جنگ کے منڈلاتے بادل

ظہیر اختر بیدری  اتوار 4 جون 2017
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

پاکستان اور بھارت کی طرف سے جو بیانات آرہے ہیں ان سے یہی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ یہ دونوں ایک ارب سے زیادہ غریب اور پسماندہ عوام کے سروں پر جنگ مسلط کرنے جا رہے ہیں۔ بے چارے غریب عوام جو ملکوں اور حکمرانوں کی سیاست اور سیاسی لڑائیوں سے بے بہرہ ہیں اور اپنا سارا وقت دو وقت کی روٹی کے حصول میں لگا دیتے ہیں، جنگ کی ہولناکیوں اور جنگ سے پیدا ہونے والے عذابوں کا اندازہ تو کر لیتے ہیں لیکن جنگ کو روکنے میں کوئی اہم کردار ادا نہیں کر سکتے۔

البتہ دونوں ملکوں کے وہ سیاست دان جو جنگوں سے پیدا ہونے والی بتاہیوں کا ادراک رکھتے ہیں، ان کی ذمے داری ہے کہ وہ کسی بھی ممکنہ جنگ کی تباہ کاریوں کے پس منظر میں حکمران طبقات کو سمجھائیں کہ وہ جنگ سے دور رہتے ہوئے اپنے مسائل کا حل پرامن بات چیت کے ذریعے نکالنے کی آخری حد تک کوشش کریں اور اپنے اپنے ملکوں کے غریب اور نادار عوام کو بھی جنگ کی ہولناک تباہ کاریوں سے آگاہ کریں تا کہ وہ عقل و شعور سے بے بہرہ رہتے ہوئے جذبات کی رو میں بہہ کر زندہ باد، مردہ باد کی تکرار میں نہ پڑ جائیں۔

آج بھارت اور پاکستان کے تعلقات جس نازک ترین مرحلے میں داخل ہو گئے ہیں، پہلے اس کے محرکات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلا اور اہم محرک، مسئلہ کشمیر ہے، بھارت کی یہ کم فہمی ہے کہ وہ تقسیم ہند کے محرکات کو سمجھے بغیر کشمیریوں کو اپنے کنٹرول میں رکھنے کی احمقانہ کوشش کرتا رہا ہے۔

یہ بات درست ہے کہ بھارتی حکمران اس ریاست کے عوام کی حمایت حاصل کرنے کے لیے بے تحاشا دولت استعمال کر رہا ہے اور ترغیبات فراہم کر رہا ہے، لیکن وہ اس مسئلے کے مضمرات اور کشمیریوں کی نفسیات کو سمجھنے سے قاصر رہا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ 6،7 لاکھ فوج کے ذریعے ڈیڑھ کروڑ سے زیادہ کشمیریوں کو قابو کر لے گا۔ اسی بھول اور غلط فہمی کا نتیجہ یہ ہے کہ آج پورا کشمیر آزادی اور پاکستان زندہ باد کے نعروں سے گونج رہا ہے اور مقبوضہ کشمیر کے گھروں پر پاکستانی جھنڈے لہرا رہے ہیں۔

اگر بھارتی حکمران اب بھی اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ وہ 7 لاکھ فوج کے ذریعے کشمیریوں کو دبا دیںگے تو یہ ان کی بھول ہی کہلائی جا سکتی ہے۔ اس حقیقت کو اب جھٹلانا ممکن نہیں کہ اب یہ لڑائی یا یہ آگ سارے کشمیر میں پھیل چکی ہے۔ اس حوالے سے بھارت کا موقف یہ ہے کہ یہ آگ ’’مداخلت کا روں کے ذریعے کشمیر میں پاکستان بھڑکا رہا ہے‘‘۔

چلیے مان لیتے ہیں کہ اس جدوجہد کو چند مداخلت کار ہوا دے رہے ہوں لیکن کیا پوری وادی مداخلت کاروں اور گھس بیٹھیوں سے بھری ہوئی ہے؟ کیا آئے دن کشمیر کی سڑکوں پر اپنا خون بہانے والے گھس بیٹھیے ہیں؟ کیا لاکھوں کی تعداد میں کشمیر میں جاں بحق ہونے والے گھس بیٹھیے ہیں؟ کیا ان کے جلوس، جنازہ میں لاکھوں کی تعداد میں شرکت کرنے والے بھی گھس بیٹھیے ہی ہیں؟

اصل مسئلہ یہ ہے کہ بھارت کا حکمران طبقہ اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود کشمیریوں کی حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔ اب اس کے پاس سوائے جنگ کے کوئی آپشن نہیں رہا۔ حالانکہ وہ کشمیر کی ابتر صورتحال کے جواب میں بلوچستان میں دہشت گردی سمیت کئی دوسرے جرائم کو ہوا دے رہا ہے۔ ابھی تازہ واردات میں ایک چینی جوڑے کو اغوا کر لیا گیا ہے، اس قسم کی کارروائیوں میں اگرچہ دہشت گرد بھی شامل ہیں لیکن ان دہشت گردوں کو شہ دینے یا بلوچستان میں خوف کی فضا پیدا کرنے اور شدید افراتفری پیدا کرنے سے کشمیر میں لگی آگ ٹھنڈی ہو سکتی ہے؟

پاکستان اور چین کے درمیان ہونے والے اقتصادی راہداری منصوبہ سے بھارت سخت ناراض نظر آتا ہے اور عام خیال یہ ہے کہ بلوچستان میں غیر یقینی اور خوف کی فضا قائم کرنے کا مقصد بھی اس منصوبے کو ناکام بنانا ہی ہے۔ اس حوالے سے سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس اقتصادی راہداری کے منصوبے پر چین کے دستخط کرنے کی بنیادی وجہ پاکستان کی جغرافیائی صورت حال کی روح ہے، کیا بھارت کسی ملک کا جغرافیہ بدل سکتا ہے؟ چین اور پاکستان کی طرف سے بھارت سمیت علاقے کے تمام ملکوں کو اس معاہدے میں شرکت کی کھلی دعوت دی جا رہی ہے۔

اگر بھارت اپنے اور علاقے کے غریب عوام کے بہتر مستقبل کا حامی ہے تو اس معاہدے کی مخالفت کرنے کے بجائے اس معاہدے میں شامل ہو کر اپنے اور پاکستان کے غریب عوام کو روزگار کے مواقع فراہم کرنے اور اس معاہدے کے ثمرات عوام تک پہنچانے کی کوشش کرتا۔ ہم جس نظام میں زندہ ہیں اس میں ترقی کے ثمرات اوپر ہی اوپر اشرافیہ اچک لیتی ہے، اگر بھارت کا حکمران طبقہ عوام کی بہتری چاہتا ہے تو وہ اس معاہدے میں شریک ہو کر ایسے اقدامات کر سکتا ہے کہ اس معاہدے کے ثمرات عوام تک پہنچیں گے۔ امریکا بھی اس معاہدے سے خوش نہیں ہے، اگر بھارت اس معاہدے کی مخالفت کرے گا تو دنیا اسے امریکی ایجنٹ کا نام ہی دے گی۔

پاکستان اس وقت بے شمار داخلی اور خارجی سنگین مسائل سے دو چار ہے، سیاست افرا تفری کا شکار ہے۔ پاناما لیکس کے حوالے سے ایک سنگین اور مشکل صورت حال کا سامنا ہے۔ اس تناظر میں اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی باتیں کی گئیں تو پھر جنگ کے امکانات کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ نہ اینٹ آئے نہ پتھر جائے، دونوں ملکوں کے ذمے داران مذاکرات کی طرف آئیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔