خوفناک طرز عمل

مقتدا منصور  پير 5 جون 2017
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

چند روز سے ایک نئے قضیے نے پورے سیاسی منظرنامے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (JIT) کو متنازعہ بنانے کی کوششیں تو روز اول ہی سے جاری ہیں۔ دو مسلم لیگی رہنما طلال چوہدری اور دانیال عزیز تسلسل کے ساتھ پاناما تفتیشی عمل کے بارے میں ہرزہ سرائی کرتے رہے ہیں۔ لیکن 28 مئی کو یوم تکبیر کے موقع پر اس جماعت کے سینیٹر نہال ہاشمی نے عدالت عظمیٰ کے ججوں اور JIT کے اراکین اور ان کے اہل خانہ کو جس انداز میں دھمکیاں دیں، اس کی کسی تعلیم یافتہ شخص بالخصوص وکیل سے توقع نہیں کی جا سکتی۔ مگر وطن عزیز میں کچھ بھی ناممکن نہیں۔

جس روز یہ اظہاریہ شایع ہو گا، مذکورہ سینیٹر پر توہین عدالت کی فرد جرم عائد کی جا نے کی توقع ہے۔ لیکن یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ آیا عدلیہ ریاستی اداروں کے ذمے داروں اور ان کے اہل خانہ کو دھمکیاں دینے والے مسلم لیگی رہنما کی تقریر و تصویر پر پابندی عائد کرتی ہے یا نہیں۔ حالانکہ گئی جمعرات کو اس سلسلے میں ہونے والی پہلی پیشی کے دوران ایک جج نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ آیا ملک میں مافیاکی حکومت ہے۔ اس سے قبل پاناما مقدمہ کے پہلے فیصلے میں جسٹس کھوسہ نے اپنے فیصلے میں Mario Puzo کے تحریر کردہ مقبول عام انگریزی ناول God Father کا تذکرہ کیا تھا، جو مافیا کی سرگرمیوں کے گرد گھومتا ہے۔گویا فاضل ججوں کے ذہنوں میں مسلم لیگ (ن) کے بارے میں شکوک وشبہات موجود ہیں۔

لیکن یہ پوری صورتحال اداروں کے درمیان تصادم کی کیفیت کو ظاہر کرتی ہے۔ یہ تصادم کوئی نئی بات نہیں، بلکہ روز اول سے جاری ہے۔کبھی خواجہ ناظم الدین مرحوم کی حکومت کی برطرفی کی شکل میں۔کبھی دستور ساز اسمبلی کی تحلیل کی صورت میں۔کبھی اسکندر مرزا اور ایوب خان کی ملی بھگت سے مارشل کے نفاذ اور اسکندر مرزا کی معزولی سے۔کبھی یحییٰ خان کے مشیر نوابزادہ شیر علی خان کی جانب سے نظریہ پاکستان کا شوشہ چھوڑنے اور پھر ملک کے دولخت ہونے کے پس پشت۔ بھٹو حکومت کے خاتمے اور انھیں تختہ دار تک پہنچانے کا سبب بھی یہی ادارہ جاتی تصادم تھا۔ 1988ء سے 1999ء کے دوران حکومتوں کی مدت پوری کیے بغیر تحلیل بھی ادارہ جاتی تصادم کا شاخسانہ تھا۔ اسی طرح 12 اکتوبر 1999ء کو جو ہوا وہ بھی ادارہ جاتی تصادم ہی تھا۔

پاکستان کے 70 برس کے سیاسی منظرنامہ پر نظر ڈالیں، تو پاکستان میں دو کلیدی بحران نظرآئیں گے، جنھوں نے دیگر بحرانوں کو جنم دیا ہے۔ پہلا بحران ریاست کے منطقی جواز کی تفہیم اور دوسرا گورننس کا بحران ہے۔ یہ دونوں بحران روز اول ہی سے ملک کو ایک حقیقی وفاقی جمہوریہ اور ایک مہذب اور شائستہ معاشرہ بنانے کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ لیکن یہ ایک دوسرے سے جڑے ہوئے بھی ہیں۔ اس لیے ان کی شدت کئی گنا بڑھ گئی ہے۔

تاریخ کا مطالعہ ہمیں بتاتا ہے کہ دنیا کے کئی خطوں میں عوام نے آزادی کے حصول کی خاطر کہیں عقیدے، کہیں نسلی ولسانی شناخت اور کہیں قومیت کا سہارا لیا۔ لیکن جب ریاست کی شکل میں قطعہ ارض مل گیا، تو پھر جذباتی نعروں سے جان چھڑا کر انھوں نے معاشی اور سماجی ترقی کی منصوبہ بندی کو اپنی اولین ترجیح بنالیا۔ لیکن پاکستان کی مقتدرہ (سیاسی وانتظامی دونوں) قیام پاکستان سے قبل کی نعرہ بازی سے آج تک جان نہیں چھڑا سکی ہے۔ حالانکہ بانی پاکستان نے دستور ساز اسمبلی کے افتتاحی اجلاس میں سمت کا واضح طور پر تعین کردیا تھا۔ منطقی جواز کا یہی بحران ملک میں انتشار کے تسلسل کا باعث ہے۔

آج جو بحران ہے، وہ سیاسی جماعتوں اور ریاستی اداروں کے آئینی حدود سے تجاوز کرنے کا نتیجہ ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا پاکستان ہی میں سیاسی جماعتیں اور ریاستی انتظامی ادارے آئینی حدود سے تجاوز کرتے ہیں یا دنیا کے دیگر ممالک میں بھی ایسا ہوتا ہے۔ دیکھا جائے تو یہ رجحان دنیا کے دیگر ممالک میں بھی اکثر وبیشتر سامنے آتا رہتا ہے۔ مگر مستحکم سیاسی نظام اور مضبوط ریاستی ادارے ایسے رجحانات کے پیدا ہوتے ہی ان پر باآسانی قابو پالیتے ہیں۔ پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ یہاں سیاست فیوڈل کلچر کے چنگل میں پھنسی ہوئی ہے، جب کہ ادارے چیک اینڈ بیلنس کے دائرے میں آنا اپنی توہین سمجھتے ہیں۔

امریکا کی مثال لیجیے، 1972ء کے انتخابات سے قبل انتخابی سرگرمیوں کے دوران واٹرگیٹ نامی عمارت میں قائم ڈیموکریٹ پارٹی کے مرکزی دفتر میں بَگنگ کے ذریعے ری پبلکن پارٹی کی جانب سے معلومات حاصل کرنے کا ثبوت مل جانے پر عدلیہ رچرڈ نکسن کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے انھیں عہدے سے معزول کر دیتی ہے۔ لیکن ری پبلکن پارٹی نے نہ عدلیہ کو دھمکی دی اور نہ اس کے ججوں کے خلاف معاندانہ مہم چلائی۔

دور کیوں جائیں، پڑوس ہی کو دیکھ لیجیے، جہاں عدلیہ، الیکشن کمیشن اور دیگر اداروں کا ادارہ جاتی احتساب تو ہوتا رہتا ہے، لیکن ان اداروں کی تذلیل و تحقیر کا کوئی کلچر نہیں ہے اور نہ ہی اس کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ جس کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ اعلیٰ عدلیہ نے مسز اندرا گاندھی کی جانب سے لگائی گئی ایمرجنسی کو خلاف آئین قرار دیدیا تھا۔کئی وزرائے اعظم پر کرپشن اور بدعنوانی کے مقدمات چلے۔ نرسمہا راؤ کو بعد از مرگ سزا بھی سنائی گئی۔BJP کی جانب سے بھارت کو ہندو ریاست بنانے کی کوششوں کے خلاف عدلیہ سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑی ہوگئی۔ بھارت میں ہم سے بڑے بحران آتے ہیں، لیکن ادارے مضبوط ہونے کی وجہ سے ان پر کبھی جلد کبھی بدیر قابو پالیا جاتا ہے۔

ہمارا معاملہ یہ ہے کہ ہماری سیاست اور ریاستی ادارے فیوڈل Mindset سے جان چھڑانے میں ناکام ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ 1960ء تک ملک جیسے تیسے انڈین سول سروس کے افسران کی وجہ سے چل گیا۔ مگر اس کے بعد تنزل  کا نا ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو گیا۔ خاص طور پر بنگلہ دیش کی آزادی کے بعد ملک مکمل طور پر فیوڈل کلچر کی گرفت میں چلا گیا۔ طلبا تنظیموں پر پابندی نے سیاست میں مڈل کلاس کی آمد کا سلسلہ روک دیا۔ بیوروکریسی کا حلیہ دانستہ بگاڑ دیا گیا۔ جس کے نتیجے میں ایسی بیوروکریسی ابھر کر سامنے آئی، جس کا مطمع نظر ریاست کی خدمت کے بجائے حکمرانوں کی چاپلوسی بن گیا۔ یہی کچھ حال عدالتی نظام کا بھی ہے۔ جہاں ماہرین قانون (Jurists) نہ ہونے کے برابر رہ گئے ہیں۔ جو ہیں وہ زیادہ تر وکلا (Pleaders) ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ججوں کے فیصلوں کے بجائے جج خود بول رہے ہیں اور وہ کچھ بول رہے ہیں، جو انھیں نہیں بولنا چاہیے۔

اب ایک بار پھر نہال ہاشمی کی طرف آتے ہیں۔ نہال کا تعلق کراچی کے ایک مڈل کلاس گھرا نے سے ہے۔ وہ ایک عام سا وکیل ہے،نہال ہاشمی نے ججوں، JIT کے اراکین اور ان کے اہل خانہ کے بارے میں جو زبان استعمال کی ہے، وہ کسی طور پر بھی قابل قبول نہیں ہوسکتی۔ جو لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ ان جملوں کے پیچھے مسلم لیگ (ن) کی مرکزی قیادت ہے، وہ غلط نہیں ہیں۔ کیونکہ مسلم لیگ (ن) کا ماضی بھی اداروں کے ساتھ تصادم سے عبارت ہے، خواہ وہ فوج ہو یا عدلیہ۔ یہ غلط رجحان ہے، جس کا نقصان کسی ادارے یا جماعت کے بجائے پوری ریاست کو بھگتنا پڑے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔