ہیوسٹن سے

جاوید چوہدری  جمعرات 1 جون 2017
www.facebook.com/javed.chaudhry

www.facebook.com/javed.chaudhry

ٹیکساس امریکا کی سب سے بڑی اور قدرتی وسائل سے مالا مال ریاست ہے‘اسٹیٹ سے روزانہ تین اعشاریہ چھ ملین بیرل تیل نکلتا ہے‘ اس نے پچھلے سال 980 ملین بیرل تیل پروڈیوس کیا‘ بش فیملی اسی ریاست سے تعلق رکھتی ہے‘ یہ ریاست دنیا کی بارہویں بڑی اکانومی بھی ہے‘ہیوسٹن ٹیکساس کا سب سے بڑا شہر ہے‘ جمعہ 26مئی کو ہیوسٹن میں کاروان علم فاؤنڈیشن کا چیریٹی ڈنر تھا‘ میں لاس اینجلس سے ہیوسٹن پہنچا جب کہ شکور عالم صاحب نیوجرسی سے وہاں تشریف لائے‘ یہ سارا فنکشن ریاض بابر نے ڈیزائن کیا تھا‘ یہ امریکا میں ٹیلی ویژن چینل چلاتے ہیں اور خاصے بااثر اور مقبول صحافی ہیں‘ ہیوسٹن کھلا ڈھلا گرم مرطوب شہر ہے‘ لوگ بہت اچھے ہیں‘ یہ مطمئن اور ٹینشن فری ہیں‘ کسی کو کوئی جلدی نہیں ہوتی‘ گھر بڑے اور سستے ہیں‘ تعلیم بھی عام اور معیاری ہے‘ کراچی کے زیادہ تر لوگ ہیوسٹن میں آباد ہیں‘ وجہ شاید ہیوسٹن کی آب و ہوا ہے۔

یہ آب و ہوا کراچی سے ملتی جلتی ہے چنانچہ لوگ ہیوسٹن اور کراچی کو ’’ٹوئن سٹیز‘‘ کہتے ہیں‘ہیوسٹن کے پاکستانی پڑھے لکھے ہیں‘ یہ بات غور اور دلچسپی سے سنتے ہیں‘ پاکستانی خواتین بھی ایکٹو ہیں‘ ان کا اپنا گروپ ہے اور یہ اس گروپ کے تحت مختلف کام کرتی رہتی ہیں‘شہر میں فنکشنز اور گیٹ ٹو گیدر کا کلچر بھی ہے‘ لوگ میل ملاقات کے بہانے تلاش کرتے رہتے ہیں‘ چیریٹی ڈنر کے دوران کسی صاحب نے پوچھا ’’ہم اپنے ملک کے بچوں کے لیے کیا کر سکتے ہیں‘‘ میں نے عرض کیا ’’آپ اگر سال کے گیارہ سو ڈالر الگ کر لیں تو پاکستان میں میڈیکل کے ایک طالب علم کی فیس ادا ہو سکتی ہے‘ آپ پانچ سال میں ساڑھے پانچ ہزار ڈالر دے دیں‘ وہ طالب علم پورا ڈاکٹر بن جائے گا‘‘ فاؤنڈیشن کی ویب سائٹ پر اڑھائی سو طالب علموں کے نام تھے‘ ہم نے ہال میں موجود خواتین وحضرات سے درخواست کی آپ ان میں سے ایک ایک طالب علم کو ’’اون‘‘ کر لیں‘ یہ نوجوان اپنی تعلیم پوری کر لیں گے‘ لوگوں نے طالب علموں کو ’’اون‘‘ کرنا شروع کر دیا‘ ہمیں نیویارک کی طرح یہاں سے بھی اچھا ریسپانس ملا‘ خواتین کے گروپ نے اعلان کیا پاکستان میں اگر پانچ معذور بچیاں تعلیم حاصل کرنا چاہیں تو ہم ان کی تعلیم کے اخراجات برداشت کریں گی‘ سجاد برکی ہیوسٹن کی مشہور شخصیت ہیں۔

یہ پاکستان تحریک انصاف کے صدر بھی ہیں اور عمران خان کے نمل یونیورسٹی کے ڈونر بھی‘ یہ آگے بڑھے اور انھوں نے لاء کے ایک طالب علم کو اون کر لیا‘ میں آگے جانے سے قبل سیالکوٹ کے نوجوانوں سے ایک درخواست کرتا چلوں‘ سیالکوٹ کے وہ نوجوان جو قانون کی تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ فیس ادا نہیں کر سکتے وہ کاروان علم فاؤنڈیشن سے رابطہ کریں‘ نیویارک کے ایک صاحب شکیل احمد بھلی نے ایسے دس طالب علموں کو سپورٹ کرنے کا اعلان کیا ہے‘ یہ خود سیالکوٹ کے رہنے والے ہیں چنانچہ یہ سیالکوٹ کے بچوں کو وکیل بنانا چاہتے ہیں‘ اسی طرح نیویارک کے ڈاکٹر انعام الحق کی بیگم فیصل آباد کے دو نوجوانوں کو وکیل بنوانے کے لیے تیار ہیں لیکن ان کی ایک شرط ہے‘ یہ نوجوان وکیل بننے کے بعد ضرورت مندوں کا کیس مفت لڑیں گے‘ ہیوسٹن کے چائے گروپ نے بھی لاء کالج کے دو طالب علم اون کرنے کا اعلان کیا‘ فاؤنڈیشن کو براہ راست فنڈ بھی ملے۔

ہیوسٹن میں ایک انتہائی دلچسپ صاحب سے ملاقات ہوئی‘ ان کا نام طاہر جاوید ہے‘ یہ لاہور کے رہنے والے ہیں‘ والد سرکاری ملازم تھے‘ بڑے بھائی شاہد جاوید 1980ء کی دہائی میں امریکا آئے‘ یہ چھ ماہ کے لیے بھائی کے پاس آئے اور پھر امریکا کے ہو کر رہ گئے‘ بزنس اسٹارٹ کیا اور کمال کر دیا‘ یہ پیدائشی بزنس مین ہیں‘ یہ امریکا کے ان ایک فیصد لوگوں میں شمار ہوتے ہیں جنھیں امیر کہا جا سکتا ہے‘ یہ مختلف نوعیت کے کاروبار کرتے ہیں لیکن ان کا بڑا کاروبار اسپتال ہیں‘ یہ دو درجن کے قریب پرائیویٹ اسپتالوں کے مالک ہیں‘ یہ مختلف اسپتالوں کو طبی آلات بھی فراہم کرتے ہیں اور مہارت بھی‘ یہ اس کے علاوہ موبائل ایکسیسریز اور پراپرٹی کے کاروبار سے بھی وابستہ ہیں‘ طاہر جاوید کاروبار کے ساتھ ساتھ امریکی سیاست میں بھی حصہ لیتے ہیں‘ یہ امریکا کے تازہ ترین الیکشنوں میں ہیلری کلنٹن کے قریبی ساتھیوں میں شامل تھے۔

ہیلری کے ساتھ پورے امریکا کا دورہ بھی کیا اور پاکستانی کمیونٹی کی طرف سے بھاری فنڈز بھی لے کر دیے‘ یہ ہیلری کلنٹن کے ذاتی جہاز میں ان کے ساتھ ہوتے تھے‘ یہ ہیوسٹن سے دو گھنٹے کی مسافت پر رہتے ہیں‘ ہم ان کی دعوت پر گزشتہ روز ان کے شہر گئے‘ یہ انتہائی ہنس مکھ اور قہقہہ باز قسم کی شخصیت ہیں‘ دوسروں کو بور نہیں ہونے دیتے‘ میں سمجھتاہوں دنیا میں صرف دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں‘ دلچسپ اور بور‘ طاہر جاوید ایک دلچسپ انسان ہیں‘ آپ ان کی کمپنی کو انجوائے کرتے ہیں‘ ہم ان کے ساتھ پانچ گھنٹے بیٹھے رہے اور وقت گزرنے کا احساس تک نہ ہوا‘ طاہر جاوید نے الیکشن کی آخری رات کے بارے میں بتایا ’’ہمیں اپنی کامیابی کا سو فیصد یقین تھا‘ ہم نے نیویارک میں ایک ملین ڈالر کی آتش بازی کا بندوبست کر رکھا تھا‘ بس نتائج کا اعلان ہونا تھا اور پورا نیویارک بقہ نور بن جاتا جب کہ دوسری طرف ڈونلڈ ٹرمپ پچاس وکیل لے کر بیٹھے تھے‘ یہ لوگ ہارنے کے بعد مختلف ریاستوں میں الیکشن سسٹم کو چیلنج کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے لیکن پھر اچانک پانسہ پلٹ گیا‘ نتائج نے توقع کو بھی حیران کر دیا‘ یہ نتائج ہم سب کے لیے حیران کن تھے‘ میری بیگم کو ’’پینک اٹیک‘‘ ہوگیا۔

میں انھیں اسپتال میں داخل کرانے پر مجبور ہوگیا‘ اگلے دن ہیلری کلنٹن نے بڑی مشکل سے تقریر کی‘ انھیں مناسب الفاظ نہیں مل رہے تھے‘ وہ اسٹیج سے نیچے آئیں اور میرے ساتھ کھڑی ہو گئیں‘ وہ مجھے تسلی دے رہی تھیں اور میں انھیں حوصلہ دے رہا تھا‘ ہیلری نے تسلیم کیا گزشتہ رات اس کی زندگی کی مشکل ترین رات تھی‘ دوسری طرف ڈونلڈ ٹرمپ بھی حیران تھا‘ وہ جیتنے کے لیے میدان میں نہیں اترا تھا‘ وہ صرف صدارتی امیدوار بننا چاہتا تھا شاید اسی لیے اس نے صدارتی مہم کے دوران ہر وہ بے وقوفانہ وعدہ کر لیا جو پورا کرنا اب ممکن نہیں‘‘۔ میں نے پوچھا ’’کیا ہیلری کلنٹن سیاست سے تائب ہو گئی ہیں‘‘ طاہر جاوید نے فوراً جواب دیا ’’ہرگز نہیں‘ یہ اگلا الیکشن لڑیں گی‘ یہ بہت اچھی فائٹر ہیں‘ مجھے یقین ہے یہ اگلی بار ضرور کامیاب ہوں گی‘‘ میں نے ان سے پوچھا ’’ٹرمپ میں کون سی ایسی خوبی تھی جس کی وجہ سے لوگوں نے انھیں ووٹ دیا‘‘ اس سوال پر طاہر جاوید نے بڑا خوبصورت تبصرہ کیا‘ ان کا کہنا تھا ’’آپ اگر عمران خان اور ملک ریاض دونوں کو ایک مشین میں ڈال دیں تو دوسری طرف سے ڈونلڈ ٹرمپ نکلے گا‘‘ میں نے پوچھا ’’کیسے؟‘‘ وہ بولے ’’ڈونلڈ ٹرمپ بھی عمران خان کی طرح تھکتے نہیں ہیں‘ یہ ٹرمینیٹر کی طرح دوبارہ اٹھ کر دوڑ پڑتے ہیں۔

یہ لگے رہتے ہیں‘ آپ اسی طرح اگر ملک ریاض کو نیویارک لے آئیں یا پھر ڈونلڈ ٹرمپ کو پاکستان لے جائیں تو یہ دونوں چند ماہ میں پورے ملک کا نظام اپنے ہاتھ میں لے لیں گے‘‘ طاہر جاوید نے ڈونلڈ ٹرمپ کے بزنس ماڈل کی مثال دی‘ ان کا کہنا تھا نیویارک میں ٹرمپ ٹاور ہے‘ یہ ٹاور58منزل ہے‘ ٹاور کے نیچے دس فلور شاپنگ سینٹرز اور دفاتر کے لیے وقف تھے‘ ان سے اوپر رہائشی بلاک تھا‘ خریداروں نے نیچے کے دس بلاک بھی خرید لیے اور 20ویں منزل سے اوپر کے تمام بلاک بھی بک گئے لیکن دس اور بیس منزل کے درمیان کے دس بلاک بچ گئے‘ ٹرمپ نے مارکیٹنگ ٹیم سے وجہ پوچھی‘ پتہ چلا لوگ شاپنگ ایریا کے قریب رہنا پسند نہیں کرتے چنانچہ یہ بلاک نہیں بک رہے‘ ٹرمپ نے قہقہہ لگایا اور کہا ہم ٹاور کی دس منزلیں نہیں بنائیں گے‘ آپ یہ دس منزلیں ٹاور کے اوپر شفٹ کر دیں اور بیچ دیں‘ مارکیٹنگ کے لوگوں نے بھی قہقہہ لگایا اور دس منزلیں ٹاپ پر شفٹ کر دیں‘ یوں ٹرمپ ٹاور امریکا کی واحد عمارت ہے جس میں دسویں منزل کے بعد  20ویں منزل شروع ہو جاتی ہے۔

یہ حقیقتاً 48منزلہ عمارت ہے لیکن اس کے فلورز کے نمبر 58 تک جاتے ہیں‘‘ طاہر جاوید کا کہنا تھا آپ کمال دیکھئے ٹرمپ نے اسلامی دنیا کے خلاف تقریریں کر کے ووٹ حاصل کیے لیکن اپنا پہلا دورہ سعودی عرب کا کیا اور سعودی عرب سے 110 بلین ڈالر بھی کھینچ لیے‘ کیا یہ کمال نہیں؟ امریکی صدر اس وقت امریکا میں ٹرمپ ٹاور کی فرنچائز بھی دے رہے ہیں‘ ملک کا کوئی بھی بزنس گروپ دس فیصد دے کر ملک کے کسی بھی حصے میں ٹرمپ ٹاور بنا سکتا ہے‘ میں نے قہقہہ لگاکر عرض کیا ’’انشاء اللہ اب ٹرمپ مسٹر ٹین پرسنٹ کہلائیں گے‘‘ طاہر جاوید نے بھی قہقہہ لگایا‘ میں طاہر جاوید سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا‘ یہ حقیقتاً ایک مختلف اور نئے شخص ہیں‘ ڈریسنگ کی بہت اچھی حس رکھتے ہیں‘ خوش مزاج ہیں اور نشانے کی طرح اچھے اور بروقت فیصلے کرتے ہیں‘ یہ پنجاب حکومت کے ساتھ مل کر پانچ ہزار اسکول چلانے کا منصوبہ بنا رہے ہیں‘ یہ تعلیم کا ماڈرن طریقہ ہو گا‘ یہ لوگ اسکولوں میں ’’آئی پیڈ‘‘ لے کر آئیں گے اور بچوں کو ان کے ذریعے تعلیم دیں گے‘ یہ منصوبہ اگر کامیاب ہو گیا تو یہ بھی ایک انقلاب ہو گا۔

ہیوسٹن میں مجھے ناسا جانے کا اتفاق بھی ہوا‘ یہ بھی ایک انوکھا تجربہ تھا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔