وہی ہوتا رہے گا جو ہو رہا ہے

ظہیر اختر بیدری  پير 5 جون 2017
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

ٹرمپ سعودی عرب ریاض میں 56 مسلم ملکوں کی ’’بامقصد‘‘ کانفرنس میں شرکت کے بعد اسرائیل پہنچے تو وہاں فلسطینیوں نے پرزور احتجاج کیا، پرامن احتجاج کے حق کو مغربی دنیا انسانوں کے بنیادی حقوق میں مانتی ہے، اسرائیل میں جہاں چوبیس گھنٹے فوج گنیں اٹھائے کھڑی رہتی ہے وہاں کسی کا پرتشدد احتجاج موت کو دعوت دینے کے مترادف ہوتا ہے، ایسی صورتحال میں فلسطینی پرتشدد احتجاج کر کے اپنی موت کو کس طرح دعوت دے سکتے ہیں۔

ٹرمپ کے دورہ اسرائیل کے دوران جب فلسطینیوں نے پرامن احتجاج کیا تو اسرائیلی فوج نے ان پر اندھادھند فائرنگ کر دی، جس میں 11 فلسطینی زخمی ہو گئے اور ٹرمپ کے بیت اللحم کے دورے کے دوران ایک فلسطینی جاں بحق ہو گیا۔ اسرائیل پچھلے ستر برس سے فلسطینیوں کے ساتھ بارود کی زبان ہی میں بات کرتا آ رہا ہے جس کے نتیجے میں اب تک لاکھوں فلسطینی شہید اور لاکھوں دربدر ہو گئے ہیں۔

ٹرمپ نے اپنے دورۂ اسرائیل کے دوران بھی یہی یقین دلایا ہے کہ ’’میں اسرائیل اور فلسطین کے درمیان امن کی کوشش کروں گا۔‘‘ ٹرمپ کا یہ فرمودہ بلاشبہ حوصلہ افزا بات ہے، لیکن ٹرمپ کی اسرائیل میں موجودگی کے دوران 14 فلسطینیوں کا زخمی اور 1فلسطینی کا ہلاک ہونا کیا امریکی صدر کی امن کی خواہشوں کا منہ چڑانا اور طاقت کی حکمرانی کا اظہار نہیں؟ ٹرمپ نے اپنی سیاسی سنت پوری کرنے کے لیے کہا کہ ’’اسرائیل کو انسانی حقوق کا احترام کرنا ہو گا‘‘۔

امریکی صدور 70 سال سے اسرائیل سے اس قسم کی گزارشات کرتے آ رہے ہیں لیکن اسرائیلی حکمران ان گزارشات کو چنداں اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں۔کیا دنیا کی سپرپاور کی نیک خواہشات کو ٹھوکروں میں اڑانا اخلاق باختگی اور امریکی صدر کی توہین کے مترادف نہیں ہے؟ امریکا جیسی سپرپاور اور اسرائیل کے سرپرست کے اسرائیل آمد کے موقع پر نہتے فلسطینیوں پر گولیاں چلانا اسرائیلی وحشیانہ طاقت کے اظہار کے علاوہ اور کچھ ہو سکتا ہے۔

جب مشرق وسطیٰ میں صدیوں سے مقیم فلسطینیوں کو بے دخل کر کے ایک نیا ملک اسرائیل بنایا جا رہا تھا تو امریکا اور مغرب کا رویہ ایسا ہی دوستانہ تھا؟ اسرائیل کو قائم کر کے لاکھوں فلسطینیوں کو دربدر کرنے میں کتنا عرصہ لگا؟ اور اسرائیل کے قیام کے بعد فلسطینیوں کو ان کا الگ ملک بنانے میں کیوں اس قدر دیر ہو رہی ہے۔ کیا ٹرمپ کے پاس اس سوال کا کوئی جواب ہے؟ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ علاقے میں امن کے لیے اور تشدد کے خاتمے کے لیے پرعزم ہیں۔

فلسطینی صدر نے ٹرمپ کے ساتھ منعقدہ ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا کہ اسرائیل فلسطین پر غیر قانونی اور غیر اخلاقی قبضہ جمائے بیٹھا ہے۔ اسرائیلی جیلوں میں بند سیکڑوں فلسطینیوں کو جیل میں بھوک ہڑتال کیے 36 دن گزر گئے ہیں، لیکن ان کا کوئی پرسال حال نہیں ہے۔ کیا ٹرمپ ان بے گناہ فلسطینیوں کی ہڑتال سے ناواقف ہیں؟

دو ریاستوں کی تھیوری تو سابق صدور اور موجودہ صدر ٹرمپ بڑے وثوق سے پیش کرتے ہیں اس تھیوری کی بازگشت تو مدتوں سے سنی جا رہی ہے لیکن اس تھیوری کو پریکٹیکل میں بدلنے کے لیے اور کتنی صدیوں کا وقت درکار ہو گا؟ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسرائیل کو راتوں رات تخلیق کرنے والے امریکا اور اس کے اتحادیوں کو فلسطینیوں کو ان کا ملک چھینا ہوا ملک واپس دلانے میں دو نسلیں کیوں گزر گئیں؟

ٹرمپ کا دورہ ریاض تین حوالوں سے کامیاب رہا، 56 مسلم ملکوں کو اپنا اتحادی بنا کر ٹرمپ نے اسرائیل کا مستقبل تو محفوظ کر دیا لیکن ریاض کے دورے میں ٹرمپ نے اسرائیل اور فلسطین کے درمیان مذاکرات کی راہ ہموار کرنے کے پرفریب وعدوں کے فلسطین کا مسئلہ حل کرانے کے لیے کوئی موثر قدم اٹھایا ہے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ 56 مسلم ملکوں نے دہشت گردی کے خلاف امریکا کے اتحادی بننے کا شوق تو پورا کر لیا لیکن کسی مسلم ملک نے اس اتحاد کو اسرائیلی دہشت گردی کے خلاف اقدامات کرنے کا مطالبہ کیا؟

ٹرمپ جن مقاصد کے ساتھ 56 ملکوں کی کانفرنس میں آئے تھے اس کا اولین مقصد اسرائیل کو تحفظ فراہم کرنا تھا، اس مقصد میں ٹرمپ کامیاب رہے۔ دوسرا مقصد امریکی معیشت کی مضبوطی تھا 56 مسلم ملکوں کے امریکا کے ساتھ ایک پیج پر آ جانے سے سیاسی فائدوں کے ساتھ ساتھ اقتصادی مقاصد کا حصول بھی منطقی طور پر آسان ہو گیا۔ اس کانفرنس سے 56 مسلم ملکوں کا وزن بھی امریکی پلڑے میں آ گیا اور عرب دنیا عملاً اسرائیل کے ساتھ اس اتحادی پلڑے میں آ گئی۔

یہاں رک کر جب میں نے فلسطین اور کشمیر کی 70سال سے جاری جنگ کی بنیادوں پر نظر ڈالی اور گہرائی سے اس کا جائزہ لیا تو اس قسم کے تمام مسائل کی بنیادی وجہ انسانوں کی مختلف حوالوں سے تقسیم ہی نظر آئی۔ فلسطینی، اسرائیلی، ہندوستانی، پاکستانی، روسی، امریکی، چینی، جاپانی، برٹشز، فرانسیسی وغیرہ وغیرہ اس کے علاوہ سب سے بڑی اور خطرناک مذہبی تقسیم۔ بلاشبہ انسانی تاریخ انسانوں کے ہاتھوں انسانوں کے خون سے بھری ہوئی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ مفکروں، فلسفیوں، دانشوروں، آفاقی وژن رکھنے والے ادیبوں شاعروں فنکاروں میں ان دنیاوی مسائل کے حل میں کوئی کردار ہی نہیں سارے اختیارات کم ظرف اہل سیاست کے ہاتھوں میں ہیں، تو پھر وہی ہوگا جو ہو رہا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔