انقلابی میجر اسحاق

زاہدہ حنا  اتوار 4 جون 2017
zahedahina@gmail.com

[email protected]

اوائل عمر میں ایک جملہ پڑھا تھا کہ کوئی قوم اگر اپنے حال کو سمجھنا چاہے تو اسے اپنے گزرے ہوئے کل کا کھوج لگانا چاہیے۔ وقت گزرتا رہا اور اس جملے پر یقین گہرا ہوتا گیا۔ ہمارے یہاں کئی دہائیوں سے اسکولوں میں تاریخ نہیں پڑھائی جاتی۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری نئی نسل اپنی حالیہ تاریخ سے واقف نہیں۔ وہ قرارداد مقاصد تو جانتی ہے کیونکہ معاشرتی علوم کی کلاس میں اسے یہ قرارداد گھول کر پلا دی جاتی ہے، اس کے علاوہ دوسرے حقائق سے اسے آگہی نہیں ہے۔

ہمارے وہ لوگ اب بڑی حد تک بھلائے جا چکے ہیں جنھوں نے اس ملک کے قیام کے ساتھ ہی یہاں ایک ایسا سماج تعمیر کرنے کی کوشش کی جس کی رگوں میں ایمانداری اور انصاف کا لہو دوڑتا ہو۔ ایسے لوگوں نے غلط الزامات کی بنیاد پر قید بامشقت کاٹی، ان پر ایسے الزام لگائے گئے جس کے سبب ملک کے اکثر حلقوں میں انھیں حقارت اور نفرت سے دیکھا گیا۔ انھیں غدار کہا گیا۔ لطف کی بات یہ ہے کہ انھیں ’غدار‘ کہنے والے خود غداری کا ارتکاب کر رہے تھے اور پاکستان جن اصولوں پر بنا تھا ان سے روگردانی کرتے ہوئے اسے سیاسی اور اخلاقی زوال کی ڈھلان پر دھکیل رہے تھے۔

ان ہی میں سے ایک میجرمحمد اسحاق تھے۔ آج ان کے قریبی ساتھیوں کے سوا لوگ انھیں کم کم جانتے ہیں۔ میجر محمد اسحاق نے یوں تو کئی کتابیں لکھیں لیکن شہید حسن ناصر پر ان کی کتاب ایک وقیع اور یاد رہنے والی کتاب ہے۔ وہ پاکستانی فوج میں میجر تھے، ان کا عہدہ ان کے لیے دارورسن کی آزمائش ثابت ہوا۔ وہ 1951ء میں پنڈی سازش کیس میں گرفتار ہوئے۔ وہیں فیضؔ صاحب سے ان کی قربت ہوئی اور اسی قربت کے سبب انھوں نے فیضؔ صاحب کے مجموعے ’’زنداں نامہ‘‘ کا دیباچہ تحریرکیا۔ وہ فیضؔ صاحب کو جس قدر عزیز تھے اس کا اندازہ فیضؔ صاحب کے اس مرثیے سے لگایا جا سکتا ہے جو انھوں نے میجر اسحاق کی رخصت پر لکھا تھا۔

’’لو تم بھی گئے ہم نے تو سمجھا تھا کہ تم نے/ باندھا تھا کوئی یاروں سے پیمان وفا اور/ یہ عہد کہ تا عمرِ رواں ساتھ رہو گے/ رستے میں بچھڑ جائیں گے جب اہل صفا اور/ ہم سمجھے تھے صیاد کا ترکش ہوا خالی/ باقی تھا مگر اس میں ابھی تیرِ قضا اور‘‘

انھوں نے پاکستان کی سماجی او ر سیاسی صورتحال پر 2 نہایت اہم مقالے لکھے اور انھیں اپنی بساط بھر زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پھیلایا۔ اب وہ کتابچے تقریبا نایاب ہیں۔ یہ مقالے ان کے ساتھی محفوظ خان شجاعت نے دوبارہ سے شایع کیے ہیں۔ ان میں سے ایک ’مشرقی پاکستان کا المیہ‘ اور دوسرا ’پنجاب کا المیہ‘ ہے۔ یوں تو یہ دونوں طویل مقالے ہماری نئی نسل کے لیے اس بناء پر اہم ہیں کہ یہ ہمیں ہماری تاریخ کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔ وہ تلخ حقائق جو بھلا دیے گئے ہیں، ان سے واقفیت اس لیے ضروری ہے کہ اس طرح ہم اپنی آج کی سیاست کو سمجھ سکتے ہیں۔

وہ غلطیاں جو ہمارے حکمرانوں اور سیاستدانوں نے کیں، ان سے واقفیت نئی نسل کے لیے لازمی ہے۔ ان کی یہ تحریریں ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ ابتدائی دنوں میں اگر ہم نے طالع آزماؤں کے سامنے ہتھیار نہ ڈالے ہوتے، تو ان بہت سے مسائل سے ہمارا سامنا نہ ہوتا جنھوں نے عوام کی زندگی اجیرن کر دی اور قوموں کی برادری میں ہمارا سر جھکا دیا۔ آج ان کی ایک مختصر کتاب کا ذکر ضروری سمجھتی ہوں کیونکہ یہ کتاب ہماری نئی نسل کو ان بہت سے حقائق سے آگاہ کرتی ہے جن سے وہ لا علم ہیں۔

’مشرقی پاکستان کا المیہ‘ کی ابتدائی سطروں میں انھوں نے لکھا ہے کہ 1968ء اور 1969ء کے درمیان مشرقی پاکستان میں جو خوں ریزی ہوئی، اس نے ہمیں متوحش کیا لیکن ہم 1971ء کے خونیں غسل کے لیے ہرگز تیار نہ تھے۔ انھوں نے یاد رہنے والا یہ جملہ لکھا کہ ’’موسمی طوفان کی طرح تاریخ کے طوفان بھی اسی طرح اُمڈتے ہیں‘‘ یہ موجِ خوں ہمارے سر سے گزر چکی اور ہماری وہ نسل جو 1971ء کے بعد پیدا ہوئی اس نے تاریخ نہیں پڑھی بلکہ یہ کہنا زیادہ درست ہو گا کہ تاریخ اسے پڑھائی نہیں گئی، اسی لیے میجر اسحاق نے مالی مشکلات کے باوجود ’’مشرقی پاکستان کا المیہ‘‘ دوسری مرتبہ شایع کی کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ ’’تاریخ اپنے دور میں ایک پیچ دار راہ اختیار کرتی ہے اور اس کی کوکھ کے اسرار و رموز عام طور پر لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل رہتے ہیں۔‘‘

’مشرقی پاکستان کا المیہ‘ ان کے عزیز ساتھی محفوظ خان شجاعت نے تیسری مرتبہ شایع کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ میجر اسحاق کی طرح وہ بھی یہ سمجھتے ہیں کہ اپنے ماضی کو جانے اور سمجھے بغیر ہم مستقبل کی راہ کا تعین نہیں کر سکتے۔

میجر اسحاق اس دنیا سے رخصت ہوئے لیکن ان کی تحریر ہمیں یاد دلاتی ہے کہ ’’تحریک پاکستان کا گہوارہ حقیقی معنوں میں مشرقی پاکستان ہی تھا۔‘‘ میجر اسحاق نے ’مشرقی پاکستان کا المیہ‘ بہت دل سوزی اور ایمانداری سے لکھی اور اس میں ہمیں بتایا کہ وہ لڑائی جو طبقاتی بنیادوں پر لڑی جانی تھی، وہ کس طرح فرقہ وارانہ رنگ اختیار کر گئی۔ مشرقی پاکستان کے عوام جو مغربی پاکستان کے لوگوں سے بے حد محبت کرتے تھے اور 65ء کی جنگ میں رو رو کر لاہور کی سلامتی کی دعا مانگتے تھے، وہ مغربی پاکستان کی پُر غرور اور نخوت زدہ افسرشاہی کے رویوں سے دور ہوتے چلے گئے۔

پہلی رنجش زبان کے نام پر ہوئی تھی، جو بڑھتے بڑھتے نفرت میں بدل گئی۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’’پاکستان کے حکمرانوں نے مرکزیت کا ایسا گردو غبار اڑایا کہ خود بھی اندھے ہو گئے۔ ان کو بار بار تنبیہہ ملی لیکن انھوں نے اس پر عمل کرنے کے بجائے تاریخی رو کے خلاف چلنا شروع کر دیا۔‘‘

تاریخ کے دھارے کے مخالف سمت میں تیرنا بہت سی تباہیوں کا سبب بنتا ہے۔ مشرقی پاکستان کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ وہ ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ 1954ء میں جب مشرقی پاکستان میں عام انتخابات ہوئے تو اس کے نتائج وہ آئینہ تھے جس میں مغربی پاکستان کی حکمران اشرافیہ اگر زمینی حقائق کو سمجھ لیتی تو پاکستان کی تاریخ کچھ اور ہوتی۔ لاکھوں بنگالیوں اور غیر بنگالیوں نے خون کا غسل نہ کیا ہوتا اور لاکھوں گھر سے بے گھر اور دربہ در نہ ہوتے، سب سے بڑھ کر یہ کہ پاکستان متحد ہوتا۔ مشرقی پاکستان میں ہونے والے عام انتخابات میں حکمران مسلم لیگ کو صرف 10 نشستیں ملیں جب کہ جگتو فرنٹ 223 نشستوں پر کامیاب ہوا تھا۔

میجر اسحاق نے بہت تفصیل سے اس دور کی سیاست کا جائزہ لیا ہے اور ہر مسئلے پر اپنی رائے بلا کم و کاست لکھ دی ہے۔ میجر صاحب بھی اس تقسیم کے قتیل ہوئے جو روس اور چین کے درمیان نظریاتی بنیادوں پر ہوئی اور جس نے ترقی پسندوں کی کمر توڑ دی۔ میجر اسحاق کا تعلق چین حامی گروپ سے تھا۔ ان کی بہت سی باتوں سے اختلاف ہو سکتا ہے لیکن پاکستانی عوام کے لیے ان کی دردمندی اور دل سوزی پر جو شبہہ کرے وہ کافر۔ انھوں نے دو قومی نظریے کے فلسفے کے بارے میں لکھا ہے۔ وہ اردو اور ہندی کے قضیے پر بھی بحث کرتے ہیں۔

1757ء میں پلاسی کے میدان میں سراج الدولہ بہادر کی انگریزوں کے ہاتھوں شکست کا معاملہ بیان کرتے ہیں۔ سندھ پر انگریزوں نے 1843ء میں جس بے ایمانی سے قبضہ کیا، وہ مختصراً اس کا بھی ذکر کرتے ہیں، 1857ء کی جنگ آزادی کی وجوہ اور اس میں ہندوستانی محب وطن عناصر کی ناکامی کو بھی زیرِ بحث لاتے ہیں۔ وہ مولانا بھاشانی کو یاد کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ان کے خیال میں:

’’مشرقی پاکستان کے مسلمان، مغربی پاکستان کے مسلمانوں کو ’’پیغمبر کا ہمسایہ‘‘ سمجھ کر ان کی تکریم کرتے تھے۔ حقیقت میں شمال مغرب کا علاقہ ہندوستان بھر کے مسلمانوں کے تخیل میں ہمیشہ اسلام کا منبع اور دینی دشمنوں سے نجات کا دروازہ سمجھا جاتا رہا ہے۔ چنانچہ 1826ء میں جہاد کے لیے ہجرت اسی سمت کو ہوئی اور ایک سو سال بعد 1920-22ء میں خلافت کی تحریک کے دوران بھی ہجرت ادھر ہی کو ہوئی۔ گویا جب وسط ایشیا کی طرف سے مسلمان حملہ آوروں کی آمد بند ہو گئی تو ہندوستانی مسلمانوں کے وفود ان کی تلاش میں ادھر کو نکل کھڑے ہوئے۔ پاکستان بنتے وقت بھی مشرقی پاکستان کے مسلمان سمجھتے تھے کہ مغربی پاکستان ان کی حفاظت کی گارنٹی ہے۔‘‘

مشرقی پاکستان کے عوام کی یہ خوش فہمی اس وقت ختم ہوئی جب 1965ء کی جنگ میں انھیں اندازہ ہوا کہ اس وقت ہندوستان اگر مشرقی محاذ پر چڑھائی کر دیتا تو ان کو بچانے والا کوئی نہیں تھا اور یہیں سے بات گلے شکوے سے کہیں آگے بڑھ گئی اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی لہر بلند ہوتی گئی۔

اپنے اس کتابچے میں انھوں نے کئی جگہ مارکس اور اینگلز کے حوالے دیے ہیں۔ آخر میں وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ: ’’پاکستان کے وجود کا انحصار بہت حد تک عوامی جمہوریہ چین کی خیر سگالی پر ہے۔‘‘

آج کے حالات میں ان کا یہ تجزیہ درست ثابت ہوتا نظر آ رہا ہے۔ وہ خود رخصت ہوئے لیکن اس کتابچے کی صورت میں ایک ایسی دستاویز چھوڑ گئے ہیں جو پاکستان کے جغرافیے کو رفو تو نہیں کر سکتی لیکن سیاسی شعور رکھنے والوں کے لیے غو ر و فکر کی راہیں کھولتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔