عدلیہ کی توقیر جمہوریت کا طرہ امتیاز

ایڈیٹوریل  ہفتہ 3 جون 2017
ارباب اختیار اور اپوزیشن کو اس بات پر قائل کیا جائے کہ عدلیہ کے صبر کو آزمانا صائب طرز سیاست نہیں ۔ فوٹو: فائل

ارباب اختیار اور اپوزیشن کو اس بات پر قائل کیا جائے کہ عدلیہ کے صبر کو آزمانا صائب طرز سیاست نہیں ۔ فوٹو: فائل

سپریم کورٹ نے متنازعہ بیان پر ن لیگ کے رہنما نہال ہاشمی کے خلاف توہین عدالت کا مقدمہ چلانے کا فیصلہ کیا ہے اور اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کرتے ہوئے5 جون تک وضاحت طلب کرلی ہے ، جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں جسٹس عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل خصوصی بنچ نے آبزرویشن دی کہ حکومت نے پاناما کیس کی تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی، سپریم کورٹ اور ججز کو بدنام کرنے کی منظم مہم شروع کر رکھی ہے، بچوں کو دھمکیاں تو بدترین دشمن بھی نہیں دیتا ، عدلیہ کی تضحیک کی جارہی ہے۔ ادارے کی تضحیک پر انتہائی سخت ایکشن لیا جائے گا۔

عدالت عظمیٰ کے ان ریمارکس کے بعد پاکستان کی سیاسی صورتحال کے زیر زمیں زبردست گڑگڑاہٹ محسوس ہونے لگی ہے ، عام سیاسی کارکن اپنی جگہ ملک کے سنجیدہ قانونی اور سیاسی حلقے بھی عدلیہ اور حکومت کے مابین پیدا شدہ صورتحال پر کسی قسم کی بد شگونی کا اظہار کرنے کے بجائے اس پیغام کو پھیلانے کی درد مندانہ سوچ رکھتے ہیں کہ میڈیا اس نازک گھڑی میں اداروں کے درمیان تصادم ، ٹکراؤ اور تناؤ کے باب میں سنسنی خیزی کو جگہ نہ دے بلکہ جو عناصر موقع سے فائدہ اٹھا کرشعلوں کو ہوا دینے کی تاک میں ہیں ان کے عزائم خاک میں ملائے جائیں ۔

ارباب اختیار اور اپوزیشن کو اس بات پر قائل کیا جائے کہ عدلیہ کے صبر کو آزمانا صائب طرز سیاست نہیں، دنیا بھر کے جمہوری معاشروں میں اہم مقدمات کے تہلکہ خیز فیصلے سامنے آئے ہیں، مگر عدلیہ کی توقیر، اس کے احترام کو کبھی کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوا، عالمی اور ملکی عدالتی نظائر بھی اس امر کی گواہی دیتے ہیں کہ مقدمہ کی پیروی کرتے ہوئے وکلا حضرات دور کے موتی لاتے، ان کی شعلہ بیانی دیدنی ہوتی، ججز ان سے محظوظ ہوتے ، یہ عدالتی روایات ہیں ، کبھی ججز کی ذات پر کسی قسم کے حملے نہیں کیے جاتے۔ لہٰذا سپریم کورٹ کے کیسز ، جے آئی ٹی کی جاری تحقیقات حکمرانوں ،اپوزیشن رہنماؤں ،ٹی وی اینکرز اور تجزیہ کاروں سے تدبر اور تحمل کا تقاضہ کرے تو کوئی مضائقہ نہیں، ماضی میں عدالتی فیصلوں کے سیاق وسباق میں دیکھا جائے تو قانونی ماہرین اسے برسوں کے فرسودہ اور جمود زدہ طرز حکمرانی کے تضادات ، سیاسی اسٹیٹس کو اور بے سمت قومی سفر کا منطقی انجام اور مکافات عمل کا نتیجہ قرار دیتے ہیں، ادھر سیاسی و جمہوری قوتیں اور عوام کے فہمیدہ طبقے بھی عدالتی اور سیاسی انتہاؤں کے بیچ پیچیدہ اور تشویش ناک حالات پر سخت دل گرفتہ ہیں، قیاس آرائیوں سے فضا بوجھل ہے، یہ انداز نظر مبنی برحقیقت ہے کہ پاناما لیکس کیس کے وسیع ترتناظر میں ملکی سیاسی و عدالتی معاملات کو اداروں کے درمیان   تصادم یا پوائنٹ آف نو ریٹرن تک نہیں جانا چاہیے۔ قانونی اور آئینی معاملات جو عدالتوں میں ہیں انھیں  اوطاقوں ، جلسہ گاہوں اخبارات اور سوشل میڈیا میں اچھالنا جمہوری طرز عمل نہیں ہے۔

عدالت نے قرار دیا کہ رجسٹرار عدالت کے کہنے پر کام کرتے ہیں، جے آئی ٹی ہم نے بنائی اور رجسٹرار کو بھی ہم نے ہدایات دی تھیں لہٰذا اس پر مبالغہ آرائی واقعی مناسب نہیں، ججزکا یہ کہنا کہ وہ بھی انسان ہیں کوئی فرشتے نہیں اس امر کی گواہی ہے کہ انصاف ہی ان کے پیش نظر ہے۔ چنانچہ عدالت کا انتباہ کہ ادارے کی تضحیک کی گئی تو ایسا کرنے والوں کے خلاف سخت ترین ایکشن لیں گے، چشم کشا ہے۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ ہمیں مطمئن کرنا ہوگا کہ الفاظ نہال ہاشمی کے ہی تھے ۔ بہرحال کتنی بڑی ستم ظریفی ہے کہ مافیا گینگز کے اندر سے ایک کنگ میکر ڈان کا کہنا تھا کہ اپنی زبان کو اجازت مت دو کہ تمہاری بدترین دشمن بن جائے، کاش نہال ہاشمی ’’شوق گل بوسی میں کانٹون پر زبان رکھنے‘‘ سے پہلے اسے پڑھ لیتے۔

بہر حالیہ ایک چشم کشا باب حقیقت ہے کہ ملکی سیاست نئے تاریخی عوامل اور عدالتی تجربات سے گلے مل رہی ہے، قوم جمع خاطر رکھے ، عدلیہ آزاد ہے تو جمہوریت کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوسکتا بشرطیکہ حکمران خود اپنے پیروں پر کلہاڑی نہ ماریں ۔ ملک کرپشن کی دلدل میں پھنسا ہے جس کے باعث دنیا کی طاقتور سسیلین (اطالوی) مافیا کا ذکر سیاسی حوالہ سے عدالتی سماعت  میں ہو رہا ہے۔ اہل اقتدار اور اپوزیشن جماعتوں کے قائدین اس امر کا ادراک کریں کہ قانونی معاملات میں سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کی کوئی گنجائش نہ ہوتی ہے اور نہ قومی مفاد میں ہونی چاہیے، وہاں صرف آئینی و قانونی موشگافیوں کے بطن سے حقائق تک رسائی ممکن بنائی جاتی ہے ۔

اب بھی وقت ہے کہ جمہوریت ، شفاف طرز حکمرانی اور عدالتی امور پر حکومت اور اپوزیشن کشیدگی کو کم کرنے اور جے آئی ٹی کی تحقیقات کو ن لیگ اور ان کی قیادت جمہوری اسپرٹ سے منطقی انجام تک پہنچنے کا انتظار کرے، وزیراعظم کیمپ اس مخمصہ میں گرفتار نہ ہو کہ اپنے ایک رہنما کی مہم جوئی پر وزیراعظم کی طرف سے تادیبی کارروائی کو عدلیہ کسی خاطر میں نہیں لائے گی ، عدلیہ نے ابھی شو کاز نوٹس دیا ہے ۔ قانون اپنا رستہ بنا رہا ہے۔ قانون کو اپنا راستہ بنانے دیں۔

لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔