سرخی پاؤڈر کے بجائے رام پوری

ڈاکٹر نوید اقبال انصاری  پير 28 جنوری 2013
apro_ku@yahoo.com

[email protected]

بال ٹھاکرے، پاکستان و ہندوستان کے باسیوں میں ایک جانا پہچانا نام، شدت پسندی کی علامت، گزشتہ دنوں ان کی سالگرہ منائی گئی۔ اس سالگرہ پر بال ٹھاکرے کی تنظیم کی جانب سے بھارتی خواتین کو چھوٹے چاقو (رام پوری) تقسیم کیے گئے اور خواتین سے کہا گیا کہ وہ اپنی عصمتوں کی حفاظت کے لیے اب پرس میں بجائے سرخی پائوڈر کے رام پوری رکھیں اور جونہی کوئی بری نیت سے ان کی جانب بڑھے اسے سبزی کی طرح اسی رام پوری یعنی چھوٹی چھری سے کاٹ ڈالیں۔

بھارتی خواتین کو رام پوری سے اپنی عزت بچانے میں کس قدر مدد ملے گی یہ تو وقت ہی ثابت کرے گا مگر اتنا اندازہ ضرور ہے کہ آج سے 40,30 سال قبل کے دور میں جب بدمعاش افراد اپنے پاس چاقو ہتھیار کے طور پر رکھتے تھے یہ رام پوری خواتین کی کسء حد تک مددگار ضرورت ثابت ہوسکتا تھا مگر جدید اسلحے کے اس پرآشوب دور میں کوئی صنف نازک اپنے نازک ہاتھوں سے بھلا رام پوری سے کیسے کام لے گی؟ ویسے بھی جن معاشروں میں ذرائع ابلاغ صبح و شام عریانیت کا بازار گرم کرکے نو عمروں اور نوجوانوں ہی میں کیا عمر رسیدہ افراد میں بھی ہیجانی کیفیت پیدا کر رہے ہیں وہاں آوارہ، بدقماش اور جرائم پیشہ وروں کو کس طرح اور کہاں کہاں روکا جاسکتا ہے؟ حالیہ واقعات میں دلّی میں گینگ ریپ کے واقعات بھی رپورٹ ہوئے اور ایک 17 سالہ لڑکے کا 25 سالہ خاتون پر ریپ کا الزام بھی آیا۔ یہ واقعات چند ایک نہیں بلکہ تسلسل کے ساتھ ہورہے ہیں۔ دلّی شہر میں ان واقعات کے بعد حکومت کی جانب سے ایک ہیلپ لائن قائم کردی گئی ہے جہاں خواتین اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعات اور دھمکیوں کی رپورٹ درج کراتی ہیں، ان شکایات میں مرد پولیس کا غلط رویہ بھی بڑی تعداد میں سامنے آیا ہے۔

بی بی سی پر بھارت کی ایک سماجی کارکن نے اپنے انٹرویو میں بھارت میں خواتین کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ بھارت میں خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے یا ان کے ساتھ زیادتی کرنے کے واقعات بہت زیادہ اور نمایاں ہورہے ہیں، مگر مڈل کلاس اور ذرائع ابلاغ میں اس وقت زیادہ شور اٹھتا ہے جب ’’اسٹیٹس کو‘‘ کو خطرہ لاحق ہے۔ جو واقعات ’’اسٹیٹس کو‘‘ کو مینٹین کرتے ہیں یا سہارا دیتے ہیں ان پر شور نہیں اٹھتا۔ ان سماجی کارکن خاتون نے یہ بھی کہا کہ خواتین کے ساتھ بدسلوکی جنگ کا ہتھیار تسلیم کیا جاتا ہے، فوج و پولیس کو ریپ کی چھوٹ حاصل ہے۔ بھارت کے شہر گجرات میں 2002 میں مسلمان لڑیوں کو ریپ کیا گیا، تشدد کرکے جلایا گیا وہاں کے وزیر اعلیٰ کو سزا دینے کے بجائے دوبارہ کئی مرتبہ وزیر اعلیٰ کی سیٹ پر بٹھا دیا گیا۔ ایسا ہی کچھ حال کشمیر میں بھی خواتین کے ساتھ ہے، مگر اس پر سب خاموش، میڈیا بھی خاموش کیونکہ اس سے اسٹیٹس کو مضبوط ہوتا ہے۔

بھارت میں حالیہ کیسز میں خواتین کے ساتھ بدسلوکی کے نتیجے میں موت واقع ہونے پر اب ملزمان کو عمر قید کی سزا مقرر کرنے کے لیے مطالبہ کیا جانے لگا ہے۔ پاکستانی معاشرے میں بھی خواتین کو بہت زیادہ تحفظ حاصل نہیں اس لیے کہ یہاں اسلامی معاشرہ نہیں بلکہ جاگیردارانہ کلچر ہے اور جاگیردارانہ سوچ تو اب شہری علاقوں میں بھی سرائیت کرگئی ہے۔ نجی پاکستانی ٹی وی چینلز کے پروگراموں نے آئسکریم اور بیوٹی پارلر میں قائم فحاشی کے اڈوں کا پردہ بھی چاک کیا اور والدین کو یہ بھی دکھایا کہ تفریحی پارکس حتیٰ کہ قائد اعظم کے مزار پر ان کی اولاد کیا کچھ کر رہی ہیں۔ ایسا ہونا کچھ زیادہ حیرت انگیز بھی نہیں کیونکہ جن معاشروں میں ذرائع ابلاغ صبح و شام نوجوانوں کو صراط مستقیم سے ہٹانے کا راستہ دکھائیں، جہاں مخلوط تعلیمی نظام و ملازمت کاکلچر مزید مواقع مہیا کرے اور جن معاشروں میں نکاح کرنا انتہائی مشکل بنادیا جائے وہاں یہی کچھ ہوتا ہے۔

ایک طبقے کا خیال ہے کہ خواتین کو مردوں کے شانہ بشانہ چلنا چاہیے اور صرف درس و تدریس تک محدود نہیں رہنا چاہیے بلکہ زندگی کے تمام شعبوں میں ملازمت بھی کرنی چاہیے کیونکہ یہ ان کا حق ہے، بات تو بظاہر بہت اچھی ہے لیکن حقائق کہتے ہیں کہ عملاً ایسا نہیں ہے۔ خواتین کو دوران ملازمت تو کیا دوران سفر بھی تحفظ حاصل نہیں، عوتوں کو برابر لانے کا نظریہ رکھنے والے اور درس دینے والے انھیں تحفظ دینے میں عملاً ناکام رہے ہیں بھارت میں ہونے والے واقعات اس کی واضح مثال ہیں۔ ہمارے ہاں تو خواتین کو سفر کرنا بھی دشوار ہوتا ہے، باوجود اس کے کہ خواتین کے لیے علیحدہ حصے مخصوص ہیں جبکہ بھارت میں تو بس ہی ویرانے میں لے جاکر گینگ ریپ کے واقعات کیے جارہے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ بعض ناقدین یہ رائے دیں کہ بھارت میں بھی قانون کی بالادستی نہیں ہے یا سوسائٹی کا کردار مستحکم نہیں ہے لیکن مغربی دنیا کے اعداد و شمار بھی کم خطرناک نہیں ہیں۔ مغربی ممالک کے اعداد و شمار کو بھی ایک طرف رکھ دیں، امریکی فوج کا کیا حال ہے؟

امریکی فوج میں تو یقیناً قانون کی حکمرانی ہوگی؟ وہاں تو صد فیصد نہ سہی 99 فیصد ہی سہی خواتین کی عزت محفوظ ہونی چاہیے۔ مگر عملاً ریکارڈ کچھ اور ہی بتا رہا ہے۔ 9/11 کے بعد امریکی کانگریس میں فوج میں جنسی حملوں کی سماعت کرنے والے ارکان نے کہا کہ تحقیق میں انکشاف ہوا کہ مسلح افواج میں ساتھی فوجی خواتین سے جنسی زیادتیاں کرنے کے واقعات بڑے پیمانے پر ہورہے ہیں ان میں ایسے بھی واقعات ہوئے کہ جن میں بہت سی خواتین کو متعدد بار زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ امریکی وزیر دفاع کے مطابق 2003 میں ریٹائرڈ خواتین فوجیوں نے انکشاف کیا کہ 500 میں 30 فیصد کو دوران ملازمت ریپ کیا گیا۔ اسی طرح ایک اور 2004 کی رپورٹ کے مطابق فوج کے اندر ریپ کے ہونے والے 90 فیصد واقعات کی رپورٹ نہیں ہوئی۔ ایک امریکی خاتون فوجی مارتی ریبائیرو کا کہنا تھا کہ وہ اپنا اسلحہ رکھ کر ایک طرف سگریٹ پینے گئی تو اس پر حملہ کیا گیا مگر وہ رپورٹ درج نہیںکروا سکتی کیونکہ اسلحہ چھوڑنے کے جرم میں اس کا کورٹ مارشل ہوسکتا تھا۔ حال ہی میں امریکی وزیر دفاع لیون پینٹا نے نئے قانون کے تحت امریکی فوجی خواتین کو چھوٹے یونٹس کا حصہ بننے سے پابندی اٹھائی ہے جس سے فوج میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ یہ تو وقت ہی بتائے گا یا وہ فوجی خواتین جنہیں آئندہ جنسی حملوں کے مسائل درپیش آسکتے ہیں کہ یہ فیصلہ ان کے حق میں کس قدر بہتر تھا۔

امریکی فوج میں خواتین فوجیوں کے ساتھ بدسلوکی کے واقعات کی طویل داستان ہے، یہاں مختصر ذکر کرنے کا مقصد صرف یہ تھا کہ دنیا کی روشن خیال، جدید اسلحے سے لیس اور منظم فوج بھی اپنی خاتون فوجیوں کی عزت و ناموس کے تحفظ کی ضمانت نہیں دے سکتی تو کیا بھارت میں بال ٹھاکرے کی تنظیم کے تقسیم کردہ ’’رام پوری‘‘ خواتین کی عصمت کو محفوظ کرسکیں گے؟

خواتین کو تحفظ کیسے فراہم کیا جاسکتا ہے؟ تاریخ اسلام کے اس سنہری دور پر نظر ڈالیں (جس میں تنہا خاتون کو دور دراز سفر کرنے کے دوران بھی مکمل تحفظ حاصل ہوتا ہے) تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ تحفظ دو حصوں میں تقسیم تھا، اول پاکیزہ ماحول کا قیام دوئم جرم سرزد ہونے پر انصاف کی بروقت فراہمی اور مجرم کو سزا۔ اسلامی سزاؤں پر روشن خیال طبقے کی تنقید اپنی جگہ اور خواتین کے حقوق کے نعرے بھی اپنی جگہ، غور طلب بات یہ ہے کہ جہاں اس قسم کے روشن خیال لوگوں کی حکمرانی ہے وہیں خواتین شدید عدم تحفظ کا شکار ہیں، جہاں خالی ہاتھ اور جدید ترین اسلحے سے لیس خواتین کی عزت اپنے ہی فوجیوں کے ہاتھوں محفوظ نہ ہو، اسے شدید عدم تحفظ ہی کہا جاسکتا ہے۔

مذکورہ بالا حقائق میں راقم نے دو وقت کی روٹی کے عوض عصمتیں فروخت کرنے والی خواتین کا ذکر نہیں کیا، اگر اس حوالے سے اعداد و شمار اور معاشرے پر کاری ضرب کا ذکر کیا جائے تو ترقی یافتہ ممالک کی صورت حال اور بھی قابل افسوس دکھائی دیتی ہے۔ زبردستی اور مجبوری میں عصمتوں کی پامالی کی طویل کہانیاں ہیں جن سے نجات کے دو ہی طریقے ہیں ایک پاکیزہ ماحول تاکہ جرم کی طرف راغب کرنے والے راستے ہی محدود کردیے جائیں، دوئم بروقت انصاف و سزا تاکہ کسی سے جرم سرزد ہو بھی جائے تو معاشرے کے دیگر افراد عبرت حاصل کرتے ہوئے جرم سے دور رہیں۔ آج کے دور میں ذرائع ابلاغ سے جاری فحاشی و عریانیت اور ضرورت سے زیادہ مخلوط ماحول خواتین کی عصمتوں کو پامال کرنے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے، جس پر ٹھنڈے دل سے غور کرنے اور اس ماحول کو بدلنے کی ضرورت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔