صدر مملکت کا خطاب

ایڈیٹوریل  جمعـء 2 جون 2017
صدر مملکت کا پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب در حقیقت ’’مقابلہ تو دل ناتواں نے خوب کیا‘‘ کی استقامت کا مظہر تھا۔ فوٹو: پی آئی ڈی

صدر مملکت کا پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب در حقیقت ’’مقابلہ تو دل ناتواں نے خوب کیا‘‘ کی استقامت کا مظہر تھا۔ فوٹو: پی آئی ڈی

صدر ممنون حسین نے کہا ہے کہ خطے کے امن و امان کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بھارت ہے اور اس نے دہشتگردی اور جاسوسی سے حالات خراب کیے ہیں۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے دوران صدر مملکت نے کہا کہ سیاسی عمل کو افراتفری اور گروہی مفاد سے آزاد ہونا چاہیے، اختلاف رائے غیر فطری نہیں لیکن یہ خیر کا باعث ہونا چاہیے۔

پاکستان میں جمہوریت نے کئی نشیب و فراز دیکھے، جمہوریت نے قوم کی ترقی کی کئی منازل طے کی ہیں۔ پارلیمنٹ نے مشکل حالات میں قومی اتحاد کا ثبوت دیا جس کی وجہ سے تاریخ اس پارلیمنٹ کا کردار ہمیشہ یاد رکھے گی۔ صدر مملکت نے کہا کہ ترقی کے دھارے میں سب کو شامل کیا جانا ضروری ہے، پیچھے رہ جانے والوں کو قومی دھارے میں لانے کا احساس قوی ہو رہا ہے، بلوچستان کا احساس محرومی ختم کرنے کے اقدامات جاری ہیں۔ معاشرے کا ہر طبقہ قومی تعمیر نو میں حصہ ڈالے۔

صدر مملکت کا پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب در حقیقت ’’مقابلہ تو دل ناتواں نے خوب کیا‘‘ کی استقامت کا مظہر تھا، مشترکہ اجلاس جمعرات کو اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی صدارت میں صبح 11 بجے ہوا، صدر کا مشترکہ اجلاس سے یہ پانچواں خطاب تھا، خطاب کے ساتھ ہی موجودہ قومی اسمبلی کا پانچواں پارلیمانی سال شروع ہو جائے گا۔ مسلح افواج کے سربراہان، غیر ملکی سفارتکاروں اور دیگر شخصیات نے مہمان گیلری میں اجلاس کی کارروائی دیکھی۔ صدر کے خطاب کے موقع پر اپوزیشن نے شدید احتجاج کیا۔

جس کے باعث ایوان صدر مملکت کی تقریر کے دوران ’’گو نواز گو‘‘ کے پر شور نعروں سے گونجتا رہا، بعد ازاں اپوزیشن نے اجلاس سے واک آؤٹ کیا، قبل ازیں قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے اپوزیشن جماعتوں کا اجلاس طلب کیا۔

میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے خورشید شاہ نے کہا اس استدلال کا سہارا لیا کہ گزشتہ 4 سال میں صدر نے ایک بار بھی قومی معاملہ پر بات نہیں کی جب کہ پارلیمنٹ میں انتشار ہے، ان کا کہنا تھا حکومت نے فاٹا کے مسئلہ پر پارلیمانی کمیٹی بنائی اور معاملہ پارلیمنٹ میں آیا تو اسے واپس لے کر فاٹا کے عوام کے ساتھ سنگین مذاق کیا۔ بہرحال اپوزیشن کو احتجاج کا جمہوری حق حاصل ہے تاہم صدر مملکت کے خطاب کے دوران بدمزگی، نعرہ بازی، شور شرابہ سے بہتر یہی تھا کہ ان کا خطاب سنجیدگی سے سنا جاتا، ان کے خطاب کو کئی دن تک موضوع بحث بنایا جا سکتا ہے۔

بس اپوزیشن تھوڑا سا انتظار کر لیتی اور صدارتی خطاب کے بعد پریس کانفرنس یا کسی اور مناسب فورم پر اپنے کتھارسس اور غبار خاطر کا وسیلہ ڈھونڈ سکتی تھی، کیونکہ ایوان میں کسی نئے جمہوری رویے کی جھلک تو نظر نہیں آئی، جب کہ ضرورت ملکی سیاست میں ٹھہراؤ، برد باری اور سنجیدگی کی ہے، ملک کو سنگین سیاسی اور سماجی چیلنجز درپیش ہیں جو محض جذبات پرستی اور شعلہ نوائی سے حل نہیں ہونگے۔

یاد رہے اسی پارلیمنٹ میں غیر ملکی مدبرین مثلاً احمد سوئیکارنو، یاسر عرفات، ملکہ الزبتھ، چینی صدر و وزیر اعظم، ترکی کے صدور کنعان ایوران اور رجب طیب اردوان، ایرانی صدر ہاشمی رفسنجانی، اور فرانس کے صدر فرانکوئی متراں جیسے دیگر زعما بھی خطاب کر چکے ہیں۔ پارلیمنٹ کا تقدس برقرار رکھنا پارلیمنٹیرینز کا مشن ہونا چاہیے۔

اپنے خطاب میں ملک کی معاشی صورت حال پر روشنی ڈالتے ہوئے صدر نے کہا کہ پاکستان جنوبی ایشیا کی اہم معیشتوں میں شامل ہو چکا ہے، مہنگائی کم جب کہ شرح نمو 10 سال کی بلند ترین سطح پر ہے، عالمی بینک نے بھی پاکستان کو بہترین کارکردگی والی معیشتوں میں سے ایک قرار دیا ہے، صدر کی ہدایت بجا تھی کہ صحت اور تعلیم کے شعبوں میں مزید توجہ کی ضرورت ہے، برآمدات میں اضافے کے لیے مسئلے کا حل نکالا جائے، زراعت معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے لیکن زراعت کے شعبے کو سب سے بڑا چیلنج موسمیاتی تبدیلی ہے، موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کے لیے عالمی سطح کی منصوبہ بندی ضروری ہے۔

پاک بھارت تعلقات پر ان کا کہنا تھا کہ ہمارے دنیا کے کسی بھی ملک کے خلاف جارحانہ عزائم نہیں، بھارت کے ساتھ تمام مسائل حل کرنا چاہتے ہیں، خطے کے امن و امان کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بھارت ہے، بھارت نے دہشتگردی اور جاسوسی سے حالات خراب کیے، صدر نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان بنیادی مسئلہ جموں و کشمیر ہے۔ بھارت کشمیریوں پر مسلسل مظالم ڈھا رہا ہے، انھوں نے بھارت کے جارحانہ طرزعمل کی سخت مذمت کی اور کہا مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کیا جائے۔صدر مملکت کا منتخب حکومت کے لیے یہ آخری پیغام تھا۔ سیاست میں اختلاف رائے کی بڑی اہمیت ہے۔

بانیٔ قوم محمد علی جناح کا قول ہے کہ ’’اگر آپ باہمی تعاون سے امور مملکت چلائیں گے، ماضی اور اختلافات کو دفن کر دیں گے تو کامیابی آپ کے قدم چومے گی۔‘‘ اس آفاقی نصیحت کی گونج کہیں نہ کہیں ضرور سنائی دینی چاہیے تاکہ عالمی برادری کو یقین آ جائے کہ پاکستان میں اہل سیاست عاقبت نا اندیش فیصلوں کے گرداب میں پھنسے ہوئے نہیں ہیں۔ ہم زندہ قوم ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔