منصفانہ ٹیکس سسٹم کی ضرورت

ایڈیٹوریل  پير 28 جنوری 2013
 بڑے بڑے جاگیردار‘ وڈیرے اور بااثر افراد جن کی سالانہ آمدن اربوں روپے میں ہے حکومت کو انکم ٹیکس کی مد میں ایک روپیہ بھی ادا نہیں کرتے۔  فوٹو: فائل

بڑے بڑے جاگیردار‘ وڈیرے اور بااثر افراد جن کی سالانہ آمدن اربوں روپے میں ہے حکومت کو انکم ٹیکس کی مد میں ایک روپیہ بھی ادا نہیں کرتے۔ فوٹو: فائل

ایک خبر کے مطابق وفاقی حکومت نے رواں مالی سال کے دوران ٹیکس وصولیوں کا خسارہ پورا کرنے کے لیے آیندہ ماہ سے 50 ارب روپے مالیت کے نئے ٹیکسز لگانے کی حکمت عملی تیار کر لی ہے جس کی حتمی منظوری وزیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ جلد دے دیں گے۔ اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ حکومت کو ملک کا نظام چلانے کے لیے سرمائے کی ضرورت ہوتی ہے جس کے حصول کے لیے وہ شہریوں پر ٹیکس عائد کرتی ہے۔ شہریوں پر بھی یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنا ٹیکس ایمانداری سے ادا کریں تاکہ حکومت کو ریاستی نظام چلانے اور ترقیاتی کاموں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں کسی مالی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے۔پاکستان میں ٹیکس چوری کرنا یا سرے سے ادا ہی نہ کرنے کا کلچر گہری جڑیں رکھتا ہے،اس کے ساتھ ساتھ ٹیکس کی وصولی کا نظام بھی خاصا پیچیدہ ہے ۔

یہ نظام ٹیکس دہندہ کو ٹیکس کی ایماندارانہ ادائیگی سے فرار کے مختلف ’’چور راستے‘‘ مہیا کرتا ہے۔ وہ امرا جن پر بھاری ٹیکس عائد ہوتا ہے وہ ٹیکس دیانتداری سے ادا کرنے کے بجائے چور راستہ اختیارکرتے ہیں۔اس میں انھیں سرکاری اہلکاروں کا تعاون حاصل ہوتا ہے۔ اس سودے بازی میں فریقین تو مالا مال ہوجاتے ہیں مگر ٹیکس ریٹرن میں کمی کے باعث حکومتی خزانے کو خسارے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایک اطلاع کے مطابق پاکستان میں ایک کروڑ لوگوں کو قابل ٹیکس قراردے کر رجسٹرڈ کیا گیا ہے مگر ان میں سے اکثریت ایک روپے بھی ٹیکس ادا نہیں کرتی۔ 2010ء کی ایک رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں صرف 19 لاکھ افراد نے ٹیکس ریٹرن فائل کیا۔

سرکاری ملازم اور عام شہری تو حکومت کو باقاعدگی سے ٹیکس ادا کر رہے ہیں مگر بڑے بڑے جاگیردار‘ وڈیرے اور بااثر افراد جن کی سالانہ آمدن اربوں روپے میں ہے حکومت کو انکم ٹیکس کی مد میں ایک روپیہ بھی ادا نہیں کرتے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق ملک بھر میں مختلف بااثر طبقوں اور امراء کو 84 فیصد ٹیرف اور ڈیوٹیز تو سرے سے معاف ہیں یا ان میں کمی کر دی گئی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ وہ بااثر افراد جو ٹیکس چوری کرتے یا سرے سے ٹیکس ہی جمع نہیں کراتے وہ تو تمام مراعات اور سہولتوں سے مستفید ہوتے ہیں مگر عام صارف جو ٹیکس ادائیگی میں اپنا کردار بھرپور طور پر ادا کرتا ہے ہر قسم کی مراعات سے محروم مختلف قسم کے بنیادی مسائل کا سامنا کر رہا ہے۔ روز مرہ کی اشیاء پر عائد جنرل سیلز ٹیکس عام صارف بھی امیر آدمی کے برابر ادا کر رہا ہے۔

اشیا کی پیداوار پر عائد ایکسائز ڈیوٹی اور جنرل سیلز ٹیکس کی رقم نہ تو فیکٹری مالک اپنی جیب سے ادا کرتا ہے اور نہ دکاندار بلکہ اسے اشیا کی اصل قیمت میں شامل کر کے عام صارف کی جیب ہی سے وصول کیا جاتا ہے۔ فیکٹری مالک ایکسائز عملے کی ’’مہربانیوں‘‘ سے اشیا کی اصل پیداوار کم ظاہر کر کے ایک جانب ایکسائز ڈیوٹی بچاتا تو دوسری جانب مارکیٹ میں فروخت ہونے والی حقیقی پیداوار میں شامل ایکسائز ڈیوٹی صارف کی جیب سے نکال کر ہر دو جانب سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق ایف بی آر کو پہلی ششماہی کے دوران ٹیکس وصولیوں کے مقررہ ہدف سے 57 ارب روپے کی کمی کا سامنا ہے جسے پورا کرنے کے لیے 50 ارب روپے مالیت کے نئے ٹیکسز کا جال پھینکا جا رہا ہے۔

حکومت ایوان صدر‘ وزیراعظم، ارکان اسمبلی و سینیٹ‘ وزرا اور بیورو کریسی کو دی جانے والی بے جا مراعات کو ختم کرے تو اس سے بھی ہر سال اربوں روپے کی بچت ہو گی۔ لازمی امر ہے کہ بڑے بڑے جاگیرداروں‘ وڈیروں اور بااثر افراد کو ٹیکس نیٹ میں لا کر ان سے ٹیکس کی وصولی کو یقینی بنایا جائے، بااثر طبقے کو ٹیرف اور ڈیوٹیز میں رعایت ختم کرنے کے ساتھ ساتھ ٹیکس ریکوری کا نظام بہتر اور شفاف بنایا جائے تو حکومت کو ٹیکس وصولیوں کا خسارہ پورے کرنے کے لیے غریب عوام پر نئے ٹیکس لگانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ٹیکس سسٹم میں موجود خامیوں کو دور کرنا بھی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔سرکاری افسروں اور اہلکاروں پر جائیدادوں اور کاروبار کا سالانہ گوشوارہ جمع کرانے کی پابندی عائد ہونی چاہیے تاکہ ان کی مالی ترقی کا پتہ چل سکے۔اس طریقے سے حکومتی مشینری پر بھی چیک ہوگا اور وہ ایمانداری سے کام کرے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔