اندھیرے گھر کی کہانی

نسیم انجم  اتوار 4 جون 2017
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

عبداللہ کی عمر آٹھ سال ہے، وہ چوتھی جماعت میں پڑھتا ہے، عبداللہ کا تعلق ایک متوسط گھرانے سے ہے، اس کے ابو ایک پرائیویٹ کمپنی میں ملازمت کرتے ہیں، تنخواہ اتنی ہے کہ گزارا ہوجاتا ہے، عبداللہ کی امی ایک اسکول میں پڑھاتی ہیں ان کی تنخواہ سے بچوں کی فیس اور ضرورت کی چیزیں خریدی جاتی ہیں، عبداللہ کی امی بے حد سلیقہ مند خاتون ہیں، اسی لیے بچت کر کرکے فریج، ٹی وی اور سلائی مشین خرید لی ہے، جب وقت ملتا ہے تو وہ محلے والوں کے کپڑے بھی سی لیتی ہیں، اس طرح ان کا گھرانہ فاقہ کشی سے دور ہی رہتا ہے۔

جیسے جیسے عبداللہ اور اس کے چھوٹے بہن بھائی بڑے ہو رہے ہیں اس کے گھر کے، محلے کے شہر کے اور ملک کے حالات بدل رہے ہیں۔ نفسا نفسی اور افراتفری کا دور ہے، اقربا پروری نے باصلاحیت لوگوں کو پاتال میں گرا دیا ہے، بے ضمیر اور مفاد پرستوں کا ایک غول ہے وہ ہر اس جگہ پہنچ جاتا ہے، جہاں سے انھیں ان کی ضرورت اور پسند کی وہ چیزیں میسر آجاتی ہیں، جن پر ان کا حق نہیں تھا لیکن ہوس تو ایک ایسی دلدل کا نام ہے جو کبھی نہیں بھرتی ہے، سامان تعیش جس قدر ڈالو اس کا منہ مزید بڑا ہوتا جاتا ہے۔ ہوس پرستوں نے لوگوں کی زندگیوں میں زہر گھول دیا ہے۔

عبداللہ کے گھر دوسرے مسلمان بھائیوں کی ہی طرح رمضان کی تیاریاں دھوم دھام سے ہوتی ہیں، فریج اور کچن کی صفائی کے ساتھ ساتھ پورے گھر کی جھاڑ پونچھ اور ضرورت کے تحت دیواروں پر رنگ کرنا بھی ناگزیر ہوجاتا ہے۔ اس بار بھی عبداللہ کے گھر کے در و دیوار چمک رہے تھے، پورے گھر میں رمضان کی آمد نے ایک نور سا پیدا کردیا تھا، دلوں میں ایمان کی روشنی مزید تیز ہوگئی تھی، اس خبر نے بھی تقویت پہنچائی تھی کہ ماہ رمضان میں کے ای کے مالکان اور سربراہان عوام پر ہلکا ہاتھ رکھیں گے، اور مسلمان ہونے کا ثبوت فراہم کریں گے۔

لیکن سارے دعوے اس وقت دھرے رہ گئے جب نماز ظہر کے وقت شدید گرمی کے عالم میں شہر کراچی میں بسنے والوں کا سکون اور چاند رات کی خوشی درہم برہم ہوگئی، بجلی ایسی گئی کہ تراویح کے ساتھ ساتھ سحری بھی اندھیرے میں کی، اور دو روز تک متواتر ایسا ہی حال رہا، یہ لوڈ شیڈنگ نہیں بلکہ عذاب تھا، اللہ نے فرمایا ہے کہ جب رعایا کے اعمال خراب ہوجائیں گے، نفرت، تعصب کی فضا پروان چڑھے گی اور اپنا، اپنے ہی کا گلا کاٹے گا، اور زن، زر، زمین کی خاطر زمین کو خون سے تر کردیا جائے گا، تو ایسے لوگوں پر اللہ ظالم حکمران مقرر کرے گا۔ سو ایسا ہی ہو رہا ہے۔

صاحبان اقتدار نے اپنے گھروں کو جنت بنالیا ہے، جہاں ٹھنڈی ہوائیں ہیں، سبزہ، درخت، پھول، پھل، پودے، بھیگی ہواؤں میں رقص کرتے ہیں بلبلیں چہچہاتی ہیں، کوئلیں کوکتی ہیں اور آم کے درختوں کی خوشبو دور دور تک کا سفر کرتی ہے۔ ان کے برعکس غریب انسان غربت کی چکی میں صبح و شام پستا ہے، کھانے کو اسے میسر نہیں، تن پر اچھا کپڑا نہیں، علاج و معالجے کے لیے ڈاکٹر کی فیس نہیں، گلی، محلے کچرے کی ڈھیریوں سے سج گئے ہیں، نکاسی آب کا معقول انتظام نہیں، سیوریج کا گندہ پانی گھروں اور مساجد کے سامنے بہتا نظر آتا ہے۔

نمازیوں کے کپڑے خراب ہوجاتے ہیں، کپڑوں کو پاک کرنے کے لیے شفاف پانی نہیں، عبداللہ اندھیرے اور گرمی سے سخت پریشان تھا، وہ اپنے دادا سے سوال پر سوال کر رہا تھا۔ دادا آخر یہ بجلی اور پانی والے اتنے ظالم کیوں ہیں؟ یہ مسلمانوں سے نفرت کرتے ہیں کیا؟ جب ہی تو ہر خاص تہوار پر پانی اور بجلی بند کردیا جاتا ہے۔ کیا ان کے پاس اللہ نہیں ہے جس سے وہ ڈریں، دادا مجھے تو اللہ سے بہت ڈر لگتا ہے۔

تمہیں کیوں ڈر لگتا ہے؟ دادا نے مسکرا کر کہا، دادا! میں سوچتا ہوں کہ انسان کو ایک دن تو اللہ کے پاس جانا ہی ہے، جب ہم کسی کے ساتھ زیادتی کریں گے تو وہ ہم سے ضرور پوچھے گا کہ ’’ہم نے ایسا جانتے بوجھتے کیوں کیا؟‘‘ دادا! وہ کہے گا نا، کہ قرآن پاک میں تو زندگی گزارنے کا طریقہ بتادیا گیا تھا، پھر ایسی زندگی کیوں نہیں گزاری؟ ہمارے پاس کوئی جواب نہیں ہوگا، تو پھر اللہ ہمیں جہنم میں ڈال دے گا، آگ، بچھو، سانپ۔۔۔۔ اف! دادا! بڑا خوف آتا ہے عبداللہ نے جھرجھری بھری اور اپنے دونوں کانوں پر اپنے ہاتھ رکھ لیے۔

ہاں! عبداللہ! تم ٹھیک کہتے ہو، قرآن پاک تو ضابطہ حیات ہے لیکن لوگ اس کی تعلیم کو اور اپنی قبر کی آگ کو بھلا بیٹھے ہیں وہ جانتے بوجھتے ان لوگوں پر ظلم کر رہے ہیں ، جو ان کے محسن ہیں، اسلامی بھائی ہیں، پاکستان بنانے میں ہجرت کرنے والوں کا بڑا کردار ہے، اپنا مال و دولت، اولاد، ماں باپ قربان کرنے کے بعد وہ وطن نصیب نہ ہوسکا جس کا خواب اکابرین پاکستان نے دیکھا تھا اور جنھوں نے بڑی سے بڑی قربانی سے دریغ نہیں کیا تھا اور ان لوگوں نے بھی انصار کا کردار ادا کیا تھا۔ لیکن ان کی اولاد نے فرعونوں اور یزیدیوں کی جگہ لے لی ہے۔

دادا، دادا! لائٹ پھر چلی گئی اور امی کی چیخ کی آواز آپ نے سنی۔ عبداللہ آواز کی سمت دوڑا ہے۔ اوہ۔۔۔۔دادا! دادی گرگئی ہیں، جلدی آئیں، انھیں اٹھائیں۔ اندھیرا بہت ہے کچھ سجھائی نہیں دیتا ہے۔ دادا اسٹک کی مدد سے آگے بڑھتے ہیں، راستے میں رکھی ہوئی کرسی سے ٹکرا کر گر پڑتے ہیں، عبداللہ بھاگا ہوا آیا۔ اس نے دادا کو اٹھانے کی کوشش کی ۔ اتنی دیر میں عبداللہ کے امی ابو ٹارچ ڈھونڈنے میں کامیاب ہوگئے۔ اندھیرے نے ہر چیز کو نگل لیا ہے۔

موبائل، ایمرجنسی لائٹ کی چارجنگ ختم ہوچکی ہے، گھر میں رکھی اور بازار سے خریدی ہوئی موم بتیاں سحری افطاری بنانے اور دوسرے ضروری کاموں کے انجام دینے میں جل چکی ہیں۔ اسی اثنا میں لائٹ آگئی، اب ہر چیز واضح ہے۔ ارے یہ کیا ہو گیا؟ عبداللہ کے والد کی چیخ بلند ہوتی ہے، زرینہ قریب نہیں آنا، میں، میں مین سوئچ بند کرتا ہوں۔

دادی بھی آگئی ہیں، ایک کہرام اٹھا ہے، محلے والے جمع ہوگئے ہیں۔ لوگوں کی آوازیں گونج رہی ہیں، فرش پر پانی پڑا تھا اور قریب ہی پانی کی موٹر، اس پر ہی جاکر گرے عبداللہ دادا کو اٹھانے کی کوشش کر رہا تھا، اسی دوران لائٹ آگئی۔ موٹر کا بغیر سوئچ کا تار موت کا سبب بن گیا، لمحے بھر میں عبداللہ اور دادا ایک ساتھ رخصت ہوئے ہیں۔

لوگ کے ای کے ادارے کو کوس رہے ہیں، احتجاج کرنے کے لیے سڑکوں پر آگئے ہیں، برا بھلا کہہ رہے ہیں۔ لیکن یہ لوگ برا نہیں مانتے ہیں، بڑے دل گردے کے مالک ہیں، ایک عبداللہ کے گھرانے پر کیا منحصر ہے، ہزاروں عبداللہ اور دادا کے ای کی غفلت کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ لیکن ارباب اقتدار کی بے حسی اپنی جگہ ہے۔ برسات کے زمانے میں بھی بجلی کے کھلے تار شہریوں کی ہلاکت کا سبب بنتے ہیں۔ دکھ جھیلیں بی فاختہ کوے انڈے کھائیں۔ ایسے ہی معاملات پورے ملک میں درپیش ہیں۔ آج جو آٹھواں روزہ ہے، لیکن لوڈشیڈنگ کا عذاب ختم ہونے کا نام نہیں لیتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔