کیڑے کو جاسوس ڈرون میں تبدیل کرنے کا کامیاب تجربہ

ویب ڈیسک  جمعرات 1 جون 2017
ڈریپر کی جانب سے تیار کی گئی ڈریگن فلائی ۔ فوٹو: بشکریہ ڈریپر کمپنی

ڈریپر کی جانب سے تیار کی گئی ڈریگن فلائی ۔ فوٹو: بشکریہ ڈریپر کمپنی

میری لینڈ: مائیکرو الیکٹرانکس کی آمد سے اب چھوٹے کیڑے مکوڑوں پر الیکٹرانک آلات چسپاں کر کے ان سے نگرانی اور جاسوسی کا کام لیا جا رہا ہے اور اب ایک کمپنی چھوٹے سے ڈریگن فلائی (بھنبھیری) پر الیکٹرانک آلات لگا کر اسے خاص کاموں کے لیے تیار کیا ہے۔ 

امریکا میں ہارورڈ ہیوز میڈیکل انسٹی ٹیوٹ اور ڈریپر نامی کمپنی کے ماہرین نے برقی حشرات (سائبرنیٹک انسیکٹس) کے ضمن میں ایک نیا انقلابی قدم اُٹھایا ہے اور اس کے لیے بھنبھیری میں بعض جینیاتی تبدیلیاں کی گئی ہیں تاکہ وہ خاص سمت میں پرواز کرسکے۔

اس سے قبل بھنوروں اور ٹڈوں پر جو تحقیق کی گئی ہیں ان پر ایک سے ڈیڑھ گرام وزنی برقی سامان لے جانے کی گنجائش پیدا کی گئی تھی لیکن اُن میں نیوی گیشن سسٹم شامل نہیں تھا جس کی وجہ سے ان کیڑوں کو کسی خاص سمت میں اڑانا ایک مسئلہ ہوتا تھا اور انہیں وائرلیس کی مدد سے ہدایات دی جاتی تھیں۔

ڈریپر نے ایک نئی تکنیک استعمال کی ہے جسے اوپٹوجنیٹکس کا نام دیا گیا ہے۔ اس میں کسی کیڑے میں اس طرح جینیاتی تبدیلیاں کی جاتی ہیں کہ وہ کسی سمت اڑ سکیں یا روشنی کی سمت پر ردعمل ظاہر کر سکیں اور اس طرح کیڑے پر مزید نیوی گیشن سامان ڈالنے کی ضرورت نہیں رہتی۔

اوپٹوجنیٹک کے ذریعے ڈریگن فلائی کی پشت پر چھوٹے سولر پینلز لگائے گئے ہیں جو کیڑے کو ازخود اڑنے میں مدد دیتے ہیں، اس طرح بھنبھیری کو بہت آسانی سے ایک خاص سمت میں پرواز پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔ ایک سال تک آزمائش کے بعد اب ماہرین اس قابل ہو گئے ہیں کہ برقی سامان کے ساتھ ڈریگن فلائی کو مخصوص بلندی اور سمت میں اڑاسکیں لیکن یہ پہلا قدم ہے، اگلے مرحلے میں اسے ڈیٹا جمع کرنے اور جاسوسی کے لیے استعمال کیا جائے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔