الف سے ’آم شریف‘

سہیل احمد صدیقی  اتوار 4 جون 2017
آم پسندی کے حوالے سے سب سے مشہور لطیفہ یا واقعہ مرزا غالبؔ کے ساتھ پیش آیا۔ فوٹو : فائل

آم پسندی کے حوالے سے سب سے مشہور لطیفہ یا واقعہ مرزا غالبؔ کے ساتھ پیش آیا۔ فوٹو : فائل

یہ موسم، آم شریف کا موسم ہے۔ اسے شریف (یعنی شرف و عزت کا حامل) کا لقب مابدولت نے بہت سال پہلے، گھریلو بات چیت میں ’’عنایت‘‘ کیا تھا۔ اب ہماری ایک چہیتی ہمشیرہ جب کبھی ہمارے مُنھ سے یہ ترکیب سنتی ہے تو فوراً ہنس کر استفسار کرتی ہے: ’کیوں باقی پھل بدمعاش ہیں کیا؟‘ (براہ کرم اس لقب کو سیاست کی نذر نہ کیا جائے۔

اس سے آم کی بے عزتی ہوگی جو ہمیں ہرگز گوارا نہیں)۔ ایک ضروری وضاحت کردیں کہ مُنہ لکھ کر مُنھ بولنا، صوتی اعتبار سے، ناموزوں ہے{۔ اب اگر کوئی کہے کہ صاحب! اس کی شرافت و عظمت ثابت کیجے تو کیا یہ کافی نہیں کہ آم ایسا پھل ہے جو ہر شکل میں مفید ہے، خواہ اس کی گھٹلی ہو، گُودا ہو، چھلکا ہو، پتا ہو، بور (پھل سے پہلے کے پھول) ہو یا کچی شکل میں آم یا کیری، اَم چُور (آم کا چُورا، کھٹائی) کی شکل میں استعمال کریں، (محاورے میں سوکھے سہمے، لاغر یا کًبڑے شخص نیز بوڑھے کو بھی اَم چُور کہا جاتا تھا)۔ کیری کا پَنّا بنائیں ( گرمی کے اثرات ختم کرنے کو)، کیری کی چٹنی بنائیں، گُڑمبہ بنائیں، آم کا گودا کھائیں، اَم رس بناکر پییں (یعنی Mango shake) اس کے علاوہ بھی آم کئی طر ح ، خاص طورپر، دواؤں میں استعمال ہوتا ہے۔ اس کے کیمیاوی (کیمیائی غلط ہے) خواص[Chemical benefits] یا طبی خواص[Medicinal benefits] تو انٹرنیٹ پر بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔

آم سے متعلق اتنے سارے الفاظ کے ساتھ ساتھ ایک نسبتاً غیرمعروف لفظ بھی ملاحظہ فرمائیں، اَمرَیّاں یعنی آم کے درختوں کا جُھنڈ۔

آم پسندی کے حوالے سے سب سے مشہور لطیفہ یا واقعہ مرزا غالبؔ کے ساتھ پیش آیا۔ ایک مرتبہ وہ اپنے ایک دوست نما دشمن، احسن اللہ خان کی حویلی کے آنگن میں بیٹھے آم کھارہے تھے اور چھلکے، کھُلے دروازے سے باہر کی طرف اُچھال رہے تھے۔ احسن صاحب کو آم ناپسند تھے۔ یکایک کہیں سے کوئی کُمہار اپنے گدھوں کے ساتھ آنکلا۔ گدھوں نے رُک کر کچھ چھلکے سونگھے اور چھوڑکر آگے چلتے بنے۔ انھوں نے چہک کر غالبؔ سے کہا:’’میرزا دیکھا آپ نے، گدھے بھی آم نہیں کھاتے۔‘‘ برجستہ گو شاعر نے فوراً جواب دیا: ’’جی ہاں، آپ نے بجا فرمایا، گدھے آم نہیں کھاتے۔‘‘ (اسی شخص نے غالبؔ کو انگریز کے ہاتھوں گرفتارکرایا تھا)۔

میرے ناقص علم کے مطابق، غالب غالباً واحد اردو شاعر ہیں جنھوں نے آم کی شان میں ایک مثنوی لکھی ہے۔ اسی عظیم پھل کے متعلق اُن کا شعر ہے:
مجھ سے پوچھو ، تمھیں خبر کیا ہے
آم کے آگے نیشکر (گنّا) کیا ہے
ایک اور شاعر آبادؔ لکھنوی کا شعر بھی ملتا ہے:
شیریں نہ کس طرح صفت لب میں شعر ہوں
ٹوٹے ہوئے یہ آم ہیں ، سب ایک ڈال کے
ویسے آبادؔلکھنوی کا یہ مشہور شعر اُن کی پہچان ہے:
سننے والوں نے سنی مجھ سے حدیث آرزو
دیکھنے والے مِرا طرزبیاں دیکھا کیے

عموماً لغات میں لکھا ہوا ملتا ہے کہ آم ہندی زبان کا لفظ ہے۔ راجہ راجیسور راؤ اصغرؔ کی مؤلفہ ہندی اردولغت (اضافہ و مقدمہ از قلم قدرت نقوی، شائع کردہ : انجمن ترقی اردو۔کراچی: ۱۹۹۷ء) کی رُو سے آم تو ایک بیماری کا نام ہے۔ بدہضمی کو کہتے ہیں، جب کہ پھل آم کے لیے لفظ ہے: آمب۔ اس کے معانی یوں درج ہیں: آم، امبہ، نغزک۔ پنجابی سمیت پنجاب کی مختلف زبانوں میں نیز سندھی میں یہ لفظ تھوڑے بہت تغیر سے ملتا ہے اور برصغیر پا ک وہند کی کئی زبانوں اور بولیوں میں بھی یہی صورت حال ہے۔ غالباً سب سے مشہور متبدل (تبدیل شدہ ) لفظ ہے: امب۔ اسی سے امبیاں (کیریاں) بھی رواج میں سنائی دیتا ہے۔ اب جب کہ فی البدیہہ لکھتے لکھتے لغت اٹھاہی لی ہے تو لگے ہاتھوں اپنی پسندیدہ لغت، فرہنگ آصفیہ سے خوشہ چینی بھی کرلیں۔ یہاں لکھا ہے کہ یہ اسم مذکر ہے ۔ سنسکِرِت کے لفظ آمِر سے نکلا ہے، پالی (قدیم بدھ مت کی مذہبی زبان) میں انبو ہوگیا ، پراکِرِت (اردو کی ابتدائی شکل میں ایک بولی) میں اَنبم[Ambam]، نیز فارسی والوں نے اسے اَنبہ کرلیا ہے، پھر ایک شکل اَنب بھی لکھی ہے، یعنی وہی مقامی زبانوں کا امب اور پھر نغزک۔

یوں تو برصغیر پاک وہند کے متعدد شہروں کے مختلف آموں کی دھوم ہے ، مگر ایک شہر امروہہ کے متعلق قیاس ہے کہ یہ نام آم اور روہو مچھلی کے ملاپ سے بنا ہے کہ کسی دور میں ان دونوں چیزوں کی یہاں بُہتات تھی، مگر اس پر اہل امروہہ کا اتفاق نہیں۔ امریکا کی ریاست فلوریڈا کے متعلق پڑھا تھا کہ وہاں آم کے کچھ درخت ہیں، جن سے آم گرتے رہتے ہیں، مگر انتہائی کڑوے ، بدذائقہ ہوتے ہیں، لہٰذا بلدیہ کا عملہ روز صبح سویرے جھاڑو پھیرکر لے جاتا ہے….ہائے ہائے کیا عذاب الٰہی ہے، آم کھانے کو ترستے ہیں، وہاں کے لوگ!

آم کی کُل کتنی اقسام پائی جاتی ہیں، بندہ اس سے لاعلم ہے، مگر یہ پتا ہے کہ آموں کے شہر، میرپورخاص میں جب ’آموںکا سالانہ میلہ ‘ لگتا ہے تو کم وبیش ڈھائی سو اقسام کے آم نمائش کے لیے پیش کیے جاتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ کچھ سال قبل، خاکسار کے گھر کے پاس، لبِ سڑک، ایک باریش صاحب، بلاتکلف، جیسا کہ ہونا چاہیے، آم خوری فرمارہے تھے۔ بہت بے تکلفی سے اس ضمن میں گفتگو فرماتے ہوئے انکشاف کیا کہ میرا تعلق ’آموں کے شہر‘ سے ہے اور وہ جو میلے والے آم آپ کو ٹی وی پر نظر آتے ہیں، ہمارے شہر میں ہمیں نصیب نہیں ہوتے۔ اسی پر بس نہیں، گذشتہ سال ایک ٹیلی وژن چینل پر نشر ہونے والی روداد سے علم ہوا کہ لندن میں ہونے والی ’’آم نمائش‘‘ میں پاکستان سے کوئی ساڑھے چھَے سو (650)اقسام کے آم رکھے گئے ہیں۔ بندہ تو ششدر رہ گیا کہ یا اللہ ! یہ نعمت اس قدر مُتَنَوِع ہے اور ہمیں تو فقط سات آٹھ قسم کے آم ہی میسر ہیں۔ (’چھ‘ صرف آواز ہے، جبکہ گنتی میں شامل لفظ ہے: چھَے)۔ وہ جو ہمیں اسلامی تعلیمات میں بتایا گیا ہے کہ جنت میں ہر پھل کی سات سات قسمیں ہوں گی، اس کی زندہ مثال یہی آم شریف کی ذات شریف ہے۔

پچھلے برس میرپورخاص کے اسی آم ۔میلے میں ’انمول‘ نامی ایک قسم کی نمائش کی گئی جو قدرتی طور پر ذیابیطس کے مریضوں کے لیے مفید پایا گیا ہے۔ کیا شان ہے اس پروردگار کی!

صاحبان بات چل نکلی ہے، اب دیکھیں کہاں تک پہنچے ۔ اردو میں آم کی نسبت سے کئی کہاوتیں (اور محاورے) رائج ہیں یا کم ازکم متروک ہوکر بھی لغات کا حصہ ہیں، جیسے:
ا)۔ آم کے آم، گٹھلیوں کے دام (یعنی آم سے دُہرا فائدہ ہوا۔ آم کی فروخت سے نفع اور گُٹھلیاں الگ بیچنے سے اُن کے بھی دام مل گئے)۔ب)۔ آم کھانے سے کام یا پیڑ گننے سے۔ (یعنی اپنے کام سے کام رکھو)۔ج)۔ آم بوؤگے تو آم کاٹوگے، اِملی بوؤ گے تو املی کاٹو گے۔(نوراللغات)

ایک دور تھا کہ شہر کے ہر علاقے میں کم از کم ایک دو یا چار درخت آم کے ہوا کرتے تھے، آج پوری پوری بستی میں خال خال کوئی درخت نظر آتا ہے۔

ملیح آباد، ہندوستان کے ایک بزرگ حاجی کلیم اللہ خان المعروف ’مینگومہاراجہ‘ نے آموں کے متعلق مسلسل تحقیق کرکے تین سو سے زائد اقسام کے آم اپنے چودہ ایکڑ پر محیط باغ میں لگائے ہیں۔ انھیں ہندوستانی حکومت نے ’پدم شری‘ اعزاز سے نوازا ہے۔ اُن کا خاص کارنامہ یہ ہے کہ اُنھوں نے آم کی ایک ایسی قسم کاشت کی ہے جو سارا سال پھل دیتی ہے۔

’پھلوں کے بادشاہ‘ آم کی ایک قسم کا نام ’لال بادشاہ‘ ہے جسے بعض لوگ ’سُندَر‘ بھی کہتے ہیں۔ وہ واقعی بہت سُندَر ہے۔ ایک نظر میں لگتا ہے کہ آڑو اور سیب کے درمیان کی کوئی شئے ہے۔ افسوس اُس آم شریف سے فیض یاب ہونے سے محروم رہ گئے۔ تفصیل اس اجمال کی کیا بتائیں۔ ہوا کچھ یوں کہ ایک خاندانی بزرگ خاتون کے جنازے سے واپسی پر اس حقیر پُرتقصیر کو ایک جگہ ’لال بادشاہ‘ کی زیارت ہوئی۔ کیا جلوہ تھا، ابھی تک وہ منظر نگاہ میں گویا مقید ہے۔ والد صاحب بھی ساتھ تھے۔ اُنہوں نے اس میں کوئی دل چسپی نہ لی۔ خیال آیا کہ لے تو لوں، مگر ابھی میت کے گھر جانا ہے، وہاں لوگوں نے دیکھ لیا تو بہت نامناسب لگے گا۔ چھوڑ دیا صاحب۔ اُن دنوں مختلف اقسام کے آموں کی بہار تھی۔ بندہ ایک کے بعد ایک سے دل بہلارہا تھا۔ چونسہ جان چھوڑتا تو اصلی انوررٹول کی تلاش میں سرگرداں ہوجاتے…..نقلی کا ابھی کچھ دیر میں ذکر کرتا ہوں۔ ہوا یوں کہ اپنے علاقے کے بازار میں یہی صاحب ، ’لال بادشاہ ‘ نظر آگئے۔ انسان خطا کا پُتلا ہے، بس پھر خطا کربیٹھا۔ دام پوچھ کر کہا، پھر لیں گے، ابھی تو گھر میں چونسہ رکھا ہے۔ ہائے ہائے ….کچھ دن بعد وہ چل بسے، ہم کو تسلی دیے بغیر!

اچھا تو آپ میں سے کون کون ’آم پسند‘ یہ بتاسکتا ہے کہ اصلی انوررٹول کی پہچان کیا ہے اور اس کے نام پر کون سا آم بِک رہا ہے؟

دیکھیے اس ترکیب میں ’پرست‘ کا استعمال ہمیں مناسب نہیں لگتا۔ ہم ہیں توحید پرست۔ حق پرست کی ترکیب تو کب کی بدنام ہوچکی)۔ جناب! اصلی انوررٹول خواہ چھوٹا ہو یا درمیانہ (بڑا توخال خال ہی بازار میں دکھائی دیتا ہے) ، اُس کی خوشبو اس قد رتیز ہوتی ہے کہ دور سے سُنگھائی دیتی ہے اور ہاتھ لگاؤ تو انگلیوں میں کچھ دیر کے لیے بس جاتی ہے، نیز ذائقہ شہد جیسا میٹھا ہوتا ہے۔ کوئی دو سال قبل کھارادر سے بطور خاص ایک پیٹی خریدی۔ بخدا تین دن تک ٹیکسی سے اُس کی خوشبو نہ گئی۔ ہاں مگر اتنی خالص قسم ذرا کم ہی ملتی ہے، بلکہ شاید زندگی میں واحد موقع تھا جب اس قدر خالص انوررٹول نصیب ہوا۔ اس کی نقل ہیں، دیسی اور مٹکا آم۔ کسی ایمان دار ٹھیلے والے سے دریافت کریں تو تصدیق ہوجائے گی۔ ان کی قدر اور بازاری قیمت میں دگنے کا فرق ہے۔

آم کی دیگر اقسام میں ثمر بہشت کا ذکر اَب کتابوں تک ہی محدود ہے۔ یہ آم ہندوستان سے ہمارے سابق وزیراعظم محمد خان جونیجو مرحوم کے والد، یہاں، سندھ میں لائے اور اپنے گاؤ ں سندھڑی (سانگھڑ) کے نام پر اس کا نام رکھا۔ (اس نام کا درست تلفظ ہے: جوڑیں جو)۔ اس آم کی وجہ سے دنیا بھر میں ہمارا نام روشن ہوا، مگر افسوس! بازار میں اس کی سب سے گھٹیا قسم دستیاب ہوتی ہے۔ یہی حال ہے مشہور زمانہ ’لنگڑا‘ کا بھی ہے۔

گلاب کو ’پھولوں کا بادشاہ‘ کہا جاتا ہے اور بجا کہا جاتا ہے۔ (مَلِکہ کا لقب دیا گیا ہے ، گلِ داؤدی کو)۔ مگر جناب ’گلاب خاص‘ کسی گلا ب کا نہیں، بلکہ آم کی ایک قسم کا نام ہے۔ کسی زمانے میں شراب کو ’لال پری‘ کہا جاتا تھا، مگر ’توتا پری‘ نام ہے، آم کی ایک قسم کا۔ (زباں فہمی کے سلسلے میں ایک کالم میں طوطا کی بجائے توتا درست ہونے پر خامہ فرسائی کرچکا ہوں)۔ ہندوستان (غیرمنقسم) کی ایک ریاست کا نام مالدہ تھا، یہ آم کی ایک قسم کا بھی نام ہے۔ اس کے علاوہ آم شریف کی دیگر اقسام میں دسہری، سرولی، فجری، کالا چونسہ، غلام محمد، فجری کلاں، کلکٹر، بیگن پھلی، الماس اور نیلم معروف ہیں یا رہ چکے ہیں۔ آخری پانچ آم تو بہت بڑے اور ذائقے میں بالکل مختلف ہوتے ہیں، حتیٰ کہ راقم کو یہ کہہ کر اپنے گھر والوں کو کھلانا پڑتا ہے کہ پپیتا سمجھ کر ہی کھالو۔ یہ اور بات کہ اب ہم، بیماری کے علاوہ، پپیتے کے پاس بھی نہیں پھٹکتے اور گذشتہ چند سالوں میں اُس کی قدروقیمت اسی بنا پر بہت بڑھ چکی ہے کہ اُس کا کئی طرح دوائی استعمال [Medicinal use] عام ہورہا ہے۔

ہندوستان کے آموں کی متعدداقسام مثلاً الفانسو، بادامی، کیسر، ملغوبہ، رَس پوری، ہِم ساگرنیز دیگر ۲۸۳ اقسام (بشمول امام پسند، امراپلی، پیری، عالم پوربنیشن) سے یہاں بمشکل کوئی واقف ہوگا۔

لگے ہاتھوں یہ ذکر بھی ہوجائے کہ کالے چونسے کی بڑی ناقدری ہوتی ہے کہ اُس میں بال جیسا ریشہ ہوتا ہے، اس لیے اُسے کم کھایا جاتا ہے، حالاںکہ وہ بے چارہ تو موسم کے آخر تک چلتا رہتا ہے۔ رحیم یار خان اور قادرآباد کا کالاچونسہ بہت مشہور ہے۔ اس کے برعکس دوسرے چونسے کو ’سفید چونسہ‘ کہتے ہیں اور اس کی نقل بھی کم ازکم دو ہیں جو پچھلے کچھ سال سے بہت بِکتی ہیں اور بہت سخت، ٹھوس اور کم میٹھی ہوتی

ہیں۔ ہمارے علاقے کے ایک میوہ فروش (پھل فروش) کا دعویٰ ہے کہ کراچی میں بِکنے والا ملتانی آم تو ملتان سے آتا ہی نہیں، یہ دھوکا ہے۔ کہیں اور کا آم اُس کے نام پر بکتا ہے۔ بات کی بات ہے کہ کچھ عرصہ قبل ایک پھل والے نے انکشاف کیا اور ہمیں بیچا بھی: مالدہ۔ اُس کے بقول یہ سب سے آخر میں (بنوں سے) آتا ہے، دسمبر تک دست یاب ہوتا ہے، مگر ہمیں جو بیچا، کھانے کے لائق نہ تھا۔ پھر گذشتہ دسمبر میں ایک اور قسم دیکھی، نہ خریدی اور اُس کے بھی بعد، چینی آم دکھائی دیے۔ بس….اس پر کیا تبصرہ کروں؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔