نہال ہاشمی بھی بول پڑے

جاوید قاضی  ہفتہ 3 جون 2017
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

آج کل ویڈیوز وائرل ہونے کا سلسلہ چل پڑا ہے، لیکن کل جو ویڈیو وائرل ہوئی نہال ہاشمی کی، لفاظی وتہلکہ وبدحواسی کا اپنا ایک مقام تھا۔ادارے توڑنے کے لیے ضروری نہیں کہ میزائل داغے جائیں اوراگر آپ ایسا کریں گے بھی تو اْس سے عمارتیں گِر تو سکتی ہیں مگر ادارے نہیں۔کتنی ہی عمارتیں عالیشان ہوں، وسیع ہوں ضروری  نہیں وہ عکس ہوں اداروں کی مضبوطی اوراعلیٰ ہونے کا۔ جب عوام سورہے ہوتے ہیں تو جاہ پسند کچھ اور نہیں کرتے اْن کے اداروں کو توڑتے اور پھوڑتے ہیں۔کیا وجہ ہے کہ جمہوریت اورآمریت میں کوئی واضح فرق نہیں۔ اقرباء پروری شگون ہے اْن کا بھی اور اِن کا بھی۔ فرق اتنا ہے کہ جمہوریت ارتقاء کرتی ہے اور آمریت پست سے پست ہوتی ہے۔

نہال ہاشمی کیا کر رہے تھے؟ بظاہر تو وہ کچھ نہیں کہہ رہے تھے صرف تقریرکررہے تھے شعلہ بیاں مقررکی طرح۔ اور جب وہ تقریر وائرل ہوکر ٹی وی چینلز تک پہنچی تو سب کے چھکے چھوٹ گئے۔ سب کے سب ششدر رہ گئے، حیران رہ گئے۔ یوں تو سپریم کورٹ پر پہلے کی طرح کوئی دھاوا تو نہیں بولا گیا تھا،کوئی حملہ نہ تھا جیسے چیف جسٹس سجادعلی شاہ کے زمانے میں دھاوا بولا گیا تھا۔

چیف جسٹس کو اْن کے آفس میں محصورکردیا تھا۔ نہال ہاشمی بھلے ہی کہتے رہیں کہ سپریم کورٹ کو نشانہ نہیں بنا رہے تھے ، قسم کھا رہے ہیں، مگر عام آدمی سے تو پوچھیے حالات و سکنات تو دیکھیے، مقام و حیثیت تو دیکھیے کہ آجکل کون ہے جو اِن کے گھیرے تنگ کر کے بیٹھا ہوا ہے، جِس سے اِن کے پسینے چھوٹ گئے ہیں۔ وہ JIT بھی نہیں وہ سپریم کورٹ ہے۔ کیونکہ یہ JITاِس کیس کی نسبت سے ، سپریم کورٹ کا اٹوٹ حصہ ہے۔ جھگڑا نہ سپریم کورٹ کا ہے، نہ اِنکا ہے اگر منطقی ، قانونی ، آئینی واخلاقی حوالے سے دیکھا جائے تو جھگڑا  PTI  کا ہے نہPML-N  کا ہے،جھگڑا پاکستان کے بیس کروڑ سوتے ہوئے عوام کا ، پاکستان میں ہوئے وائٹ کالرکرائم کے ساتھ ہے۔ اِس ملک میں جہاں ضمیر بِکتا ہے وہاں ضمیر پْختہ بھی ہے۔ ادارے فرشتے نہیں بنایا کرتے، اداروں میں فرد بیٹھتے ہیں۔

فرض کرلیجیے اِس ملک میں ادارے اِس طرح کا م کر رہے ہوتے جس طرح امریکا میں یا پھر دوسرے ترقی یافتہ ممالک میں ایمبولنسزکی بھرمار ہوتی، سرکاری اسپتالوں اور پرائیوٹ اسپتالوں میں کوئی فرق نہیں ہوتا توعبدالستار ایدھی اتنے بڑے ولی نہیں بلکہ ایک چھوٹے فلاح وبہبود کا کام کرنے والے کارندے نظر آتے۔ اِس ملک میں رونا بنیادی طور پر اِس بات پر ہی ہے کہ یہاں ادارے نہیں،

ظلمت کدے میں میرے شِب غم کا جوش ہے

ایک شمع تھی دلیلِ سحر سوخموش ہے

(غالبؔ)

کون سا ادارہ ہے کہ جو ہم نے چھوڑا ہے۔ نیشنل بینک کے سر براہ بھی JIT میں حاضر ہونگے۔ ایس ای سی پی کے سربراہ بھی گھر کی باندی ہے، اب بچے ہیں کْل ِملا کے دو ادارے وہ ہے عدلیہ اور افواجِ پاکستان۔

بہت ساری خامیاں اِن اداروںمیں بھی ہونگی۔ مگر تھوڑا بہت جو بچا ہے وہ یہی ہے۔ ہماری جمہوریت ایک یا دو سو سال پْرانی  ہوتی جوکہ لازم ہے جمہوریت کی بقاء کے لیے اْس کی مضبوطی کے لیے، تو پناما کے ہنگامے کے بعد تو میاں صاحب استعفیٰ اخلاقی طور پر ضرور دیتے ا ور اگر نہ بھی دیاتوJITبننے کے بعد ضرور دیتے ۔ رونا اِس بات کا نہیں کہ انھوں نے استعفیٰ کیوں نہیں دیا ، رونا اِ س بات کا ہے کہ اِس ملک کی عمر70  سال ہے تو جمہوریت کی عمر کْل مِلا کر فقط چالیس سال ہے۔

’عہد جوانی رو روکاٹی پیری میں لیں آنکھیں موند

یعنی رات تھے بہت دیر جاگے صبح ہوئی آرام کیا

(میر تقی میرؔ)

تو ایسے حالات میں ہوتے ہیں پھر وہ کچھ با ضمیرجوکہیں نہ کہیں ،کسی نہ کسی گوشے میں اداروں میں بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں  اور پھر ہوتا ہے ، ن۔م راشد کی اِس بات کا جواز ہونا:

’’تم مگر یہ کیا جانو

لب اگر نہیں ہلتے

ہاتھ جاگ اْٹھتے ہیں

راہ کے نشان بن کر

نْور کی زباں بن کر

ہاتھ بول اْٹھتے ہیں

صبح کی اذان بن کر

نہال ہاشمی آپ کے لیے اچھا تھا  اگر یہ ملک صرف چار پانچ لاکھ کی آبادی پر مشتمل ہوتا تو پھر آپ اداروں کو بنا دیتے فٹ بال، واہ واہ ، قہقہوں و  ہلہ  کی گونج  ہوتی، مگر یہ ملک بیس کروڑ عوام پر مبنی ہے۔ اب تو آبادی کے تناسب سے یہ ملک دنیا کے چھٹے نمبر پر ہے اور آگے جا کر پانچویں نمبر  پر آنیوالا ہے۔ اگر اس ملک کو اِسی روش پر چلاناہے تو یہ چلنے والا نہیں۔

ٹوٹ جائے گا ۔ کل جب یہ ٹوٹا تھا تواْس زمانے میں آمریت تھی اور آج اگر یہ ٹوٹا تو اْس کی وجہ اِس کا مقروض ہونا ۔ برآمدات کا شدید انداز میں گِرنا ، ڈائریکٹ ٹیکسزکا نہ لگنا، بجلی کا شدید بحران وغیرہ وغیرہ۔

لیکن جو سب سے بڑا اس ملک کو خطرہ ہے وہ یہ ہے کہ ہماری جمہوریت بے معنی ہوتی جا رہی ہے۔

رْول آف لاء اور جمہوریت ایک ہی سکے کے دو پہلو ہیں مگر نہال ہاشمی بندگلی میں کیا پھنسے ہیں، عوام غنودگی میں ہے اورادارے ان کے مفادات کے تحفظ کے لیے سرگرداں ہے، یہ میرا  پاکستان ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔