زیاں …

شیریں حیدر  اتوار 4 جون 2017
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

’’اکمل تم ساری پلیٹیں، گلاس، چمچے اور کانٹے اکٹھے کر کے اس کالے لفافے میں ڈالو اور اگر ایک لفافہ بھر جائے تو اور لفافہ لے لینا اور سارے استعمال شدہ برتن کوڑے دان میں ڈال دو… ( وہ تمام برتن disposable  تھے) اور ناصر تم بھی دو بڑے کالے لفافے لو اور یہاں ڈشوں میں جتنا کھانا بچا پڑا ہے اسے بھی لفافوں میں ڈال کر باہر کوڑے دان میںپھینک دو… گھر کے سب لوگ اور ملازمین پیٹ بھر کر کھا چکے ہیں، کل دن بھر روزہ ہو گا اور کل شام کو پھر ایک پارٹی سو یہ کھانا تو یوں بھی ضائع ہی جانے والا ہے… ‘‘ میں قہوے کی چسکیاں لیتے ہوئے اپنی میزبان کی ہدایات سن رہی تھی جو وہ ملازمین کو دے رہی تھیں مگر ان کا اثر میرے وجود پر ہو رہا تھا۔ میں نے تھوڑی دیر پہلے ہی میزوں پر بچا ہوا کھانا دیکھا تھا۔

چند منٹ قبل تک ہم لان میں لگائی گئی اسی طویل میز کے کنارے کھڑے خوش گپیوں اور میٹھا کھانے میں مصروف تھے، لان میں مصنوعی روشنیاں دن کا سماں پیدا کر رہی تھیں۔ باوردی تو نہیں مگر صاف ستھرے سفید ملبوسات میں گھر کے درجنوں ملازمین کھانے کے ڈونگے اور ڈشیں لا اور لے جا رہے تھے۔ ان کا انداز مودب تھا اور ان کی مصروفیت دیدنی۔ شہر کے ایک مشہور کاروباری گھرانے میں افطاری ہو اور ایسا اہتمام نہ ہو… ممکن ہی نہ تھا۔ افطاریاں بھی اب ’ تقریب کچھ تو بہر ملاقات چاہیے‘ کی مثال بن گئی ہیں۔

افطاری اور کھانے کے درجنوں اقسام کے لوازمات جن میں سے بہت سوں کو کھانے کی نوبت بھی نہ آئی تھی کیونکہ روزہ افطار کرنے کے بعد فوراً اتنا پانی پی لیا جاتا ہے کہ کھانا کھانے کی گنجائش کم ہو جاتی ہے… کھانا اتنا بچا ہوا تھا کہ ہم سب بار بار یہی کہہ رہے تھے، کھانا بہت زیادہ بنا دیا گیا تھا، بیس پچیس لوگوں کے لیے جو کھانا بنا تھا اسے سو لوگ پیٹ بھر کر کھا سکتے تھے۔ یہ سوچ کر میرا دل کانپ گیا کہ سیروں کے حساب سے بچا ہوا وہ کھانا، کسی انسان یا حتی کہ کسی جانور کا بھی پیٹ بھرنے کے بجائے کوڑے دان میں جانے والا تھا۔کاش، میرا بس چلتا تو میں اس کھانے کو اٹھا کر لے جاتی!!!!

رات اتر رہی تھی مگر اس وقت بھی ان سیکڑوںلوگوں کو ڈھونڈنا مشکل نہ ہوتا جو کھلے آسمان تلے خالی پیٹ سونے کی کوشش کر رہے ہوں گے، کئی پلوں کے نیچے وہ خاندان آباد ہوں گے جہاں سحری اور افطاری میں فاقہ ہوتا ہو گا… کئی جھگیاں ہوں گی جہاں اس شام چولہا نہ جلا ہو گا کہ اس روز اس گھر کے کمانے والے کو مزدوری نہ ملی ہو گی۔ کئی یتیم خانوںمیں بچے اس سے ناقص خوراک کھا کر یا بھوکے سوئے ہوں گے۔ پاکستان جیسے غریب ملک میں جہاں نصف سے زائد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے، اس ملک میں بھوکوں ، فاقہ زدگان ، مستحقین ا ور ضرورت مندوںکو ڈھونڈنے کے لیے کسی چراغ کی بھی ضرورت نہ ہوتی۔

اگر اس وقت ڈھونڈنا مشکل تھا تو کھانا رات کو فریج میں رکھا جا سکتا تھا اور صبح اٹھ کر ملازمین اسے تقسیم کر دیتے، کسی علاقے میں کسی زیر تعمیر عمارت میں چلے جاتے تو وہاں درجنوں مزدور اور مستری کام کر رہے ہوتے ہیں، کسی دارالامان، کسی یتیم خانے، کسی فلاحی مرکز میں یا کسی غریب بستی میں وہ کھانا بلا شبہ پچاس لوگ کھا لیتے… ایسے پچاس لوگ جو کئی دنوں سے بھوکے بھی ہوتے، ان کو بھی اس کھانے میں سے حصہ دیا جاسکتا تھا۔

ملازمین کھانا اور برتن جمع کر کے ان سیاہ لفافوںمیں ڈال رہے تھے جو تھوڑی دیر کے بعد کوڑے دانوں کے شکم میں چلے جانے والے تھے۔ ’چلو… اور کوئی نہیں تو کاکروچ اور چوہے کھا لیں گے اس کھانے کو جن کا بسیرا کوڑے دانوںکے گرد ہوتا ہے… ‘ میں نے سوچ کر خود کو تسلی دی کہ وہ بھی اللہ کی مخلوق ہیں۔

کبھی کبھار میں بھی سوچتی ہوں کہ اللہ کی کیا تقسیم ہے، کسی کو اتنا دیا ہے کہ سنبھالا نہیں جاتا، کسی کے پاس کچھ نہیں، کسی سے جو کچھ تھا وہ چھن گیا، کسی سے چھنا ہوا اس کو واپس مل گیا۔ وہی ذات ہے جو اپنے بھیدوں کو جانتی ہے، ہمارے فہم وہاں تک رسائی پانے کے اہل نہیں۔ وہ دے کر، نہ دے کر، دے کر چھین کر اور چھین کر لوٹا دینے کی طاقت رکھتا ہے، اس نے دنیا کی تماشہ گاہ اسی لیے سجا رکھی ہے کہ اس میں وہ ہماری رسیاں دراز کر کے دیکھتا ہے کہ ہم کہاں تک اس کے احکامات سے دور بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں۔

وہ قدرت رکھتا ہے کہ ہمیں ہر اس لمحے پر روک لے کہ جب ہم غلطی کریں یا حتی کہ غلطی کا ارادہ کریں، مگر وہ دیکھتا ہے، جانچنا چاہتا ہے کہ جن انسانوں کو میں نے شعور اور طاقت دی ہے وہ کیا کرتے ہیں، ان کے دائرہ اختیار میں جو کچھ ہے اس میں سے کس پر وہ درسمت چلتے ہیں اور کس پر نہیں۔ ان ہی کا نام نامہ اعمال ہے!!

اگر یہ باتیں میں سوچ رہی تھی تو کیا یہی باتیں ہماری میزبان کے ذہن میں نہیں آئی ہوں گی؟ کوئی مسلمان کسی دوسرے مسلمان کی ضروریات سے کس طرح غافل ہو سکتا ہے چاہے وہ امارت کے کسی بھی درجے پر پہنچ جائے، رہتا تو وہ اسی دنیا کا باسی ہے، اپنے ارد گرد کے ماحول سے کوئی کیونکر انجان رہ سکتا ہے؟ اور کہیں سے نہیں تو اخبارات اور ٹیلی وژن سے علم ہو جاتا ہے کہ ملک میں غربت کی شرح کیا ہے۔ ہمارے گھروں کے ملازمین کے توسط سے ہم ان کے گھروں کے حالات جانتے ہیں اور اس سے بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ان جیسے ان انسانوں کو جو ہم سے مالی لحاظ سے کمتر ہیں، جن کی ضروریات کا دامن ہماری تعیشات کے پیالے سے بہت چھوٹا ہے… کیونکر نظر انداز کر سکتا ہے؟

اگلے روز ایک مقامی ہوٹل میں افطاری اور ڈنر کے لیے گئے تو وہاں ایک بورڈ انتہائی واضح طور پر بوفے کی ٹیبلوں کے پاس لگایا گیا تھا، جس پر تحریر تھا، ’’ کل کھانا ضایع ہوا… سات کلو ۔ کم از کم چودہ لوگ پیٹ بھر کروہ کھانا کھا سکتے تھے! ‘‘ اس کے آگے ایک دن پہلے کی تاریخ تھی۔ اس سے اندازہ ہوا کہ وہ کھانا جو ہم لوگ پلیٹوںمیں ڈال لیتے ہیں مگر اس کے بعد کھاتے نہیں، اس کھانے کو جب اکٹھا کیا گیا تو اس کا وزن وہ نکلا۔ اس لیے کہ لوگ اسے پڑھتے ، سمجھتے اور اتنا ہی کھانا اپنی پلیٹوںمیں ڈالیں جتنا کہ کھا سکتے ہیں۔

میرے بیٹے عبداللہ نے مجھے بتایا کہ اس کے دور طالب علمی میں اس کے ہوسٹل کے ایک گروپ کے لڑکے رات کو ہوسٹل سے نکلتے تھے، مختلف ہوٹلوں سے بچا ہوا وہ کھانا جسے بالآخر کوڑے دانوںمیں چلے جانا ہوتا تھا، مانگ کر، جمع کر کے اسے چھوٹے پیکٹ بنا کر شہر کی غریب بستیوں میں ان ضرورت مندوں میں بانٹ دیتے تھے جن کے لیے یہ کھانا من و سلوی سے کم نہیں ہوتا تھا۔ یہ ایک مثال ہے، اس کے علاوہ بھی نوجوانوں کے ایسے جذبوں اور انسانی ہمدردی کے کاموں کی تفصیل سنتی ہوں تو یقین آ جاتا ہے کہ اقبال اپنی نوجوان نسل سے بالکل مایوس نہیں تھے اور انھیں امید تھی کہ اس نسل کو ذرا سی راہنمائی اور مثبت سمت مل جائے تو یہ ہم سے بہتر ہیں۔

ان خواتین کے قصے بھی سنتی ہوں جو انتہائی ارزاں نرخوں پر مزدور طبقے کے لیے یا غریبوں کے لیے کھانا مہیا کرتی ہیں… شاید وہ اس کھانے کی جو قیمت وہ لیتی ہیں وہ فقط لوگوں کی عزت نفس بچانے کے لیے ہے ورنہ اس روٹی پر جو خرچہ آتا ہو گا وہ مجھے اور آپ کو بھی معلوم ہے۔ وہ جانتی ہیں کہ جس نے کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلانا، اس کے لیے اس کی عزت نفس اور اس کی سفید پوشی ہی اس کی اصل متاع ہے۔

اس کے بر عکس… ملک میں جابجا دستر خوان اور تنور کھلے ہوئے ہیں جہاں پر ہر روز ہزاروں لوگوں کو بالکل مفت کھانا مہیا کیا جاتا ہے۔ ہر روز ان دسترخوانوں پر وہی مخصوص لوگ ، اسی مخصوص وقت پر چوکڑی مار کر یا کرسیوں پر ڈٹ کر بیٹھ جاتے ہیں، مگر میں اس رجحان کے خلاف ہو۔ یوں مفت کا دستر خوان ہر روز سجتا ہے تو اس پر ہر روز کھانے والے بھی وہی لوگ ہیں، وہ کوئی کام نہیں کرتے، ان کاکام ہی یہی رہ جاتا ہے کہ وہ کھانے کا انتظار کریں۔ شاید ان کا کوئی خاندان نہیں ہوتا ہوگا، اگر ہوتا ہو گا تو ممکن ہے کہ سب اکٹھے وہاں مفت کی دعوت اڑانے پہنچ جاتے ہوں گے۔ کھلانے والوں اور کھانے والوں کی نیتیں اور اعمال تو اللہ تعالی ہی جانتا ہے مگر اس طرح ان لوگوں کو غیر اعلانیہ سہی مگر بھکاری بنا دیا گیا ہے۔

جانوراور انسان میں قدر مشترک پیٹ کا بھرنا ہے، جانور اس وقت تک خوراک کے حصول کی کوشش کرتا ہے جب تک کہ اس کا ایک وقت کا پیٹ بھر جائے، انسان بھی سارے دھندے پیٹ کی خاطر کرتا ہے مگر جانور اور انسان میں واضح تفریق یہ ہے کہ انسان کو اللہ تعالی نے فہم عطا کیا، حساس دل عطا کیا۔ اس کی اصلاح اور تربیت کے لیے پیمبر بھیجے، اسے مذہب اور معاشرے کے اصولوں کا پابند بنایا کہ انسان کو اسی لیے پیدا کیا گیا، وہ اللہ کی عبادت کرے اور اس کے بندوں کا احساس کرے۔ بارہا کہا گیا ہے کہ حقوق العباد کی جواب طلبی، حقوق اللہ سے بڑھ کر ہو گی، ہمیں اس جوابدہی کا بھی خوف نہیں!!

ہمیں اس مبارک مہینے میں مستحقین کو تلاش کر کے ان کا حق ان تک پہنچانے کی ضرورت ہے، وہ حق جو اللہ نے ان کا ہم پر لاگو کیا، اللہ کے دیے میں سے ہی دینا ہے ہم نے، کون سا ہم کہیں اور سے لے کر آتے ہیں۔ رزق کا زیاں نہ کریں، اپنے سے نیچے والوں کا خیال رکھیں، جتلا کر نہ دیں ، اپنی آمدنی کو پاک و طاہر کریں اور دعائیں حاصل کریں۔ اللہ تعالی ہم سب کی جسمانی اور مالی عبادات قبول و مامون فرمائے۔ آمین ثم آمین۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔