اس رمضان میں لوہا، لوہے سے ٹکرائے گا

ظہیر اختر بیدری  ہفتہ 3 جون 2017
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

کراچی کی انتظامیہ کا ارشاد ہے کہ رمضان کے دوران اس سال گراں فروشوں پر جرمانے کم اور جیل کی ہوا زیادہ کھلائی جائے گی۔ مارکیٹ کمیٹی کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کمشنر کراچی نے گراں فروشوں کو یہ واضح پیغام دیا ہے کہ ماہ رمضان میں گراں فروشوں کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے گا۔ کمشنر کراچی نے ڈپٹی کمشنرز کو ہدایت کی ہے کہ ماہ رمضان میں گراں فروشی کرنے والے عناصر کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے گا اور تمام تر قانونی اختیارات استعمال کیے جائیں گے۔

اس سال رمضان میں گراں فروشی کرنے والوں کو ایک بے رحم انتظامیہ کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ہر سال ماہ رمضان سے پہلے انتظامیہ کی جانب سے گراں فروشوں کو جو وارننگ دی جاتی ہے اس سال بھی یہ روایتی وارننگ ذرا سخت الفاظ کے ساتھ دی گئی ہے لیکن 70 سال سے اس شہر کے عوام ماہ رمضان میں جس ہوش اڑا دینے والی گرانی کا سامنا کرتے آ رہے ہیں اس میں کسی قسم کا ناغہ نہیں ہوا۔ کیونکہ گراں فروش ان تمام دھمکیوں اور سخت قانونی اقدامات کا توڑ اس طرح کر لیتے ہیں کہ انتظامیہ منہ دیکھتے رہ جاتی ہے اور یہ توڑ رمضانی خصوصی بھتہ ہے جو کروڑوں کی شکل میں نچلی سطح سے اعلیٰ ترین سطح تک پہنچایا جاتا ہے۔

ہوسکتا ہے انتظامیہ اپنی دھمکیوں میں مخلص ہو لیکن ڈھائی کروڑکی آبادی کے اس شہر میں مہنگائی کرنے والوں کی تعداد اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ ان کوکنٹرول کرنا مشکل ہوجاتا ہے اور اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہر اہلکارکا عالم یہ ہوتا ہے کہ ’’چھٹتی نہیں منہ سے وہ کافر لگی ہوئی‘‘ جیسا ہوتا ہے۔ بات مہنگائی پر ہی ختم نہیں ہوتی بلکہ ملاوٹ کے ساتھ مردار جانوروں کتے، بلیوں، گدھوں کے گوشت تک جاتی ہے اور ملاوٹ کرنے والوں کو ان روزہ داروں کا بھی خیال نہیں آتا جو سارا دن روزے سے رہ کر شام میں ملاوٹ شدہ اشیا اور گدھوں، کتے، بلیوں کے گوشت سے افطار کرنے پر مجبور ہوتے ہیں اور اپنے پیٹ میں ایسی غلیظ اور نقصان رساں غذا پہنچاتے ہیں جو ان کی صحت کا ستیا ناس کرتی ہے۔

ہمارے ملک کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے اور ہمارے محترم علمائے کرام اسے اسلام کا قلعہ بھی کہتے ہیں۔ اس اسلامی جمہوریہ پاکستان اور اسلام کے قلعے میں کیا کیا ہو رہا ہے اس کو دیکھنے کے لیے نظر بینا کی ضرورت نہیں دو آنکھیں رکھنے والا ہر شخص ٹی وی اسکرین اور اخباری صفحات پر اسلام کے اس قلعے کے جلوے دیکھ سکتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت کی ان مخلصانہ کوششوں کے باوجود یہ بیماریاں کیوں پھل پھول رہی ہیں۔ اس کا ایک آسان اور سیدھا سادھا جواب تو یہ ہے کہ ملک میں گورننس نام کی کسی چیز کا دور دور تک پتہ نہیں اور جب گورننس کی اعلیٰ ترین سطح اپنا سارا وقت اربوں کی کرپشن کے الزامات کے دفاع میں لگاتی ہو تو گورننس کے لیے اس کے پاس وقت ہی کہاں بچتا ہے اور جب چھوٹے چور بڑے چوروں اور کوتوالوں کو سر سے پاؤں تک کرپشن میں لتھڑا ہوا دیکھتے ہیں تو پھر انھیں گراں فروشی جیسے معمولی جرم سے کون روک سکتا ہے۔

ماہ رمضان ایک ایسا مقدس مہینہ ہے کہ خدائے برتر اس مہینے میں شیطان کو بھی پا بہ زنجیر کردیتا ہے لیکن کرپٹ نظام کے پیدا کردہ ہزاروں بلکہ لاکھوں شیطان اس مہینے میں وہ گل کھلاتے ہیں کہ اصلی شیطان بھی شرمندگی سے اپنا منہ چھپاتا پھرتا ہے حیرت اس بات پر ہے کہ پاکستان کے علاوہ تقریباً تمام مسلم ملکوں میں ماہ رمضان میں گراں فروشی سمیت مختلف بدعنوانیوں کی اس سختی سے روک تھام کی جاتی ہے کہ ان ملکوں میں یہ برائیاں کم ازکم ماہ رمضان میں نظر نہیں آتیں ہندوستان کافروں کا ملک ہے ہم نے اس ملک کے کافروں کو رمضان میں اشیا صرف کو سستے داموں فروخت کرتے دیکھا ہے اور سوائے کچھ مذہبی جنونیوں کے ہندوؤں کی اکثریت کو ماہ رمضان کا احترام کرتے دیکھا ہے جب کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں رجب اور شعبان ہی سے ذخیرہ اندوزی شروع کردی جاتی ہے اور چاند رات ہی سے گراں فروشی چاند تک پہنچ جاتی ہے۔

ماہ رمضان میں گراں فروشی جیسی برائیوں کے خلاف انتظامیہ جو اقدامات کرتی ہے وہ کبھی کامیاب اس لیے نہیں ہوسکتے کہ انتظامیہ خود کرپشن میں ڈوبی ہوتی ہے صرف مذہبی قیادت اور مذہبی حلقے ایسے ہوتے ہیں جو اس ماہ کا احترام کرتے ہیں ہماری مساجد اور امام بارگاہوں میں اس ماہ خصوصی عبادات کا اہتمام کیا جاتا ہے ملک کے ہر طبقے کی کوشش ہوتی ہے کہ اس ماہ کچھ نیکی کے کام بھی کیے جائیں اور نیکی کے کاموں کی ترغیب میں مذہبی قیادت پیش پیش رہتی ہے غریب اور مہنگائی کے ستائے ہوئے لوگوں کو مہنگائی سے بچانا بھی ایک بڑی نیکی ہے۔

کیا ہماری مذہبی قیادت کی یہ ذمے داری نہیں کہ وہ مساجد میں ماہ رمضان کی رمضانی مہنگائی کی برائی سے عوام کو واقف کرائیں ہر مسجد ماہ رمضان میں نمازیوں سے بھری ہوئی ہوتی ہے صف میں دکاندار چھوٹے بڑے تاجر سب شامل ہوتے ہیں اگر ہماری مذہبی قیادت اس موقعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نمازیوں کو گراں فروشی ملاوٹ جیسی برائیوں کے عوام پر پڑنے والے مضر اثرات اور دینی تعلیمات کے حوالے سے ان برائیوں کے مضر اثرات اور دین و ایمان پر ان برائیوں کے مضر اثرات سے واقف کرائیں تو یقینا اس کا فائدہ انتظامیہ کے نیم دلانہ اور شراکتی اقدامات سے زیادہ ہوگا۔

یہ کوششیں تو ایک ذمے داری کو پورا کرنے کی رسم کے علاوہ کچھ نہیں۔اصل مسئلہ یہ ہے کہ یہ تمام برائیاں کہاں سے پھوٹتی ہیں؟ اس سوال کا کافی و شافی جواب یہ ہے کہ یہ تمام برائیاں سرمایہ دارانہ نظام کے بطن سے پھوٹتی ہیں اور جب تک سرمایہ دارانہ نظام موجود ہے آہنی انتظامیہ اپنے آہن سے اپنا سر تو پھوڑ سکتی ہے ان برائیوں کا کچھ بگاڑ نہیں سکتی اور نظام کی تبدیلی سیاستدانوں کا کام ہے جس کا سارا وقت پانامہ لیکس نیوز لیکس کے دفاع میں گزر رہا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔