لوڈشیڈنگ اور اعداد و شمار کا گورکھ دھندا

ذوالقرنین زیدی  پير 5 جون 2017
znzaidi@yahoo.com

[email protected]

نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے ماہانہ فیول ایڈجسٹمنٹ سرچارج کی مد میں بجلی کی قیمت حال ہی میں ایک روپیہ 96 پیسے فی یونٹ کم کرنے کی منظوری دی ہے۔ سرکاری ذرایع کے مطابق بجلی کے نرخوں میں یہ کمی اپریل کے فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں کی گئی ہے، جس سے صارفین کو ساڑھے 14 ارب روپے کا ریلیف ملے گا، تاہم اس رعایت کا اطلاق حسب سابق، اس بار بھی کراچی کے صارفین پر نہیں ہوگا (کیوں؟ واللہ اعلم بالصواب)۔

ہاں ہمیں تو بس اتنا پتہ ہے گزشتہ دنوں پیداوار کے مقابلے میں بجلی کی طلب بڑھی تو 7 ہزار میگاواٹ کا شارٹ فال پیدا ہوگیا۔ حکومت ہی کے ایک اہم نمایندے نے بتایا تھا کہ جون تک 1300 میگاواٹ بجلی سسٹم میں شامل ہوجائے گی۔ چند روز بعدگرمی کی شدت میں قدرے کمی آئی، طلب گری تو لوڈشیڈنگ بھی گھٹ گئی، مگر وزرا جھوٹ بولنے سے باز نہ آئے کہ 5 ہزار میگاواٹ بجلی سسٹم میں شامل کر کے بحران پر قابو پا لیا گیا ہے۔

حال ہی میں گرمی نے دوبارہ زور پکڑا اور طلب پھر سے بڑھ گئی تو ایک بار پھر شارٹ فال 7 ہزار میگاواٹ پر پہنچ گیا۔ کوئی پوچھے ان وزرا سے کہ اب وہ 5 ہزار میگاواٹ کہاں ہیں جو آپ نے سسٹم میں شامل کیے تھے؟ اوریہ بھی کہ جب وزارت پانی و بجلی نے کہہ دیا تھا کہ جون تک 1300 میگاواٹ بجلی سسٹم میں شامل کی جائے گی تو مئی کے دوران ہی یہ 5 ہزار میگاواٹ کہاں سے آگئے تھے؟

سچ بات تو پتہ نہیں کیا ہوگی، البتہ حکومت کی کارستانیاں دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ حکومت بجلی کا بحران ختم کرنے میں قطعی سنجیدہ نہیں۔ عین ممکن ہے کہ ہمارے حکمرانوں کے لیے بجلی کا بحران بھی زبوں حال پولیسنگ اور عدالتی نظام، صحت وتعلیم وغیرہ جیسے شعبوں کی طرح عوام کو حسب منشا اپنی دسترس میں رکھنے کا کوئی آلہ، کوئی حربہ بن چکا ہو، یا پھر ساتھ ہی ساتھ آمدن کا ذریعہ بھی۔ ورنہ حکومت کے 4 سال میں ہزاروں ارب روپے کے منصوبے اور قومی گرڈ میں بجلی کی شمولیت محض 3500 میگاواٹ، کیا ملک اور قوم کے ساتھ مذاق نہیں؟

خیر اس حوالے سے ہم بہت سی باتیں پہلے کرچکے اور بہت سی بعد میں کرلیں گے۔ اس وقت تو بجلی کی قیمت میں کمی کے اعلان نے یہ اضطراب بڑھا دیا ہے کہ حکومت تو آئے روز کمی کیے جارہی ہے اور بجلی کے بل ہیں کہ کم ہونے کے بجائے بڑھتے ہی چلے جاتے ہیں، اس کی وجہ آخر کیا ہوسکتی ہے؟ بجلی کے میٹر تیز رفتار ہونے کی وجہ سے بجلی کا بل زیادہ آنے کی شکایت ہی عام طور پر کی جاتی ہے اور اس حوالے سے کسی بھی فوجی یا جمہوری حکومت نے کوئی نظام ایسا وضع نہیں کیا کہ عوام کی دادرسی ہوسکے۔ حکومت کرے بھی کیوں؟ کہ آئی روزی کو کون لات مارتا ہے۔

صرف یہی نہیں بلکہ موجودہ حکومت کے پاس انتہائی قابل افراد کی ٹیمیں موجود ہیں جو اعداد وشمارکے گورکھ دھندوں کے ذریعے ایسے کام دکھا جاتی ہیں کہ شیطان بھی پناہ مانگتا ہوگا۔ آیئے ذرا جائزہ لیتے ہیں، ن لیگ کی حکومت کے آغاز پر بجلی کے بلوں کی ادائیگی کے لیے سلیب کچھ اس طرح تھے (مختلف شہروں کے لیے ٹیرف الگ ہوسکتے ہیں)۔ پہلے 100 یونٹس پر 5.80 روپے فی یونٹ، 100 سے 200 تک 8 روپے فی یونٹ، 200 سے 300 تک 10.50 روپے فی یونٹ، 300 سے 500 یونٹ تک 12 روپے فی یونٹ وغیرہ۔ عام یا 400 یونٹ استعمال کرنے والے صارفین کو اسی حساب سے بل اداکرنا ہوتا تھا، یعنی پہلے 100 یونٹس پر 580 روپے، 100 سے 200 یونٹ تک کے استعمال پر 800 روپے، 200 سے 300 تک 1050 روپے جب کہ 300 سے 400 تک 1200 روپے۔ یوں مجموعی طور پر (1050+1200+580+800) 3630 روپے کے بل (علاوہ تمام ٹیکسز و دیگر واجبات) کی ادائیگی کرنا ہوتی تھی۔

ن لیگ کے برسراقتدار آنے کے بعد سلیبس تو اسی طرح برقرار رکھے گئے مگر طریقہ کار انتہائی چالاکی سے تبدیل کردیا گیا اور نئے طریقہ کار کے تحت تمام سلیبس سے ریٹ لینے کے بجائے آخری 2 سلیبس سے ریٹ کا اطلاق کیا جانے لگا اور آخری سے پہلے والے سلیب کو بنیاد بناکر پہلے 300 یونٹس پر ریٹ 10.50 روپے فی یونٹ یعنی پہلے 300 یونٹ کا بل 3115 روپے جب کہ آخری سلیب یعنی 300 سے 400 یونٹ تک 12 روپے کے حساب سے 1200روپے اور مجموعی بل (3115+1200) 4315 روپے وصول کیے جانے لگے۔ یوں ایک صارف پر 1200 روپے کا اضافی بوجھ بڑی آسانی کے ساتھ لاد دیا گیا اور حکومت آئے روز بجلی کے نرخوں میں کمی کا اعلان کرکے عوام کی داد وصول کرتی رہی، دوسری جانب عوام بے چارے بجلی سستی ہونے کے باوجود پہلے سے زیادہ بل ادا کرکے یہ سمجھنے سے قاصر رہے کہ آخر ماجرا کیا ہے۔

اگر موجودہ پیداوار سے ہی حکومت، حکمرانوں اور ان کے حواریوں کو 25 فیصد زیادہ آمدنی ہونے لگی ہو تو حکومت کوکیا پڑی کہ پیداوار یا سپلائی بڑھا کر یہ رقم حاصل کرے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت نے پاور کمپنیوں کو بجلی کی فراہمی بڑھانے کی اجازت اسی لیے نہیں دی کہ اگر عوام کو زیادہ بجلی فراہم کی گئی تو بل اور بھی زیادہ بڑھ جائیں گے۔

24 گھنٹوں میں سے 12 یا 16 گھنٹے بجلی استعمال کرنے والے اگر 24 گھنٹے بجلی استعمال کرنے لگیں تو ان کا بجلی کا استعمال تو محض ڈیڑھ سے دوگنا تک بڑھے گا لیکن فارمولے کے تحت اس کا بل دو سے تین گنا یعنی 8630 روپے سے لے کر 12945 روپے تک پہنچ جائے گا، جس کے نتیجے میں عوام کی جانب سے تو مزاحمت کا سامنا تو شاید نہ کرنا پڑے البتہ حکومت مخالف سیاسی پارٹیاں بہترین پوائنٹ اسکورنگ کرسکتی ہیں۔

اب ہم بات کرتے ہیں بجلی کا میٹر تیز چلنے کے حوالے سے۔ بجلی کے میٹر کی اسپیڈ معلوم کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ بجلی کا ایک یونٹ ایک کلو واٹ فی گھنٹہ کے برابر ہوتا ہے، یعنی اگر ایک ہزار واٹ کی کوئی بھی معیاری چیز مثلاً استری، بلب، موٹر یا کوئی اور چیز ایک گھنٹے چلائی جائے تو میٹر پر ایک یونٹ صرف ہونا چاہیے۔ اسی طرح 100 واٹ کا بلب 10 گھنٹے چلانے سے ایک یونٹ خرچ ہوگا۔ 25 واٹ کا انرجی سیور 40 گھنٹے چلانے سے ایک یونٹ خرچ ہوگا۔ 70 واٹ کا پنکھا 14 گھنٹے چلانے سے بھی ایک یونٹ صرف ہوگا۔ عوام اسی حساب سے اپنے میٹر کی رفتار کے درست یا غلط ہونے کا باآسانی پتہ چلاسکتے ہیں جب کہ گھر کی دیگر اشیا کی پاور کے اعدادوشمار کے ذریعے مجموعی استعمال کا حساب کتاب بھی کرسکتے ہیں۔

مگر کیا کہیں، بس یہی کہ حکومت کو عوام کے مفاد سے کوئی غرض نہیں، یہ سب ڈھکوسلے ہیں مال بنانے کے، ورنہ ایسی چال بازیوں کی حکومت کو بھلا کیا ضرورت ہے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔