بھارت میں بڑھتی ہوئی مذہبی جنونیت

شبیر احمد ارمان  اتوار 4 جون 2017
shabbirarman@yahoo.com

[email protected]

اس وقت بھارت میں بڑھتی ہوئی مذہبی جنونیت  اپنی انتہا پر ہے پہلے یہ جنونیت نجی سطح پر تھی، اب سرکاری طور پر پروان چڑھ رہی ہے کیونکہ بھارت میں گائے ، بیل ، بھینس اوراونٹ کو ذبح کرنے پر پابندی عائد کردی گئی ہے پابندی عائد ہونے کے بعد یہ جانور ذبیحہ کے لیے فروخت بھی نہیں کیے جاسکیں گے۔

بھارتی سرکاری حکام کے مطابق ان جانوروں کی خرید وفروخت صرف زرعی مقاصد کے لیے ہوگی،خریدنے والے کو حلف نامہ بھی جمع کرانا پڑے گا کہ وہ گائے، بیل، بھینس یا اونٹ کو ذبح کرنے کے لیے نہیں بلکہ زرعی مقاصد کے لیے خرید رہا ہے۔

بھارت کی وزارت ماحولیات نے انسداد بے رحمی حیوانات قانون کے تحت جاری نوٹیفکیشن میں جانوروں کی منڈیوں کے انجمن کے عہدے داروں کو پابند کیا ہے کہ منڈی میں کوئی شخص کوئی بچھڑا، گائے، بھینس، بیل یا اونٹ لے کر نہیں آئے گا، اگر کوئی شخص جانور لے کر منڈی میں آئے گا تو اس کے پاس مالک کا نام ، پتہ اور تصویر کے ساتھ ایک دستاویز ہونا لازمی ہے جس پر یقین دہانی کرائی گئی ہوکہ اس جانورکو ذبح نہیں کیا جائے گا۔

کچھ روز قبل بھارتی شہر علی گڑھ میں مقامی افراد نے بھینس ذبح کرنے کے الزام میں ایک شخص کو تشدد کا نشانہ بناکر لہو لہان کردیا گیا تھا، پولیس بھی خاموش تماشائی بنی رہی ، بھارتی پولیس نے واقعے میں ملوث پانچ افراد کوگرفتار کرنے کا دعویٰ کیا ہے ۔ بھارت میں نریندر مودی کے اقتدار سنھبانے کے بعد وہاں انتہا پسند ہندوؤں کے جنون اور غیر مہذبانہ کارروائیوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ بھارت کا سیکولر ازم جلد ہی انتہا پسند ہندوؤں کے ہاتھوں دم توڑ دے گا۔

بھارت میں انتہا پسند ہندوؤں کی جارحانہ اور ظالمانہ کارروائیوں کا روزکوئی نہ کوئی واقعہ سامنے آرہا ہے ۔انتہا پسند ہندوؤں کے ساتھ ساتھ بھارتی پولیس بھی وحشی پن پر اتر آئی ہے ۔ کبھی بھارتی مسلمان شہریوں کو پاکستان اور داعش کا ایجنٹ قرار دے کر وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، کبھی انتہا پسند بی جے پی کی حکومت مہاراشٹر میں ملا زمتوں اور تعلیمی اداروں میں مسلمانوں کے لیے مختص پانچ فیصد کوٹہ بھی ختم کردیا جاتا ہے، کبھی بی جے پی حکمران جماعت کے رہنما کھلم کھلا کہہ دیتے ہیں کہ جس نے گوشت کھانا ہے وہ پاکستان چلا جائے۔

کبھی انتہا پسند ہندوتنظیم شیو سینا کے کارکن کرکٹ بورڈ کے دفتر پر دھاوا بول دیتے ہیں، کبھی بھارتی کرکٹ بورڈ کے صدر ششانک منوہرکو دھمکیاں دی جاتی ہیں کہ وہ پاکستانی کرکٹ بورڈ کے چیئرمین سے ملاقات منسوخ کردیں اور انھیں پاکستان بھیج دیا جائے، کبھی پاکستان کے خلاف نعرے لگائے جاتے ہیں ،کبھی مقبوضہ کشمیر کے رکن اسمبلی انجنیئر رشید کے منہ پر سیاہی پھینک دی جاتی ہے  اور انھیں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے ،کبھی شیوسینا کی دھمکیوں کے بعد پاکستان کے غزل گائیک استاد غلام علی کا ممبئی میں طے شدہ کنسرٹ منسوخ کروادیتے ہیں ،کبھی کراچی سے ممبئی جانے والے پاکستانیوں کو ہوٹل کی سہولت فراہم نہیں کی جاتی ،کبھی بھارتی حکومت انتہا پسند ہندوؤں کے خوف سے پاکستانی طلبہ کو وطن واپس بھیج دیتے ہیں ۔ حال ہی میں دلی میں مسلح افراد نے 4مسلمان خواتین کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بناکر خاندان کے سربراہ کو گولی مارکر قتل کردیا تھا ۔

یاد رہے کہ یکم ستمبر 2016ء کو ہر یانہ کے ڈینگر ہیڑی گاؤںمیں حملہ آوروں نے مبینہ طور پر ایک بچی اور ایک شادی شدہ خاتون کو زیادتی کا نشانہ بنایا اور ان کے دو رشتے داروں کو بھی قتل کردیا تھا  ۔گائے کا دفاع  بھارت کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پار ٹی کی ثقافتی قوم پرستی کی اہم بنیاد ہے جو آگے چل کربھارت کا رہی سہے سیکولر تشخص کو تباہ برباد کردے گا، اگر بی جے پی اوراس کی حامی تنظیموں، جیسے بجرنگ دل ،گاؤ رکھشا دل اور ہندو جاگرن منچ نے اپنے قدم واپس نہیں کھینچے  تو یہ ثقافتی سیاست انھیں بہت مہنگی پڑنے والی ہے کیوں کہ اس ثقافتی پھندے کا جواب خاص طور پر بھارت کے ادیبوں نے دیا ہے، بھارت کی تاریخ میں مختلف زبانوں کے معروف ادیبوں نے بڑی تعداد میں مزاحمت کے طور پر ایوارڈز واپس کرکے ایک مثال قائم کی ہے۔

سینئر بھارتی صحافی کلدیپ نائرکا کہنا ہے کہ بھارت میں کچھ ایسے عناصر اور جماعتیں ہیں جو ملک کو سیکولر نہیں دیکھنا چاہتے، ہوسکتا ہے سرکار میں بھی ایسے لوگ ہوں جو انتہا پسندؤں کو پسند کرتے ہوں ، مودی کے برسر اقتدار آنے کے بعد یہ رجحان زیادہ ہوگیا ہے اور ان کی جماعت کے کارکن سمجھتے ہیں کہ وہ جو چاہے کرسکتے ہیں۔

ایمنسٹی انٹر نیشنل کی سالانہ رپورٹ کے مطابق بھارتی حکومت فرقہ وارانہ تشدد کے ایسے سیکڑوں واقعات روکنے میں ناکام رہی جس میں اکثریتی ہندو آبادی کی طرف سے مسلمانوں یا دیگر اقلیتوں کو  نشانہ  بنایا گیا ، صرف یہی نہیں بلکہ حکمران جماعت بی جے پی کے ارکان پارلیمان نے اپنی اشتعال انگیز تقاریر اور تشدد کا جواز دے کر مذہبی تناؤ کو فروغ دیا ، حکومت نے سول سوسائٹی کے ایسے گروپوں کو ہراساں کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہے جو حکومتی اقدام پر سوال اٹھاتے ہیں۔

یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ بھارت کے حالیہ مردم شماری کے نتائج میںمسلمانوں کی مسلسل بڑھتی ہوئی اور ہندوؤں کی بتدریج کم ہوتی ہوئی آبادی سے خدشہ ظاہر کیا جارہاہے کہ2065ء تک بھارت مسلمانوں کا ملک بن جائے گا ۔آر ایس ایس کے تھنک ٹینک نے انتباہ کیا ہے کہ اگر مسلمانوں کے لیے فیملی پلاننگ کو لازمی قرار نہیں دیا گیا، تو اگلے پچاس برسوں میں بھارتی مسلمان ہندوؤں سے زیادہ ہوجائیں گے اور یہاں ہندوؤں کے بجائے مسلمانوں کی حکومت ہوگی۔ کیوں کہ بھارت میں مسلمانوں کی آبادی 22کروڑ ہوچکی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ بھارت کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی ایگزیٹو کونسل نے آر ایس ایس ، شیو سینا ، بجرنگ دل اور دیگر ساتھی تنظیموں کے تعاون سے مسلمانوں کی آبادی کا تناسب کم کرنے کے لیے مودی حکومت کو سفارشات پیش کردی ہیں جن میں مسلمانوں کے لیے فیملی پلاننگ لازمی قرار دینے ، ہندوؤں کے اسلام قبول کرنے پر قانونی پابندی ، مسلمان مردوں پر دوسری شادی کرنے کی پابندی  اور مسلمان مردوں و خواتین کی جبری نس بندی سمیت ان کے لیے ملازمتوں اور  تعلیمی اداروں میں مختص کوٹہ ختم کرنے اور مساجد و مدارس کے قیام پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

دوسری طرف شیوسینا کے ترجمان جریدہ سامنا نے اپنی رپورٹ میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کو ہندوؤں کے لیے براہ راست خطرہ قرار دیتے ہوئے بھارتی ہندوؤں کو مشورہ دیا ہے کہ جس طرح حالیہ ایام میں گجرات کی ہندوبرادری پٹیل نے ملازمتوں ، تعلیمی اداروں اور دیگر شعبہ جات میں کوٹے کی مانگ کی ہے اسی طرح ہندونوجوان ملک میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کا مقابلہ کرنے کے لیے حکومت سے 4شادیوں کے اخراجات اور ان سے ہونے والے 12عدد بچوں کی کفالت کی رقم کا مطالبہ کریں ۔

واضح رہے کہ ہندو دیو مالائی مذہب (ہندو میرج ایکٹ ، مجریہ آئین ہند ) میں جہاں بیوہ اور مطلقہ ہوجانے پر خواتین کی دوسری شادی کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی، وہیں ہندو مت میں مردوں کی دوسری شادی یا ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے کو بھی مذہبی اعتبار سے معیوب سمجھا جاتا ہے جس سے ہندوؤں کی آبادی میں کمی ریکارڈ کی گئی ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔