رسم الخط میں لکھی جائیں گی۔ نامور شاعرہ اور کہانی نویس نور الہدیٰ شاہ نے بھی اس بحث میں حصہ لیا جب کہ اسے آگے بڑھانے کے فرائض عطیہ داؤد نے انجام دیے۔

انھوں نے علاقائی اور قومی زبانوں میں فرق کے ذکر سے بحث کا آغازکیا اورکہا کہ علاقائی زبانوں کی تاریخ ہزاروں سال پرانی ہے جب کہ قومی زبان کی شناخت صرف 70 برس قبل کرائی گئی تھی جسے اردو کہتے ہیں۔ انھوں نے سوال کیا کہ اردو شاعری میں نام پیدا کرنے والے فیض احمد فیض اور احمد فراز اگر اپنی مادری زبانوں پنجابی اور پشتو کو ذریعہ اظہار بناتے تو کیا ان کے مداحوں اور قدر دانوں کا دائرہ زیادہ وسیع نہ ہوتا۔ نور الہدیٰ شاہ کا کہنا تھا کہ ایسی کسی تقسیم کا کوئی وجود نہیں جو کسی لکھاری کو اس کے لسانی تشخص سے جدا کر سکے۔ لہذا یہ کہنا صحیح نہیں کہ اگر وہ اردو میں نہ لکھتیں اور صرف اپنی مادری زبان سندھی کو ذریعہ اظہار بناتیں تو شاید آج کی طرح نہ جانی پہچانی جاتیں۔ انھوں نے کہا کہ قومی ترانے کے سوا کچھ بھی قومی نہیں ہے جب کہ اس قومیت کی وجہ سے ہم دھرتی سے رشتہ نہیں جوڑ سکے،’’بات تب تک نہیں بنے گی جب تک ہم اپنی بات چیت میں سندھ اور کراچی کی اصطلاح ترک کرکے پاکستان اور سندھ کہنا شروع نہیں کریں گے۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔