کچھ نیا کرنا پڑے گا!

ایاز خان  جمعـء 2 جون 2017
ayazkhan@express.com.pk

[email protected]

کامیابی کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ ایک ہی طریقہ واردات کا بار بار استعمال نہ کیاجائے۔ مارکیٹ کا بھی اصول ہے کہ اس میں اپنی پوزیشن قائم رکھنے کے لیے اپنے اسٹائل میں جدت پیدا کرنا پڑتی ہے۔ ن لیگ مرکز میں تیسری بار اقتدار میں ہے مگر وہ اپنے اسٹائل میں جدت نہیں لاسکی۔ اقتدار کے موجودہ دور میں ایک ہی ٹرینڈ ہے جو بار بار دکھائی دیتا ہے۔ حکومت یا وزیراعظم جب بھی مشکل میں پھنستے ہیںیاپھنسے ہوئے نظر آتے ہیں ایک ایکسکلوسیو خبر چھپوائی جاتی ہے۔ خبر کا فالو اپ چھپوانے سے پہلے اس پر دو تین ٹاک شوز کروائے جاتے ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ یہ اہتمام بھی کیا جاتا ہے کہ تمام ہم خیال جید صحافی اور میڈیا مین شایع کرائی گئی خبر کے مرکزی نکتے پر بات کریں۔ ن لیگ کی میڈیا ٹیم کی کارکردگی کی تعریف کرنا پڑے گی کہ یہ اپنے مقصد کے حصول کے لیے تمام دستیاب ذرایع بروئے کار لاتی ہے۔ بڑے بڑے سینئر صحافی جب اپنے ’’محبوب قائد‘‘ کو بچانے کے لیے دلائل دینے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں تو وہ کئی بار خاصے مضحکہ خیز لگ رہے ہوتے ہیں۔ نیوز لیکس تو خیر سب سے بڑا کارنامہ تھا جسے مدتوں یاد رکھا جائے گا، مگر چھوٹے موٹے کارنامے بھی ساتھ ساتھ جاری رہتے ہیں۔ تازہ ترین خبر رجسٹرار سپریم کورٹ کے حوالے سے چھپوائی گئی ہے۔ اعتراز احسن نے اس خبر کو پلانٹڈ قرار دیا ہے۔ دیگر کئی خبروں کی طرح یہ بھی ایک ایسی ہی خبر ہے۔ ایجنڈا نیوز چھپوانا اس حکومت کا خاصا رہا ہے۔

خبر چھپنے سے پہلے اور بعد کی صورتحال کا جائزہ لیں تو بہت کچھ واضح ہو جائے گا۔ سپریم کورٹ کے حکم پر جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) کی تشکیل عمل میں آئی تاہم اس ٹیم کے کچھ ارکان نے حکومت کواپ سیٹ کر دیا تھا۔ خواہش تو یہ تھی کہ کچھ اس قسم کے افراد اس جے آئی ٹی کے بھی ارکان ہوں جس طرح کے نیوز لیکس کی انکوائری کمیٹی میں شامل تھے۔ سپریم کورٹ نے یہ کوشش کامیاب نہیں ہونے دی اور ان ارکان کا انتخاب کیا جو وائٹ کالر کرائمز کی تفتیش میں مہارت رکھتے ہیں۔ یہیں سے معاملہ گڑ بڑ ہو گیا۔

وہ جو دعویٰ کرتے تھے یہ رہے سارے ثبوت، انھیں جب منی ٹریل پیش کرنے کا کہا گیا تو وہ گڑ بڑا گئے۔ ن لیگ کو جب یقین ہوگیا کہ اب ان ارکان کی تبدیلی کاامکان نہیں ہے تو پھر سیکیورٹیز ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کے بلال رسول اور اسٹیٹ بینک کے عامر عزیز پر اعتراضات شروع کر دیے گئے۔ ان دونوں پر یہ الزام لگا کہ انھوں نے وزیراعظم کے کزن طارق شفیع کو ہراساں کیا ہے۔

وزیراعظم کے برخوردار حسین نواز سے بھی اچھا برتاؤ نہ کرنے کی شکایت کی گئی۔ حسین نواز ان دونوں ارکان کو جے آئی ٹی سے نکلوانے کے لیے سپریم کورٹ پہنچ گئے۔ سپریم کورٹ نے دلائل سننے کے بعد جے آئی ٹی کو تبدیل کرنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔ ایک طرف جے آئی ٹی کے اجلاس، دوسری طرف وزیروں، مشیروں اور ترجمانوں کی شعلہ بیانیاں، سب ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔ اسی دوران پہلے ایک خبر اور پھر اگلے دن اس خبر سے بھی زیادہ نمایاں اس کا فالو اپ۔ اس کو کہتے ہیں مکمل ہوم ورک کے بعد کارروائی ڈالنا۔ اور پھر سینیٹر نہال ہاشمی کی بھی دبنگ انٹری۔ مشاہد اللہ خان کے بعد نہال ہاشمی بھی آتش میں بے خطر کود پڑے۔ 28مئی کو انھوں نے کراچی میں یوم تکبیر کی کسی تقریب سے خطاب میں ایسے للکارے مارے کہ چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار کو ازخود نوٹس لینا پڑا۔

پتہ نہیں تین دن یہ تقریر کس محفوظ جگہ پڑی ہوئی تھی۔ 31مئی کو یہ اچانک سوشل میڈیا کی زینت بنی ، وہاں سے پرائیویٹ چینلز نے اٹھائی اور پھر یہ اٹھتی چلی گئی۔ ساری اسکرینوں پر نہال ہاشمی کی اس تقریر کاقبضہ ہو گیا۔ موصوف نے وزیراعظم اور ان کے بچوں کا احتساب کرنے والوں کے بچوں اور خاندان پر زمین تنگ کرنے کی دھمکی دے ڈالی۔ سپریم کورٹ نے ریمارکس دیے کہ بچوں کو دھمکیاں دہشت گرد دیتے ہیں۔ نہال ہاشمی کہتے ہیں ان کا ٹارگٹ کوئی ادارہ نہیں تھا۔ شیخ رشید بھلے کہتے رہیں کہ نہال ہاشمی کا ڈائریکٹر نوا ز شریف ہیں۔

ہمارے لیے ایسا کہنا ممکن نہیں ہے۔ ہم صرف اتفاقات کی بات کر سکتے ہیں۔ راحیل شریف آرمی چیف تھے تو حکومتی زعماء جب تلملا اٹھتے تھے توتب کوئی بات کی جاتی تھی توٹارگٹ فوج ہوا کرتی تھی۔ پانامہ کا کیس سپریم کورٹ میں گیا تو فیصلہ کرنے والوں کومخفی اور کھلی دھمکیاں دینے کا سلسلہ شروع ہوا۔ صوبائی وزیر نے کہا کہ نواز شریف کے خلاف فیصلہ آیا تو عوام تسلیم نہیں کریں گے،وفاقی وزیر بولے وزیراعظم کی کتاب کا کوئی صفحہ غائب نہیں ہے۔ ممکن ہے یہ محض اتفاق ہی ہو کہ جب بھی کوئی ایسی صورتحال بنتی ہے جس میں وزیراعظم اور ان کا خاندان مشکل میں ہوتا ہے تو کوئی وزیر یا مشیر اپنا ری ایکشن دیتا ہے تو لوگوں کویوں لگتا ہے کہ وہ شاید کسی ادارے کو دھمکی دے رہا ہے۔ممکن ہے اس کا یہ مطمع نظر نہ ہو۔

وزیراعظم اور ان کے خاندان کے لیے اس سے زیادہ مشکل صورتحال اور کیا ہو سکتی ہے کہ حسین نواز گھنٹوں پر محیط تین پیشیاں بھگت چکے ہیں، چوتھی کے لیے بلوا لیا گیا ہے۔ جے آئی ٹی نے آج حسن نواز کو بھی طلب کر رکھا ہے۔ اس کے بعد خاندان کے کن افراد سے تفتیش ہوگی اس بارے میں محض قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں۔

خاندان کے ساتھ ساتھ دیگر افراد بھی پیش ہو رہے ہیں۔ کسی نے کہا تھا کہ جے آئی ٹی نے نیشنل بینک کے صدر کو کیوں طلب کیا ہے۔ جواب دینے والے نے بتایا کہ بھائی نیشنل بینک کے صدر کو نہیں سعید احمد کو طلب کیا گیا تھا۔ یہ وہی سعید احمد ہیں جن کا نام غالباً اتفاق سے اسحاق ڈار کے اعترافی بیان میں شامل ہو گیا تھا۔ اس میں بتایا گیا تھا کہ منی لانڈرنگ کس کے ذریعے ہوتی رہی۔ یہ اعترافی بیان بھی اب جے آئی ٹی کے سامنے ہے۔ جے آئی ٹی کو تبدیل کرانے یا کچھ ارکان کو نکلوانے کی کوشش فی الحال ناکام ہو گئی ہے۔ اس اسٹیج پر کوئی حربہ کامیاب ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔

ن لیگ نے اپنے مقصد میں کامیاب ہونا ہے تو نئی حکمت عملی اختیار کرنا ہو گی۔ پرانی چالیں اب لوگ پہچاننے لگے ہیں۔ پٹاری میں سے کچھ نیا نکالنا پڑے گا۔ ٹوئیٹ تو واپس ہو گیا تھا کیونکہ وہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔ اب واپس ہونے کے لیے کچھ نہیں۔ بات آگے بڑھتی نظر آتی ہے۔ لیکن بات کہاں تک جائے گی؟ کون جانے!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔