منفی سوشل انڈیکیٹر اور بجٹ

ڈاکٹر توصیف احمد خان  ہفتہ 3 جون 2017
tauceeph@gmail.com

[email protected]

پاکستان 2030ء تک دنیا کی 20 اقتصادی طور پرمضبوط ریاستوں میں شامل ہوجائے گا۔ وفاقی بجٹ میں تعلیم کے لیے 90 بلین روپے اور صحت کے لیے 13 بلین روپے مختص کرکے وفاقی وزیرخزانہ نے ایک نیا انتخابی نعرہ بلندکردیا۔ وفاقی بجٹ میں مزدوروں کے لیے کم ازکم اجرت 15 ہزار اور سرکاری ملازمین اور سرکاری ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں 10 فیصد اضافہ کر کے معرکہ سرانجام دیا، مگر اولڈ ایج بینیفٹ اسکیم سے پنشن پانے والے لاکھوں غریب ریٹائرڈ ملازمین پنشن بڑھنے کا انتظارکرتے رہے۔کسان حکومت کی پالیسیوں کے خلاف احتجاج کرنے گئے تو جواب میں آنسوگیس پھینکی گئی۔

صدر اور وزیراعظم کی تنخواہیں بڑھ گئیں۔ صدرمملکت کی تنخواہ 16 لاکھ روپے ہوگئی۔ ہمیشہ کی طرح وفاقی بجٹ سے قبل قومی اقتصادی سروے جاری ہوا۔اس سروے میں جاری کیے گئے سوشل انڈیکیٹر منزل کی منفی سمت سفرکی نشاندہی کررہے ہیں۔اس سروے میں پھر یہ بات دہرائی گئی ہے کہ تعلیم اورصحت اب بھی نظراندازکیے جانے والے شعبوں میں شامل ہیں۔ اس سروے کے مطابق گزشتہ سال خواندگی کی شرح 50 فیصد تک پہنچی جب کہ گزشتہ سال جاری کیے جانے والے اقتصادی سروے میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ خواندگی کی شرح 59 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔

یہ خود حکومت کی اپنی جاری کردہ دستاویزات میں اس حقیقت کا اقرارکیا گیا کہ گزشتہ سال یہ شرح کم ہوگئی۔ کچھ مدارس میں اب کمپیوٹر اورانگریزی کی بھی تعلیم دی جاتی ہے۔ مدارس بچوں کو رہائش، یونیفارم اورکھانے پینے کی سہولتیں فراہم کرتے ہیں۔ روزگارکی فراہمی کی بھی یقین دہانی کرائی جاتی ہے۔ وفاقی حکومت عرصہ دراز سے مدارس میں اصلاحات پر زور دے رہی ہے مگر حکومت عملی طور پر اصلاحات میں ناکام رہی ہے۔ یہ اصلاحات بڑے پیمانے پر مالیاتی امداد اورمدرسوں کی انتظامیہ کے نکتہ نظر میں تبدیلی سے ہی مدارس ترقی کی دوڑ میں شامل ہوسکتے ہیں۔ مدارس لاکھوں بچوں کا سہارا ہیں، ان میں اصلاحات وقت کی ضرورت ہے۔ مجموعی طور پر اسکولوں،کالجوں اور یونیورسٹیوں کے حالات بہت زیادہ بہتر نہیں ہیں۔اب بھی چاروں صوبوں میں ایسے اسکولوں کی خاصی تعداد ہے جہاں بنیادی سہولتیں موجود نہیں ہیں۔

اسکولوں کی چاردیواری، عمارت میں جدید سہولتیں حتیٰ کہ پینے کے پانی اور بیت الخلاء کی سہولتیں کا اضافہ صرف چاروں صوبوں کے تعلیم کے محکموں کی فائلوں میں ہورہا ہے۔ سندھ اور بلوچستان میں غیر حاضر استاد کا مسئلہ ابھی تک موجود ہے۔ یہ جدید اسکول طلبہ کو ناشتہ،کھانا، یونیفارم اورکتابیں کاپیاں وافر مقدار میں فراہم نہیں کرتے۔ پنجاب اور سندھ کے اسکولوں میں کتابیں فراہم کی جاتی ہیں۔ پنجاب میں طلبہ کو سال میں ایک دفعہ یونی فارم فراہم کرنے کی اسکیم شروع ہوئی ہے مگر ناشتہ،کھانے اورغریب ضرورت مند طلبہ کو ماہانہ اسکالرشپ کی فراہمی کا معاملہ ہنوزدور ہے۔اسکول اب بھی لوڈ شیڈنگ سے متاثر ہوتے ہیں۔ پنجاب میں اسکولوں میں سولر انرجی کے ذریعے بجلی فراہم کرنے کے بھی منصوبوں پر عملدرآمد ہورہا ہے۔اس صورتحال میں غریب بچوں کے والدین کے لیے بچوں کو اسکول بھیجنا بظاہر منافع بخش نظر نہیں آتا۔ یہی وجہ ہے کہ شہروں میں اسٹریٹ چلڈرین کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ تعلیمی ماہرین کو خواندہ فرد کی تعریف پر بھی تحفظات ہیں۔

اکنامک سروے کے مطابق دستخط کرنے اور اخبارکی سرخیاں پڑھنے والا شخص خواندہ افرادکے انڈیکس میں شامل کرلیا گیا ہے مگر یہ انتہائی مبہم تعریف ہے۔اس تعریف کے پس منظر میں ان لاکھوں بچوں کو نظراندازکیا جاتا ہے جو زندگی کے کسی حصے میں مدرسے یا اسکول میں تعلیم حاصل نہیں کرتے۔ تعلیم کے ساتھ سب سے زیادہ نظراندازکیا جانے والا شعبہ صحت کا ہے۔

وفاقی بجٹ میں صحت کے لیے 13 بلین روپے مختص کیے گئے ہیں۔ قومی اقتصادی سروے میں اعدادوشمار کے تجزیے سے ظاہرکیا گیا ہے کہ یہ رقم خام قومی پیداوار (G.D.P) کا .46 فیصد ہے، یعنی یہ شرح ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن پروفیشنل ڈاکٹروں کی تنظیم ہے۔ یہ تنظیم صحت کی سہولتوں کو بہتر بنانے کی جدوجہد کو اپنا فرض سمجھتی ہے۔ پی ایم اے کا کہنا ہے کہ پاکستان میں صحت کے شعبے پر خرچ کی جانے والی رقم افغانستان سے بھی کم ہے۔ افغانستان سالانہ 167 ڈالر پرکیپیٹل خرچ کرتا ہے۔ ایک دشمن ملک بھارت 267ڈالر اور ایران  1.82 ڈالر خرچ کرتا ہے۔

عالمی بینک کی حالیہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کی پرکیپیٹل رقم 36.2 ڈالر ہے۔ عالمی ادارۂ صحت نے دنیا کے ممالک کے لیے صحت پر خرچ کرنے کا جوہدف دیا ہے وہ کم ازکم 86 ڈالر ہے۔ حکومت پاکستان کی جاری کردہ دستاویز سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس رقم کا 80 فیصد حصہ ڈاکٹروں اور دیگر عملے کی تنخواہوں پر خرچ ہوتا ہے اور صرف 20 فیصد غریبوں کے علاج کے لے دستیاب ہوتا ہے۔ پاکستان میں اب بھی 1997 افراد پر ایک ڈاکٹر میسر ہے۔ اسی طرح 10 ہزار 658 افراد کے لیے دانتوں کا ایک ڈاکٹر ہے۔

اس طرح ایک ہزار 584 افراد کے لیے اسپتالوں میں ایک بستر ہے۔ آبادی میں روزانہ ہونے والا اضافہ تمام ترقیاتی منصوبوں کو الٹ دیتا ہے۔ پورے ملک میں سرکاری اسپتالوں کے حالات خراب ہیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے اپنے زیر اہتمام اسپتالوں میں ٹیسٹ وغیرہ کو کمرشل کر دیا ہے۔ کچھ اسپتالوں میں ادویات فراہم کی جاتی ہیں اور باقی میں آپریشن کے آلات سرنج وغیرہ تک مریضوں کو خود فراہم کرنی ہوتی ہے۔

سینئر ڈاکٹر سرکاری اسپتالوں میں مریضوں کے علاج کے لیے تیار نہیں۔ کوئٹہ میں حال ہی میں تعمیر ہونے والے ٹراما سینٹر کے حوالے سے شایع ہونے والی خبر میں کہا گیا ہے کہ ٹراما سینٹرکا عملہ مریضوں اوران کے لواحقین کو سختی سے مشورہ دیتا ہے کہ وہ پرائیوٹ اسپتال میں جا کر جلد سے جلد صحت یاب ہوجائیں۔ دوائیوں کی قیمتوں کی کمی کے بارے میں بجٹ میں خاموشی ہے۔ جان بچانے والی دوائیوں کی قیمتیں عام آدمی کی پہنچ سے دور ہوگئی ہیں۔ اس سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ذیابیطس کو ٹیسٹ کرنے والی اسٹرپ کی ڈبیہ کی قیمت بھی 1200 روپے کی ہوگئی ہے۔ اس طرح غریب آدمی اپنے خون میں شوگرکی مقدار معلوم کرنے کے بارے میں سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔

حکومت نے مزدوروں کی تنخواہ کم از کم 15000 روپے مقررکی ہے۔ 15000 روپے میں ایک میاں، بیوی اور دو بچوں پر مشتمل خاندان کا بجٹ بنانا وزیر خزانہ اسحاق ڈارکے لیے بھی ممکن نہیں ہے۔ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد ٹریڈ یونین تحریک منتشر ہوگئی جس کاسب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ مزدور قوانین پر عملدرآمد ختم ہوگیا۔ انصاف فراہم کرنے والی بیشتر عدالتیں مزدوروں کو انصاف فراہم کرنے کے بجائے کئی اورکاموں میں مصروف ہوگئیں جس کا نقصان یہ ہوا کہ کم ازکم اجرت کا قانون مذاق بن گیا۔ مزدور قوانین پر تحقیق کرنے والے کارکن توقیرعباس کا کہنا ہے کہ بعض سرکاری اداروں میں روزانہ کی اجرت پر کام کرنے والے مزدوروں کو حکومت کے اعلان سے کم اجرت ادا کی جاتی ہے۔ حکومت نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں اضافہ کرکے ایک بہتر قدم اٹھایا مگر اولڈ ایج بینیفٹ کی پنشن میں اضافے کو نظراندازکرنا غریبوں کے ساتھ ظلم کے مترادف ہے۔

ترقی پسند شاعر اوسط جعفری کاکہنا ہے کہ ای او بی آئی کا فنڈ مزدوروں کے پیسے سے بنا ہے۔ حکومت اس کے منافعے سے پنشن ادا کرتی ہے مگرگزشتہ 4 برسوں سے پنشن نہیں بڑھائی گئی۔ 5 سال قبل سپریم کورٹ کی مداخلت پر ایک ہزار روپے پنشن بڑھائی گئی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ای او بی آئی کے دائرہ کارکو بڑھانے کے لیے اقدامات کیے جاتے تاکہ زیادہ سے زیادہ معمر افراد اس سے فائدہ ٹھاتے۔ بہرحال اس معاملے پر توجہ دینا اشد ضروری ہے۔  صدرصاحب کی تنخواہ 16 لاکھ روپے ہوگئی۔

انھیں رہائش اور باقی سہولتیں حکومت فراہم کرتی ہے۔ ایوانِ صدر صرف وفاقی یونیورسٹیوں کی نگرانی کرتا ہے مگر جب سے صدر ممنون حسین نے یہ عہدہ سنبھالا ہے وفاقی یونیورسٹیوں میں ایک بحران کی کیفیت ہے مگر ایوانِ صدر کہیں اور متوجہ ہے۔ صدر صاحب بنیادی طور پر ایک تاجر ہیں۔ان کے کاروبارکی ترقی سے سب واقف ہیں۔ انھیں تو یہ تنخواہ رفاہی اداروں کے لیے وقف کردینی چاہیے۔ سماجی انڈیکیٹرکی منفی شرح ظاہرکرتی ہے کہ محض میٹرو بس اوراورنج ٹرین چلانے اور ساری توجہ لاہور پر مرکوزکرنے سے ملک ترقی نہیں کرے گا۔ وزیراعظم کو چاہیے کہ 2030ء میں پاکستان 20 صنعتی ممالک میں شامل ہو تو تعلیم، صحت اورروزگارکے انڈیکیٹرکو بہتر بنائیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔