بجٹ کو عوام دوست کیسے بنایا جائے؟

مہ ناز رحمن  جمعـء 2 جون 2017

ہمارے جیسے ملکوں میں جہاں اقتدار پر صرف اشرافیہ کا حق ہو، وہاں عوام دوست پالیسیوں اور عوام دوست بجٹ پر بات کرنا ایک کار لاحاصل لگتا ہے ، مگر آج کل دنیا کے بہت سے ممالک میں ’شراکتی بجٹ‘ اور عوام دوست اور غریب دوست بجٹ پر نہ صرف بات ہو رہی ہے بلکہ اس کے لیے مختلف اقدامات  بھی کیے جارہے ہیںاور یہ امید پیدا ہو چلی ہے کہ اخراجات اور آمدنی کے ذرایع کو غریب نواز بنایا جا سکتا ہے۔ شراکت جمہوریت کا بنیادی عنصر ہے۔آج کل بجٹ کو غریب دوست بنانے کے لیے اقتصادی پالیسی میں شہریوں کی، این جی اوز اورسول سوسائٹی کی دیگر تنظیموں کی شراکت کی بات کی جاتی ہے۔

بجٹ میں شہریوں کی شراکت کی کئی شکلیں ہوسکتی ہیں۔ یہ براہ راست بھی ہوسکتی ہے یعنی باخبر شہری اکٹھے ہوں، مالی ترجیحات پر بحث کریں اور اپنے نتائج پالیسی سازوں کو بھیج دیں ۔یہ بالواسطہ بھی ہوسکتی ہے ، یعنی شہری ارکان پارلیمنٹ کو منتخب کریں اور وہ اس پر بحث کریں۔ گزشتہ پندرہ بیس سالوں میں یہ تصور عام ہوا ہے کہ ترقی کے لیے اچھی حکمرانی یا گڈگورننس ضروری ہے۔اچھی حکمرانی کے لیے احتساب اور شفافیت ضروری ہے۔اس کے بعد قانون کی حکمرانی اور شہریوں کی شراکت کی باری آتی ہے۔

پاکستان میں بڑھتی ہوئی صارفیت کی وجہ سے اقتصادی بڑھوتری تو نظر آتی ہے لیکن اسے ترقی نہیں کہا جا سکتا، اس کے لیے ضروری ہے کہ قومی بجٹ کے ذریعے وسائل کو اس طرح مختص کیا جائے کہ قومی آمدنی اور پیداوار میں اضافے کے ساتھ روزگارکے مواقعے، غربت کے خاتمے اور ہمہ گیر ترقی جیسے اہم سماجی مقاصدکو بھی حاصل کیا جا سکے،اگر ایک عام شہری بجٹ کے ذریعے اپنے بنیادی سماجی اوراقتصادی حقوق حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا ہے تو بجٹ اچھا قرار پائے گا ورنہ نہیں۔ہمارے بجٹ میں جاری اخراجات کے لیے زیادہ رقم مخصوص کی جاتی ہے اور سرمائے کے اخراجات اور سماجی سرمایہ کاری پرکم توجہ دی جاتی ہے۔

ایک عوام دوست بجٹ وہ ہوگا جس میں روزگارکے مواقعے پیدا کرنے پر زیادہ توجہ دی جائے اور میکرو اکنامک استحکام کو فروغ دیا جائے۔ مالیاتی پالیسی ایسی ہو جو آمدنی پیدا کرنے کے مواقعے میں اضافہ کرے اورایسے شعبوں پر توجہ دے جس میں غریب لوگ زیادہ تعداد میں کام کرتے ہیں۔ان علاقوں پر بھی توجہ دی جائے جہاں غریب لوگ رہتے ہیں، اس بات کا بھی دھیان رکھا جائے کہ یہ لوگ عام طور پرغیرہنر مند ہوتے ہیں اورانہیں تین وقت کا کھانا بھی میسر نہیں ہوتا۔ غربت میں کمی کے لیے پائیداراقتصادی ترقی ضروری ہے اور اس کے لیے غریب مردوں اور عورتوں کا براہ راست اس عمل میں شامل ہونا اور اس سے مستفید ہونا ضروری ہے۔

غیر ترقیاتی اخراجات کے ساتھ طویل المعیاد ترقیاتی کاموں کے لیے رقم مختص کرنا بھی ضروری ہے، جیسے انفرا اسٹرکچر، صحت اور تعلیم پر۔اس بات کے خاطر خواہ شواہد موجود ہیںکہ بنیادی سماجی خدمات (صحت، غذائیت، تعلیم)  پرکیے جانے والے اخراجات کا نتیجہ ملکی ترقی کی صورت میں نکلتا ہے۔ 1990 کے عشرے سے ڈونرممالک بھی اس بات پر زور دے رہے ہیںکہ ہمارے جیسے مقروض ممالک کو اپنے بجٹ کا بڑا حصہ غریبوں کے لیے خرچ کرنا چاہیے۔ ملینیم ڈیولپمنٹ مقاصد کے ذریعے بھی اس کی حوصلہ افزائی کی گئی،اگر حکومت اپنے ہیلتھ سسٹم میں سرمایہ کاری کرتی ہے تو وہ اپنے شہریوں کا بنیادی حق پورا کرتی  ہے۔اسی طرح شہریوں کی غذائیت کا دھیان رکھنے سے بھی ملکی ترقی میں مدد ملتی ہے۔

ماں اور بچے کی صحت کے لیے کی جانے والی سرمایہ کاری سے شرح اموات میں کمی ہوتی ہے۔ ہر بچے کو مفت اور لازمی پرائمری تعلیم کی فراہمی سے بڑھ کر غریب دوست اقدام اورکیا ہوسکتا ہے۔اسی طرح سماجی تحفظ کے لیے بھی سرمایہ کاری ضروری ہے۔اسی طرح اقتصادی بڑھوتری میں اضافے کے لیے کی جانے والی سرمایہ کاری (مثال کے طور پر انفراسٹرکچر، زراعت اور نجی شعبے کی ترقی کے لیے کی جانے والی سرمایہ کاری )  بہت اہمیت رکھتی ہے۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے اورشہریوں کی فلاح اور ترقی میں زراعت کا بڑا ہاتھ ہے۔زرعی شعبے میں تحقیق وترقی اورغذائی فصلوں پرکی جانے والی سرمایہ کاری غربت کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔اسی طرح انفرا سٹرکچر جیسے ٹرانسپورٹ، ٹیلی کمیونیکیشن ،خاص طور پر سڑکیں بنانے سے اقتصادی افزائش اور غربت میں کمی میں مدد ملتی ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ اب دنیا بھر میں بجٹ کو عورت دوست  یا صنفی حساسیت  پر مبنی بنانے کا مطالبہ بھی کیا جارہا ہے۔اس ضمن میں سب سے پہلے جنوبی افریقہ میں اختراعی اصلاحات کی گئیں۔اس میں مختلف اخراجات کے لیے رقومات مختص کرتے ہوئے صنفی تناظرکو ملحوظ رکھا جاتا ہے اورصنفی مساوات کے مقاصد کے حصول کے لیے حکومت نے قومی اور بین الاقوامی سطح پر جو وعدے اور معاہدے کیے ہوتے ہیں،ان پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جاتا ہے۔اس حوالے سے بجٹ میں مخصوص کی جانے والی رقومات کا جائزہ لینے میں غیرسرکاری تنظیمیں بھی اہم کردار ادا کرتی ہیں۔

پاکستان میں ماہرین یہ مطالبہ کرتے چلے آ رہے ہیں کہ ایک بجٹ ریگولیٹری اتھارٹی بنائی جائے۔تعلیم، صحت اور روزگار کے مواقعے پیدا کرنے کے لیے زیادہ رقوم مختص کی جائیں، ٹیکس کے نظام میں اصلاحات کی جائیں۔ ہمارا ٹیکس کا نظام غریبوں اور عام شہریوں پر بوجھ ڈالتا ہے اور امیروں کو فائدہ پہنچاتا ہے جب کہ ترقی یافتہ ممالک میں اس کے برعکس کیا جاتا ہے۔ ہماری سیاسی قوتیں اشرافیہ کے مفادات کا دھیان رکھتی ہیںکیونکہ وہ خود بھی اسی طبقے سے تعلق رکھتی ہیں۔عوام کو چاہیے کہ اس استحصالی نظام کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔ برازیل، چلی،کوسٹا ریکا، ماریشس اورآئرلینڈ میں غریبوں کے لیے بجٹ بنانے کا آغازہوچکا ہے۔

اس وقت امریکا جیسے ملک میں بھی ویلفئیر ریفارم  اورغربت کے بارے میں کام ہورہا ہے اورماہرین نے بنیادی فیملی بجٹ بنانا شروع کردیے ہیں۔ مقصد یہ دیکھنا ہے کہ اپنی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ایک خاندان کوکتنی آمدنی درکار ہوتی ہے۔اس طرح کے بجٹ فلاحی اصلاحات، گزارے کے لیے کم ازکم اجرت اورملازمت کے لیے تربیتی مواقعے سمیت غربت کے خاتمے کے لیے کیے جانے والے اقدامات میں اہم ثابت ہوتے ہیں اورغربت کے سرکاری معیارات کو بہتر بنانے میں مدد ملتی ہے۔بنیادی فیملی بجٹ میں مارکیٹ۔باسکٹ اپروچ استعمال کی جاتی ہے۔

سب سے پہلے تو یہ دیکھا جاتا ہے کہ ایک مناسب معیار زندگی برقرار رکھنے کے لیے ایک محنت کش خاندان کوکن کن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ پھر ان چیزوں کی قیمت کا تعین کیا جاتا ہے۔ بظاہر یہ سادہ سی بات لگتی ہے لیکن بات اتنی سادہ بھی نہیں ہے۔مثال کے طور پرٹرانسپورٹ کے اخراجات کو لیجیے، کچھ بسوں میں،کچھ رکشا، ٹیکسی میں اورکچھ اپنی کار میں کام پر جاتے ہیں۔چار افراد پر مشتمل گھرانے کوکتنے بیڈرومز والا گھر چاہیے؟ایک بچے کی پرورش پر بنیادی ضرورتوں کے حساب سے کتنا خرچہ آتا ہے۔کیا ٹی وی بنیادی ضرورت ہے یا برے وقتوں کے لیے پیسا بچا کے رکھنا چاہیے۔دوسرے الفاظ میں چیزوں کا انتخاب اوران کی قیمت بہت سے نظریاتی اورطریقہ کارکے مسائل کو جنم دیتی ہے۔

اب اگر امریکا میں بھی غربت اوردیگر اقتصادی مسائل کی وجہ سے ہا ہا کار مچنے لگی ہے تو ایک مرتبہ لوگوں کو پھرکارل مارکس یاد آنے لگا ہے۔ جس نے آج دنیا میں غریبوں اورامیروں کے درمیان بڑھتی ہوئی عدم مساوات کی بہت پہلے پیشگوئی کی تھی۔طبقاتی جدوجہد لوٹ آئی ہے۔ دنیا بھرکے مزدوروں میں غم وغصہ بڑھ رہا ہے اوروہ عالمی معیشت سے اپنا جائزحصہ مانگ رہے ہیں۔امریکی کانگریس سے لے کر ایتھننزکی گلیوں اور جنوبی چین کے اسمبل کرنیوالے کارخانوں سے لے کر پاکستان اور بنگلہ دیش اورہندوستان کے مزدور اورکسان کے ساتھ پیش آنے والے واقعات سرمائے اور محنت کے درمیان اس بڑھتی ہوئی کشیدگی کے آئینہ دار ہیں جس کی مثال ماضی کے اشتراکی انقلابوں کے سوا اور کہیں نہیں ملتی۔

اس کشمکش کے اثرات دور رس ہوں گے جو عالمی اقتصادی پالیسی کی سمت ، رفاہی ریاست کے مستقبل، چین کے سیاسی استحکام اور واشنگٹن سے روم تک کس کی حکمرانی ہوگی جیسے فیصلوں پر اثرانداز ہوں گے۔آج اگر مارکس زندہ ہوتا توکیا کہتا؟ نیو یارک کے نیو اسکول کے مارکسی ماہراقتصادیات رچرڈ وولف کے مطابق وہ کچھ اسی طرح کی بات کہتا’’ میں نے کہا تھا نا‘‘۔ ’’آمدنیوں میں فرق نے جس قدرکشیدگی پیدا کی ہے، وہ اپنی زندگی میں، میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھی‘‘ امریکا میں مختلف اقتصادی طبقوں کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی واضح طور پر دیکھی جاسکتی ہے ۔

معاشرہ دو حصوں میں بٹ چکا ہے،ایک طرف ننانوے فی صد عام لوگ ہیں جو زندہ رہنے کے لیے جدوجہد کررہے ہیں، دوسری طرف ایک فی صد لوگ ہیں جو بارسوخ اورمراعات یافتہ ہیں اور ہرگزرتے ہوئے دن کے ساتھ امیر سے امیر تر ہوتے جارہے ہیں۔ یہ نئی طبقاتی جدوجہد فرانس میں اور زیادہ شدت پکڑچکی ہے۔ یورپ میں دیگر پالیسی ساز بھی بجٹ خسارے کوکم کرنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔ ہولینڈے میں انکم ٹیکس میں بے پناہ اضافہ زیرغور ہے۔ یہ سب کچھ اس بات کا ثبوت ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام انتہائی غیر منصفانہ اورغیرفعال ہوچکا ہے، اگر محنت کشوں اور غریبوں کوان کا جائز حصہ نہیں دیا گیا تو ہم سب وہ دن دیکھیں گے جس کا وعدہ ہے جو لوح ازل میں لکھا ہے، جب راج کرے گی خلق خدا جو میں بھی ہوں، جوتم بھی ہو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔