سوالوں کا قبرستان

آفتاب احمد خانزادہ  ہفتہ 3 جون 2017

برٹرینڈرسل جب وہ چھوٹا تھا تو ایک دن اس نے سوچا جب وہ خاطر خواہ بڑا ہوجائے گا، تو وہ تمام فلسفہ جان لے گا، اس کو ہر سوال کے جواب مل جائیں گے، پھر جب وہ اسی سال کا ہوگیا تو اس نے خود سے کہا ’’میرے اپنے سوالات ابھی تک جوں کے توں میرے سامنے کھڑے ہوئے ہیں عین اسی طرح جیسے وہ بچپن میں میرے سامنے تھے۔ فلسفے کی ان ہی گتھیوں کی وجہ سے نئے سوالات پیدا ہی نہیں ہو پائے‘‘ وہ کہتا ہے جب میں چھوٹا تھا تو کہتا تھا کہ فلسفہ تمام سوالوں کے حتمی جوابات حاصل کرنے کا واحد ذریعہ ہے لیکن اب میں یہ بات نہیں کہہ سکتا بلکہ نہ ختم ہونے والے سوالوں کے سلسلے کا نام فلسفہ ہے۔

یہ تو ہوئی رسل کی اپنی سچائی جب کہ ہماری سچائی یہ ہے کہ نہ ختم ہونے والے سوالوں کے سلسلے کا نام پاکستان ہے جہاں روز ان گنت سوالات ہمارے اندر پیدا ہوتے ہیں جنہیں ہم روز زندہ درگور دفن کر دیتے ہیں، اگلے روز اتنے ہی اور سوال پیدا ہوجاتے ہیں اور ہم ان کے ساتھ بھی وہ ہی حشر کرتے ہیں جو ہم نے کل والے سوالوں کے ساتھ کیا تھا۔ یہ سلسلہ ہمارے ساتھ گزشتہ 70سالوں سے اسی طرح سے جاری ہے ہم اس دن سے ڈرتے ہیں کہ اگر کبھی وہ سب سوالات جنہیں ہم روز زندہ دفناتے آرہے ہیں اگر وہ کسی روز ایک ساتھ دوبارہ جی اٹھے تو پھر اس روزکیا ہوگا؟

یاد رہے پاکستان میں انسانوں کی اتنی قبریں نہیں ہیں جتنی کہ سوالوں کی ہیں پاکستان اس وقت دنیا کاسب سے بڑا سوالوں کا قبرستان بن کے رہ گیا ہے۔ یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ قبروں میں دفن سوالات بھی اتنے ہی بے چین ہیں جتنے کہ پاکستان میں جیتے جاگتے انسان ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ وہ دن اب قریب ہے جب سارے سوالات قبریں پھاڑ کر باہر آجائیں گے اور وہ سارے مضبوط ، طاقتور اور بااختیار ایوانوں، ہاؤسز، محلات میں گھس جائیں گے اور پھر ان میں موجود کوئی بھی شخص ان سے محفو ظ نہیں رہے گا یہ بات تو طے ہوگئی ہے کہ ہم سب سوچتے ہیں کیونکہ سوالات سوچ سے جنم لیتے ہیں، جیسی سوچ ہوگی ویسے ہی سوالات ہوں گے.

اس لیے کہ انسان صرف وہ ہی کچھ ہے جو وہ سارا دن سوچتا ہے۔ سوالات کی نوعیت کا سارا دارومدار سوچ پر ہے اور انسان کی سوچ کا سارا تعلق اس کے ساتھ ہونے والے سلوک پر ہے اگر آپ کے ساتھ اچھا سلوک روا رکھا جارہا ہے تو آپ کے سوالات کی نوعیت خوشگوار، تمیزدار اور تہذیب دار ہوگی اور اگر آپ کے ساتھ بدسلوکی ہورہی ہے تو پھر آپ کے سوالات بدتمیز اور بدتہذیب ہونگے، ایک انسان چاہے وہ فقیر ہو یا بادشاہ اپنی خواہشات کے تابع ہوتا ہے۔ اس کی خواہشات اس کی ذات سے لے کر سماج تک پھیلی ہوئی ہوتی ہیں انسان صرف چند ہی قدرتی خواہشات لے کر پیدا ہوتا ہے۔

باقی کی سب خواہشات اس کے اردگرد کے ماحول سے اس میں پیدا ہوتی ہیں پھر جیسے جیسے اس کی عمر اور اس کی عقل و شعور میں اضافہ ہوتا رہتا ہے ساتھ ہی ساتھ اس کی خواہشوں میں بھی اضافہ ہوتا رہتا ہے یہ عمل اس کی آخری سانس تک اسی طرح سے آگے بڑھتا رہتا ہے ہر انسان اپنے لیے ہمیشہ ہی سے ایک محفوظ ، بہتر، پرسکون، خوشحال، آزاد زندگی کا خواہش مند رہا ہے۔ اس کی ان خواہشات کی تکمیل کا سارے کا سار ا تعلق اس کے سماج سے ہوتا ہے۔

پاکستان بنانے کا یہ ہی اولین مقصد تھا کہ لوگ اپنے لیے ایک محفوظ، پرسکون، آزاد، خوشحال، بااختیار، خود مختار سماج چاہتے تھے لیکن جس روز سے انھیں یہ احساس ہونا شروع ہوا کہ ان کی خواہشات کے ساتھ بدسلوکی کی جارہی ہے اور یہ سماج ان کی خواہشوں کو پورا کرنے میں مکمل ناکامی سے دوچار ہوگیا ہے وہ بے چین ہونا شروع ہوگئے اور بے چینی سے بد تمیز اور بد تہذیب سوالوں نے جنم لینا شروع کردیا اور بقول فرائیڈ کے ہم سب ’’ نہ سلجھ پانے والی کشمکش ‘‘ کا شکار ہوگئے اور آج ہم سب اس کے مریض بن کے رہ گئے ہیں جب کوئی شدید جذباتی کشمکش حل ہونے میں نہیں آتی سلجھ نہیں پاتی تو وہ کشمکش ختم نہیں ہوتی بلکہ ذہن انسانی میں ایک پھوڑا بن کر موجود رہتی ہے اور آنے والے برسوں میں شدید ذہنی عدم توازن کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔

سادہ الفاظ میں اس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ انسان کی نشو و نما کسی بھی ایسے مسئلے پر آکر رک جاتی ہے جو اس کے لیے شدید جذباتی اہمیت رکھتا ہو اور وہ حل نہ ہو پائے اور یہ ذہنی نشوونما اس وقت تک رکی رہتی ہے جب تک انسان اس مسئلے کا سامنا نہیں کرتا جب تک وہ اس مسئلے کو سمجھ نہیں لیتا۔ اس سے سمجھوتا نہیں کرلیتا اور اگر ممکن ہو تو اس کو مکمل طور پر حل نہیں کرلیتا لیکن اگر ایسا نہ ہوسکے تو انسان اس مسئلے سے آگے نہیں بڑھ سکتا تو اس کی ذہنی نشو ونما اسی جگہ رک جاتی ہے جہاں یہ مسئلہ یہ جذباتی کشمکش یہ نفسیاتی الجھن پیدا ہوئی تھی کیونکہ وہ صدمہ لاشعور کا حصہ بن جاتا ہے اور وہ وہاں اپنا کام کرتا رہتا ہے اور انسان کی ذہنی نشوونما ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھتی ہے۔

جب کسی ملک کے شہری ’’ نہ سمجھ پانے والی کشمکش ‘‘ میں مبتلا ہوجاتے ہیں تو پھر موقع پرستوں، مفاد پرستوں اور اختیار اور طاقت پسند وں کا گروہ اس صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ملک کے وسائل، اختیار پر قابض ہوجاتا ہے اور لوگوں کی اس کشمکش جس میں وہ مبتلا ہوتے ہیں اس سے نکلنے کے تمام راستے بند کرتا چلا جاتا ہے کیونکہ اسی میں ہی اس کی بقاء ہوتی ہے۔

یہ ہی سب کچھ ہمارے ساتھ ہوا ہے ہم کبھی یہ سمجھ ہی نہیں پائے کہ کس خوبصورتی سے ہمیں ایک ایسے اندھے کنویں میں دھکیل دیا گیا جس سے باہر نکلنے کے تمام راستوں پر قابض ٹولہ بیٹھا ہوا ہماری نگرانی کررہا ہے۔ فلپس بروکس نے لگتا ہے ہمارے لیے ہی کہا تھا ’’آنے والے سالوں میں کسی دن آپ اپنی زندگی کے بڑے غم تلے کراہ رہے ہونگے یا کسی بڑی خواہش سے نبردآزما ہورہے ہونگے لیکن اصل جدوجہد کا وقت اب ہے ’’ اب‘‘ یہ طے ہونے کا وقت ہے کہ اس غم کی گھڑی میں یا خواہش کے پورے ہونے کے وقت آپ مکمل طور پر فیل ہوجائیں گے یا کامیابی آپ کے قدم چومے گی کردار ایک مستقل اور لمبے عمل کے بغیر تشکیل نہیں پاسکتا ‘‘۔’’اب ‘‘فیصلے کا اختیار آپ کے پاس ہے کہ کیا آپ اسی طرح اندھے کنویں میں اپنے سوالات کے ساتھ اپنی بقیہ زندگی بھی گذارنا چاہتے ہیں یا پھر آپ اپنی کامیابی، خوشحالی، ترقی،آزادی پر قابض ٹولے کو مار ھگا دینا چاہتے ہیں، یاد رکھیں ’’اب‘‘ وہ ہی کچھ ہوگا جو آپ چاہیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔